کتابوں سے آراستہ ایک ہال میں ہم آٹھ دس صحافی بیٹھے افغانستان کے ممتاز گوریلا کمانڈر اور رہنما گلبدین حکمت یارکا انتظار کر رہے تھے۔ کابل کے جس علاقہ میں ان کا وسیع وعریض مگر سادہ گھر واقع ہے، وہاں پہنچنے سے پہلے چوک اور دیواروں پر حکمت یار کی تصویریں اور تعریف آمیز فقرے لکھے نظر آنے لگے۔ کابل میں یہ بات نوٹ کی کہ وال چاکنگ کابڑے منظم اور بھرپور انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شائد ہی کسی ملک میں ایسا دیکھا ہو کہ حکومت اور انتظامیہ اپنے مختلف اعلانات اور پبلک سروس میسجز کے لئے اتنے زور شور سے دیواروں پر چاکنگ کرے۔
گلبدین حکمت یار نے جہاں ہمارے صحافتی وفد سے ملاقات کرنا تھی، وہاں پیچھے الماریوں میں ان کی کتابیں سجی تھیں۔ کتابوں میں اپنی دلچسپی کے باعث میں اٹھ کربک شیلفس کے پاس گیا اور دیکھا، تقریباً تمام ہی پشتو یا دری میں لکھی کتابیں تھیں، مصنف گلبدین حکمت یار تھے۔ ان کے سیکرٹری جمال الدین اسحاقی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ حکمت یار اب تک ایک سو انتیس 129کتابیں لکھ چکے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سات جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن "د قرآن پلوشی " بھی شامل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ "قرآن کی کرنیں"کے نام سے ڈاکٹر عبدالصمد نے کیا۔ اس کتاب کے بارے میں استفسار کیا تو جمال الدین نے منگوا دی، دیکھا کہ کوئٹہ، پشاور کے علاوہ منشورات، منصورہ لاہور سے بھی یہ دستیاب ہے۔ حدیث کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری کی ایک شرح حکمت یار صاحب نے" حکمتہ الباری" کے نام سے لکھا ہے، یہ بھی سات جلدوں پر محیط ہے۔ دیگر کتابوں میں سائنس اور قرآن کا علمی اعجاز کے علاوہ ایمانیات اور دیگر موضوعات پر مواد شامل تھا۔ خوشگوار حیرت ہوئی۔
گلبدین حکمت یار کے سیکرٹری نے ان کے بارے میں مختصر معلومات فراہم کیں، ان کا تعلق افغان صوبہ قندوز سے ہے، قندوز شمال میں ہے مگر وہاں پشتون بھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں، قندوز کے علاقہ امام صاحب میں آبائی گھر ہے۔ حالیہ دنوں میں البتہ اپنا افغان قومی شناختی کارڈ ننگرہار کا بنوایا ہے۔ ان کا ایک بیٹا حبیب الرحمن سیاسی اعتبار سے ایکٹو ہے جبکہ باقی بیٹے بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نسبتاً غیر سیاسی ہیں، ایک بیٹا جمال الدین پی ایچ ڈی سکالر ہے۔
اتنے میں سادگی سے گلبدین حکمت یار ہال میں داخل ہوئے۔ گرے رنگ کی شلوار قمیص، اوپر کالا کوٹ، سر پر کالی پگڑی نفاست سے بندھی ہوئی، سفید ڈاڑھی، عینک کے عدسوں کے پیچھے چمکتی آنکھیں اورچہرے پر منکسرانہ دلکش مسکراہٹ۔ وہ آئے، ہر ایک کی سیٹ پر جا کر اس سے تپاک سے ہاتھ ملایا اور پھرکتابوں کی الماری کے ساتھ دھری اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
انٹرویو شروع ہوا۔ حکمت یار اردو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بول بھی لیتے ہیں، مگر انہوں نے پشتو ہی میں گفتگو کی۔ اردو پر ان کے عبور کا ایسے اندازہ ہوا کہ ایک دو بار مترجم نے ان کی بات کا پشتو سے اردو ترجمہ کیا تو حکمت یار نے فوراً ٹوک دیا اور لفظ کو تبدیل کرایا کہ یہ میرے معنی کے زیادہ قریب ہے۔ ہمارے وفد کے ایک ساتھی شاہد خان نے مترجم کی خدمات انجام دیں۔ سوال ہم اردو میں کرتے تو وہ فوراسمجھ جاتے مگر کئی بار دانستہ اس کے پشتو میں ترجمہ ہونے دینے کا انتظار کرتے اور پھر پشتو ہی میں جواب دیتے۔
حکمت یار کی گفتگو کا نچوڑ تین چار نکات میں یہ تھا:" افغانستان میں (طالبان کی)عبوری حکومت کی جگہ قانونی(آئینی) حکومت بننی چاہیے۔ پارلیمنٹ نہیں تو اس طرز پر شوریٰ بنے۔ یہ اب ہو جانا چاہیے، گھر کے معاملات ٹھیک ہوں تب ہی باہر کے معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ البتہ امریکہ کی جانب سے شرائط غیر ضروری اور بالکل غلط ہیں۔ امریکی وہی چہرے چاہتے ہیں جو ماضی میں ان کی خدمت کر رہے تھے، یہ غلط ہے۔ "
