Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kabul Kahani: Afghanistan Aur Taliban Ko Samjhain (6)

Kabul Kahani: Afghanistan Aur Taliban Ko Samjhain (6)

دورہ افغانستان میں خوش قسمتی سے ہمیں کئی طالبان رہنمائوں سے ملنے کا موقعہ ملا، گلبدین حکمت یار سے تفصیلی ملاقات سے بھی بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملی۔ یونیورسٹی آف غرجستان میں سی پیک سیمینار میں شرکت کی، وہاں طالبان کے نائب وزیر کامرس ڈاکٹر عبدالطیف نظری سے ملاقات ہوئی، ان کا تعلق ہزارہ (شیعہ)سے ہے، ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ بیٹھے تھے تو ان سے گپ شپ بھی ہوئی اوربچیوں کی تعلیم کے بارے میں ان کے مثبت خیالات بھی سنے۔ پاکستانی سفارت خانہ نے چائے پر بلایا۔ سفیر منصور صاحب اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ آج کل چارج ڈی افئیرز اسد عباس اعوان تھے۔ اعوان صاحب سے ملاقات بہت اچھا، خوشگوار تجربہ رہا۔ انہوں نے چائے اور پکوڑوں، سموسوں پر اچھی گپ شپ کی، فارمیلیٹیز میں پڑے بغیر۔ مجھے ان کی فکری یکسوئی اور عملیت پسندی نے متاثر کیا۔ وہاں ہمارے پریس اتاشی طاہر صاحب ہیں، بہت متحرک اور فعال آدمی، انہوں نے چند منٹوں میں شمشاد چینل کا وزٹ طے کرا دیا۔ افغان سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسنز سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ مجموعی طور پر پورے دورے میں کئی باتیں سمجھ آئیں اور بعض نتائج اخذ بھی کئے۔

افغانستان میں سب اچھا نہیں ہے، بلیک اینڈ وائٹ کے ساتھ گرے ایریاز بھی ہیں۔ اس کے باوجود ماننا پڑے گا کہ ہمارے لئے بہت سی اچھی چیزیں ہوئی ہیں۔ پاکستان دشمن افغان انٹیلی جنس (NDS)سے نجات مل گئی۔ بھارتی اثرورسوخ جو خوفناک حد تک بڑھا ہوا تھا، وہ اب صفر ہوچکا۔ امارات اسلامیہ افغانستان اپنی سرحد کو بطور پالیسی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر ہماری ملٹری پریزنس کم ہوتی جائے گی، زیادہ فوج رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ افغانستان میں کسی بھی قسم کے امریکی اڈے یا ان کی فوجی موجودگی نہیں ہے۔ مئی دو ہزار گیارہ کی طرح کے ایبٹ آباد آپریشن کی نوبت اب ان شااللہ نہیں آئے گی۔ یہ طے ہے کہ کم از کم افغانستان کی طرف سے تو اب امریکی یہاں نہیں گھس سکتے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ افغان طالبان آزاد اور خودمختار ہیں۔ ہمیں زبردستی ان کا محسن بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی بگ برادر یا پنجابی محاورے کے مطابق" ماما" بننے کی ضرورت ہے۔ طالبان ایسا کوئی بھی کردار قطعی قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں ان کی پوزیشن اور حساسیت کو سمجھنا ہوگا۔ وہ اپنے اوپر کسی بھی قسم کا لیبل ہرگز نہیں لگوانا چاہتے۔ حامدکرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کو طالبان مسلسل امریکی ایجنٹ کہتے رہے۔ اب وہ نہیں چاہتے کہ ان پر کوئی پاکستانی ایجنٹ ہونے کی پھبتی کسے۔ ہماری طرف سے جب بھی کوئی ضرورت سے زیادہ (Too Much)بڑے بھائی والا رویہ اپنایا گیا، طالبان فوری ردعمل دیں گے اور دانستہ فاصلہ پیدا کر لیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ایک غلطی ماضی میں کی، دوسری چند دن پہلے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بیان دیا کہ ہم افغانستان سے کوئلہ لیں گے، یہ ہمیں سستا پڑے گا اور ہم ڈالر کے بجائے باہمی لین دین کر لیں گے۔ یہ بیان دینا غیر ضروری تھا، اس ایشو کو ہائی پروفائل بنائے بغیر ہی ڈیلنگ چل سکتی تھی۔ شہباز شریف کے اس بیان کے بعد افغانستان میں طوفان امنڈ آیا۔ طالبان مخالفوں نے فوری پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ طالبان حکومت افغان اثاثے مفت میں پاکستان کو بیچے جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا جہاں طالبان مخالفین افغان اکثریت میں ہیں، انہوں نے ایسی خوفناک مہم چلی کہ طالبان کو ردعمل ظاہر کرنا پڑا۔ ایک وزیر نے پاکستان مخالف سخت بیان دیا۔ کوئلہ پر ڈیوٹی ڈبل کر دی گئی اور جو کوئلہ ہمیں زیادہ سستا مل سکتا تھا، وہ اس غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد نسبتاً مہنگا پڑا، اگرچہ عالمی مارکیٹ سے وہ اب بھی سستا ہے کیونکہ ٹرانسپورٹیشن کا خرچ زیادہ نہیں۔

