کابل میں حزب اسلامی کے لیڈر اور نامور کمانڈر گلبدین حکمت یار سے ملاقات کا پتہ چلا تو اشتیاق بڑھ گیا۔ گلبدین حکمت یار کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، کئی واقعات ان سے منسوب ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف افغان تحریک مزاحمت میں حکمت یار بہت اہم اور نمایاں کمانڈر تھے۔ مجاہدین کا سات جماعتی اتحاد مشترکہ جدوجہد کر رہا تھا۔ ان میں سے چار جماعتیں زیادہ نمایاں تھیں، حزب اسلامی یونس خالص گروپ، حزب اسلامی حکمت یار گروپ، پروفیسر برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی(تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود ربانی کی پارٹی کا حصہ تھے) اور استاز عبدالرب رسول سیاف کی جماعت اتحاد اسلامی۔ باقی تین گروپوں میں صبغت اللہ مجددی(جبہ نجات ملی)، مولوی محمد نبی محمدی(حرکت انقلاب اسلامی) اور پیراحمد گیلانی صاحب(محاذ ملی) تھے۔ حکمت یار نسبتاً نوجوان تھے، ان کی شخصیت کرشماتی تھی اور نوجوان جنگجوئوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہوئی۔ پشتون علاقوں میں خاص طور سے ان کا اثرورسوخ تھا۔ ویسے ان کاآبائی صوبہ قندوز ہے، جو شمال میں واقع ہے۔
پاکستان نے امریکیوں سے یہ بات منوائی تھی کہ جہادی کمانڈروں کو اسلحہ سی آئی اے نہیں دے گی، پاکستانی پریمئر ایجنسی ہی دے گی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن نے ساتوں کمانڈروں کو اکیلے اکیلے بلایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کی جماعت تو خیر بڑی اور اہم ہے ہی، آپ کے بعد کون سا کمانڈر اہم ہے۔ روایت کے مطابق سب نے حکمت یار کا نام لیا۔ اختر عبدالرحمن نے اپنے طور پر بھی ایسسمنٹ کرائی تو پتہ چلا کہ افغانستان میں سب سے موثراور زیادہ کارروائی حکمت یار گروپ کررہا ہے۔ انہیں اسی حساب سے بڑا حصہ دیا جاتا رہا۔ اس زمانے میں حکمت یار ہماری اسٹیبلشمنٹ اور منصوبہ سازوں کے فیورٹ (بلیو آئیڈ بوائے)تھے۔
حکمت یار کے حوالے سے دو تین باتیں بڑی مشہور ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا، ریگن تب امریکی صدر تھے، انہوں نے حکمت یار کو وائٹ ہائوس چائے کے لئے بلانا چاہا تو حکمت یار نے انکار کر دیا۔ امریکیوں نے پاکستان سے دبائو ڈلوایا، بہت کچھ کہا گیا مگر گلبدین حکمت نہ مانے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان واپسی پر حکمت یار کو یہ خدشہ تھا کہ جنرل ضیا اس پر برہم ہوگا اور شائد فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کا کہہ دیا جائے۔ ائیرپورٹ پر افغان کمانڈر کو جنرل ضیا کا پیغام ملا کہ سیدھا ان کے گھر آئیں۔ اب خدشہ یقین میں بدلنے لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں پہنچنے پر جنرل ضیا خود استقبال کے لئے موجود تھا، اس نے حکمت یار کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ لے گیا، خوش دلی سے رات گئے تک گپ شپ کرتا رہا، جیسا کہ جنرل کا معمول تھا۔ بعد میں جنرل ضیا نے صرف ایک جملہ کہا، تم نے ٹھیک کیا۔ یہ، امریکی اسی مستحق ہیں۔