ابھی چند دن پہلے شہباز شریف نے بیان دیا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں ابھی تک موجود ہیں اور پاکستان کو خطرہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس پر بھی طالبان میں ردعمل آیا۔ اگرچہ انہوں نے محتاط رویہ اپنایا، مگر افغانستان میں اس پر منفی لہر پیدا ہوئی۔ افغان سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے یہ بیان امریکی دبائو پر دیا اور مقصد افغانستان کو بدنام کرنا ہے۔ ان چیزوں کو سلیقے سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے اس حوالے سے دلچسپ بات مجھے ایک افغان دوست نے بتائی کہ افغانستان میں اور خاص کر طالبان میں یہ تاثر ہے کہ آل شریف اینٹی افغانستان موقف رکھتے ہیں۔ یہ تاثر(غلط یا درست)بہرحال وہاں موجود ہے۔

ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بھی نئی بات ایک طالبان رہنما نے بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن افغان پشتونوں کا ایشو ہے، افغان تاجک، ازبک، ہزارہ وغیرہ اس سے بے نیاز ہیں۔ سیکولر تاجک دانشور تو اعلانیہ کہتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن ہی اب رسمی سرحد ہے۔ دراصل تاجکوں، ازبکوں، ہزارہ قوم پرستوں میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ گریٹر پختونستان کا نعرہ بھی لگایا جائے کیونکہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی پشتونوں کا ملنا انہیں مزید اقلیت بنا دے گا۔ اس لئے ڈیورنڈ لائن پر جو بھی حساسیت ہے وہ افغان پشتونوں کا ایشو ہے، باقی افغانوں کا نہیں۔ یاد رہے کہ اپنی سرحد کے حوالے سے طالبان بہت حساس ہیں۔ اشرف غنی جیسے اینٹی پاکستان شخص کے دور حکومت میں پاکستان نے سینکڑوں میل طویل سرحدی باڑ بنا لی، جبکہ طالبان کے دور میں ایک انچ باڑھ نہیں لگ سکی۔

کرکٹ میچوں کے حوالے سے بھی جو کچھ مخالفت یا غصہ وغیرہ ہے وہ افغان پشتونوں میں ہے۔ یہ بات زیادہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ کرکٹ افغان پشتونوں ہی میں مقبول ہے جبکہ شمال کے علاقوں اور ہرات وغیرہ میں فٹ بال مقبول ہے، یعنی تاجک، ازبک وغیرہ فٹ بال پسند کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں رہنے اور آنے جانے کی وجہ سے پشتون افغان کرکٹ کھیلتے اور پسند کرتے ہیں۔ افغان کرکٹ ٹیم میں بھی تقریباً سب پشتون ہی ہیں اور ان کا معاندانہ رویہ افغانستان کی پشتو بولنے والی نئی نسل میں پاکستان مخالف جذبات کا غماز ہے۔ کوشش کی جائے تو اس مخالفت کو نیوٹرلائز کرنا مشکل نہیں۔

ہمیں دونوں اطراف کے ذمہ داران نے یہ بات زور دے کر کہی کہ میڈیا سرحد پر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات کو ہوا نہ دے۔ ایسی چیزیں چلتی رہیں گی، ان سے مگر تعلقات پر فرق نہیں پڑتا۔ ایک مثال دی گئی کہ ابتدائی دنوں میں مقامی سطح پر ایک طالبان کمانڈر نے پاکستانی ٹرک سے پاک جھنڈا اتار دیا، اس پر شور مچااور پاکستان میں افغانوں کو بہت کچھ سنایا گیا۔ طالبان نے حالانکہ فوری نوٹس لے لیا تھا، اس مقامی کمانڈر کو جیل بھیج دیا گیا، مگر جارحانہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہوگئی۔ ذمہ دار حلقے کہتے ہیں اختلافی امور کو لوپروفائل رکھیں، چند دنوں میں سب سیٹ ہوجاتا ہے، اس لئے میڈیا والے بھی (پنجابی محاورے کے مطابق) ٹھنڈ رکھیں۔

پاکستان کو طالبان کی مدد کرنی چاہیے، آگے بڑھ کر اور جس قدر ممکن ہوسکے۔ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ افغان طلبہ کو سکالرشپ پر پاکستان بلایا جائے، افغان کھلاڑیوں خاص کر انڈ رنائنٹین ٹیم کو مدعو کریں، جس قدر کرکٹ آپس میں کھیلی جائے گی، اتنی ٹینشن کم ہوگی۔ طورخم اور چمن کراسنگ پرآنے جانے والے افغان کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان میں کمی کی جائے، یہ بہت ضروری ہے۔ ٹریڈ اور بزنس ایکٹویٹیز جس قدر بڑھ سکتی ہیں، بڑھائیں۔ یہ کام صرف سرکار نہیں کر سکتی، نجی شعبہ کو ساتھ لے کر چلیں۔

پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ جس کا شہرہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اسے پاک افغان تعلقات پر اپلائی کیا جائے۔ افغان صحافیوں، اینکرز، کالم نگاروں، ادیبوں، دانشوروں کو مختلف وفود کی شکل میں پاکستان مدعو کیا جائے۔ افغانستان میں پنجاب کے خلاف بھی منفی جذبات موجود ہیں۔ اس کا سدباب اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ان افغانوں کو پنجاب بلایا جائے اور وہ اپنی آنکھوں سے پنجابیوں کی فراخ دلی اور کھلے پن کا تجربہ کریں۔

پاکستانی منصوبہ سازوں نے ایک بڑا اچھا کام یہ کیا ہے کہ افغانستان میں تین چار بڑے پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں۔ اس سے ریجنل کنیکٹویٹی پیدا ہوگی۔ پاکستان اس وقت افغانستان سے دس ہزار ٹن کوئلہ روزانہ لے رہا ہے۔ اسے بڑھا کر پچیس ہزار ٹن کرنے کا ارادہ ہے۔ اس سے افغانوں کو اپنے سالانہ بجٹ کے ساٹھ ستر فیصد کے برابرآمدن ہوگی۔ تاپی گیس پائپ لائن یعنی ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پر ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ طالبان اس کے لئے دل وجاں سے تیار ہیں۔ پاکستان کو یہ فائدہ ہوگا کہ تاپی گیس ایران سے دس فیصد سستی ہے۔

اسکے علاوہ ازبکستان افغانستان ٹو پاکستان ریلوے لائن پراجیکٹ پر کام شروع ہونے والا ہے، پاکستان اسے بنانے میں معاونت کرے گا۔ تیسرا بڑا کام یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان افغان مال پر ڈیوٹیز ختم کر کے سولہ راستے کھول رہا ہے تاکہ افغان مال سرحد پر نہ رکے اور جلد پاکستانی مارکیٹ تک پہنچے۔ ایسا ہوگیا تو افغان تاجروں کے دل جیتے جا سکیں گے۔ چوتھا بڑا کام وا خان ٹریڈ روٹ ہے، اس سے پاکستان ٹو تاجکستان ٹریڈ روٹ کھل جائے گا۔ ان منصوبوں پر تیز رفتاری سے عمل درآمد کیا جائے تو افغانستان اور افغان عوام کی بڑی مدد ہوسکے گی۔ پاک افغان تعلقات میں معاشی پہلو شامل ہوجائیں، دونوں اطراف کو مالی فائدہ پہنچے تو تعلقات میں ازخود گہرائی اور مضبوطی آ جاتی ہے۔