دوسری بات جس کا امریکی کانگریس مین چارلی ولسن کی کتاب چارلی ولسنز وار میں بھی تذکرہ ہوا کہ جنگ کے دوران امریکیوں نے ایک خاص ہتھیار کی فراہمی کے لئے اسرائیل کو کہا۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ حکمت یارلینے سے انکار کر دے گا۔ گلبدین حکمت یار کو یہ بات سی آئی اے کے سٹیشن چیف نے بتائی تو جواب ملا، یہ اللہ ہی ہے جو ہمارے کاذ کی خاطر اسرائیل جیسے دشمنوں سے بھی مدد دلوا رہا ہے، نعمت خداوندی ہے، ہم کیوں انکار کریں؟
تیسری بات حکمت یار کا خاص انداز کا عزم اور فکری یکسوئی ہے۔ روس کی واپسی سے چند ماہ پہلے لاہور کے ایک قومی اخبار کے فورم میں گلبدین حکمت یار کو بلایا گیا، اس نے بڑے وثوق سے کہا کہ روسی شکست کھا کر افغانستان سے جانے والے ہیں۔ وہاں پر موجود مہمانوں میں سے بائیں بازو کے معروف دانشور، سیاستدان قسور گردیزی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو حکمت یار نے واضح الفاظ میں کہا، " دیکھیں یہ تو طے ہوچکا ہے کہ روس یہاں سے جا رہا ہے، اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ ہم اسے کس طرح واپس جانے دیں۔ "یہ بات تب انہونی لگتی تھی، مگر صرف چند ماہ میں جینوا معاہدہ ہوگیا۔ روسی فوج اندر سے چکناچور ہوچکی تھی، یہ حکمت یار جان چکا تھا۔ سفید ریچھ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس ملک میں گھسا، کبھی چھوڑ کر واپس نہیں لوٹا، اسے شکست خوردگی کے عالم میں افغانستان سے جانا پڑا۔
حالات کا جبر کہیں یا وقت کا ہیر پھر کہ اسی گلبدین حکمت یارکو بڑے ڈرامائی حالات سے گزرنا پڑا۔ اس کی زندگی نشیب وفراز سے معمور رہی۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد مجاہدین کمانڈروں میں اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ ایک سے زائد بار معاہدہ ہونے کے بعد بھی معاملات سلجھ نہ سکے۔
حکمت یار کے حامیوں کا الزام ہے کہ میاں نواز شریف جو تب وزیراعظم پاکستان تھے، ان کی حکومت نے دانستہ حکمت یار کو عبوری حکومت کا سربراہ بننے کے بجائے نہایت کمزور صبغت اللہ مجددی کو ہیڈ بنایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک اجلاس میں حکمت یار کو بلایا گیا، وہ شریک ہوا، مگر دوران اجلاس اسے اطلاع مل گئی کہ احمد شاہ مسعود کابل میں داخلے کی نیت سے شہر کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ حکمت یار نے احتجاج کرتے ہوئے اجلاس چھوڑکر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ر جاوید ناصر نے ڈانٹ کر اسے بیٹھنے کا کہا، حکمت یار نے شوریدگی سے جنرل کی طرف دیکھا اور کہا کہ مجھے روک سکتے ہیں تو روک لیں، وہ چلا گیا۔ انگریزی محاورے کے مطابق باقی تاریخ ہے۔
چار سال تک احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کابل کے مختلف کونوں میں براجمان ایک دوسرے پر راکٹ برساتے رہے۔ یہ کابل کی تاریخ کا بہت بھدا، سیاہ اور خونی دور تھا۔ دونوں کمانڈر کابل پر بلاشرکت غیرے قبضہ چاہتے تھے۔ ، کسی بھی قسم کی مفاہمت سے انہوں نے انکار کر دیا۔ کابل میں مکانوں کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات برسوں محفوظ رہے۔
افغان جہادی کمانڈروں کی اسی خانہ جنگی سے جو خلا پیدا ہوا، اسے طالبان نے پر کیا۔ ملا عمر کی سربراہی میں قندھار سے ایک گروہ اٹھا، ابتدامیں اپنے قصبے اور پھر ضلع، صوبے میں امن قائم کر کے وہ کابل کی طرف روانہ ہوئے۔ حیران کن تیز رفتاری کے ساتھ مختلف تنظیموں کے کمانڈر اور جنگجو طالبان کے ساتھ ملتے گئے، سفر اتنا تیز تھاکہ چند ہی دنوں میں وہ کابل تک جا پہنچے۔ حکمت یار کو کابل چھوڑ کر ہٹنا پڑا۔ احمد شاہ مسعود نے بھی اپنے گڑھ پنجشیر ہی میں پناہ لی۔ افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہوگئی۔
پنجشیر، بلخ، تخار وغیرہ کے سوا نوے پچانوے فیصد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آ گیا۔ برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، استاد سیاف، دوستم، اسماعیل خان اور دیگر تمام اینٹی طالبان گروہ، وارلارڈ ز نے مل کر شمالی اتحاد بنا لیا، جسے تاجکستان، ازبکستان کے ذریعہ انڈیا سے مالی مدد اور اسلحہ ملا کرتا۔ دلچسپ معاملہ گلبدین حکمت یار کا رہا، ابتدا میں غالباً وہ شمالی اتحاد کی طرف گئے، مگر جلد ہی الگ ہوگئے۔ گلبدین حکمت یار مگر طالبان کا حصہ بھی نہیں بن سکے۔ ان دنوں خبریں آتی رہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، مگر کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کا اصرار تھا کہ وہ امیر المومنین ملا عمر کی غیر مشروط بیعت کریں اور اپنے آپ کو ان کے فیصلے پر چھوڑ دیں۔ حکمت یار اور ان کے قریبی ساتھیوں کو غالباً اس تشویش تھی، وہ پہلے معافی کا اعلان چاہتے تھے، پھر بیعت کا معاملہ۔ کچھ نہ ہو پایا۔ طالبان حکومت کے خاتمے تک حکمت یار اور طالبان ایک دوسرے سے دور ہی رہے۔ مخالف ہی سمجھ لیں۔
دلچسپ معاملہ مگر یہ ہوا کہ نائن الیون کے بعد جب امریکی افغانستان پر چڑھ دوڑے اور شمالی اتحاد والے باچھیں کھلائے مسرور وخوش ان کے ساتھ تھے، چونکہ افغان حکومت اب ان کے ہاتھ آنی تھی۔ گلبدین حکمت یار نے بہت سوں کو حیران کرتے ہوئے امریکی مزاحمت کا اعلان کیا۔ وہ اپنی بساط کے مطابق نیٹو افواج کی مزاحمت کرتے رہے، اس دوران انہیں کئی برس تک ایران بھی رہنا پڑا۔ پھر افغانستان کے مختلف علاقوں میں روپوش رہے۔ ان کے کئی قریبی ساتھی پارلیمنٹ کا الیکشن لڑ کر مین سٹریم کا حصہ بن گئے۔ حکمت یار نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے یہ ڈرامائی فیصلہ اشرف غنی حکومت کے آخری برسوں میں کیا۔ مئی 2017 میں اچانک حکمت یار منظر عام پر آگئے، کابل میں ایک بہت بڑے جلسے سے انہوں نے خطاب کیا، اسی سٹیج سے صدر اشرف غنی نے بھی تقریر کی۔ اس سے پہلے افغان حکومت نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کے لئے عام معافی کاحکم جاری کیا۔ حکمت یار کی واپسی جہاں ان کے بعض حامیوں کے لئے امید کی کرن ثابت ہوئی، وہاں بہت سوں نے عصر کے وقت روزہ توڑنے کا طعنہ دیا۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا، پچھلے سال اگست میں امریکیوں کو جانا پڑا۔ طالبان پھر سے اقتدار میں آ گئے۔ اب کی بار انہوں نے پورے افغانستان پر قبضہ مضبوط کر لیا۔ حکمت یار سے بعض طالبان رہنمائوں کی ملاقاتیں ہوئیں، وہ مگر طالبان حکومت کا حصہ نہیں بنے۔ حکمت یار طالبان مخالف اتحاد" این آر ایف" کا حصہ بھی نہیں بلکہ اس کے اعلانیہ مخالف ہیں۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے حکمت یار کی اپنی آرا اور ویژن ہے۔ کابل میں حکمت یار کی وسیع وعریض مگر سادہ رہائش گاہ میں ہمیں ان سے ڈیڈھ گھنٹے تک ملاقات اور گفتگو سننے کا موقعہ ملا۔ اس پر ان شااللہ کل بات کرتے ہیں۔ (جاری ہے)