"اپوزیشن اتحاد" این آ ر ایف"NRF کے آنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ پٹے ہوئے مہرے ہیں، یہ نیٹو کے اتحادی اور ساتھی تھے اور نیٹو کے ساتھ ہی افغانستان سے چلے گئے۔ اگر نیٹو ڈیڈھ دو لاکھ فوج لے کر پھر سے حملہ آور ہو تو شائد ان کا کچھ بن سکے ورنہ افغان عوام انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں، ان کے خلاف ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں اور انہیں عوامی سپورٹ بالکل ہی حاصل نہیں۔ (یاد رہے کہ این آر ایف(باقی صفحہ 5نمبر1)مرحوم تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے بنایا ہے اور وہ نوے کے عشرے کے شمالی اتحاد کی طرز پر مسلح جدوجہد کی کوشش کر رہا ہے۔)
کثیر البنیاد یا Inclusiveحکومت کے بارے میں گلبدین حکمت یار کے خیالات بڑے واضح تھے، ان کے مطابق:" ایسی حکومت بننا نہایت مشکل اور یہ غیر عملی ہونے کے ساتھ غیر معقول بھی ہے۔ یہ (اپوزیشن والے) طالبان سے باہر کے لوگ ہیں۔ طالبان بیس سال ان سے لڑتے رہے ہیں، اب امریکی کہتے ہیں کہ اکھٹے ہوجائیں، کیسے؟ اس کے بجائے افغانستان میں منتخب، قانونی اور آئینی حکومت بننی چاہیے۔ افغانستان کے اندر کی تمام جماعتوں کو افغان عوام سے رجوع کرنا چاہیے۔ منتخب شوریٰ بنے، یہ شوریٰ منتخب حکومت کی طرف لے جائے گی۔ امریکہ اور مغرب کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے۔ امریکہ اور یورپ جہاں ان کی اپنی حکومتیں ہیں، وہاں تو وہ آئین اور انتخابات کی بات کرتے ہیں۔ باقی جگہوں پر یہ اپنی مرضی کے انتخاب چاہتے ہیں، ور نہ یہ جمہوریت اور انتخابات کی بات نہیں کرتے۔ "
سوال پوچھا گیا کہ کیا طالبان کے ساتھ حزب اسلامی حکمت یار شامل ہوگی۔ گلبدین حکمت یار کا جواب تھا:"سوویت یونین اور پھر نیٹو کے خلاف جہاد میں حزب اسلامی فرنٹ پر رہی۔ سب سے پہلا امریکی راکٹ حملہ حکمت یار پر ہوا، نیٹو کے خلاف جہاد کی ابتدا حزب اسلامی نے کی تھی، طالبان تو ابتدا کے دو برس اپنی فیملیز کو تحفظ وغیرہ دینے کے لئے ہٹ گئے تھے، حزب اسلامی یعنی ہم ہی اکیلے امریکیوں سے لڑتے رہے۔ تاہم ہم حکومت میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ عبوری حکومت ہے، اس میں شامل ہونے کی خواہش نہیں۔ ہمارے نزدیک تمام افغان جماعتوں کو مل کر افغان عوام کے سامنے صورتحال رکھنی چاہیے، افغان عوام کا فیصلہ سب قبول کریں۔ "
ٹی ٹی پی کے حوالے سے سوال پوچھا تو حکمت یار نے محتاط الفاظ میں جواب دیا:"کابل حکومت کے روابط تمام حکومتوں کے ساتھ ویسے خوشگوار نہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ایران نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ حکومت مخالف جماعتوں کو تاجکستان جگہ دے رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ طالبان حکومت نے کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ ہم یعنی حزب اسلامی تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے۔ "
ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ مسائل کی نشاندہی تو کر رہے ہیں، مگر کیا آپ کے پاس حل بھی ہے۔ حکمت یار کا کہنا تھا:" یہ واضح کر دوں کہ ہم طالبان حکومت کے مخالف نہیں اور نہ اس کا حصہ یا اتحادی ہیں۔ طالبان کے خلاف مسلح بغاوت کے ہم قطعی حامی نہیں اور نہ ہی ہم حکومت کے کمزور ہونے یا ختم کے حامی ہیں۔ جو بغاوت کرنے والی جماعتیں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ وہ پھر سے یہاں آئیں۔ ہم مگر ایک سائڈ پر بھی نہیں ہوسکتے کیونکہ چون برسوں تک ہم نے قربانیاں دی ہیں، ہم سائیڈ پر نہیں ہوسکتے۔ بحران کے حل کے لئے ہمارے پاس ایک مسودہ، ایک پلان ہے۔ دوسروں کے پاس پلان نہیں ہے، مگر وہ حکومت میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ مسلح جدوجہد کرنے والوں کے پاس بھی پلان نہیں ہے۔ ہم افغان عوام سے رجوع کی بات کرتے ہیں جو ایک معقول اور منطقی بات ہے۔ موجودہ صورتحال برقرار نہیں رہ سکتی، انتخابات ہوں یا پھر جنگ۔ افغان عوام جنگ بالکل نہیں چاہتے، ہم بھی نہیں چاہتے۔ ہم نے پہلے بھی طالبان حکومت کو مشورے دئیے، ہر جمعہ کو میرا خطبہ ہوتا ہے، اس میں بھی اصلاح احوال کے لئے تجاویز دی جاتی ہیں۔ "
آخر میں ایک سوال میں نے کیا کہ آپ سید قطب کی موت کی خبر سن کر تحریک اسلامی میں آئے، آپ ان سے بہت متاثر بھی ہیں، کیا یہ امکان ہے کہ سید قطب کی طرح کا بڑا علمی کردار آپ نبھا سکیں، ان مقامی پاور پالیٹکس سے اٹھ کر۔ حکمت یار یہ سن کر مسکرائے اور بولے آپ نے ٹھیک کہا، میں نے میٹرک پاس کیا تھا، اٹھارہ برس عمر تھی، ریڈیو پر سید قطب کی پھانسی کی خبر سنی تو اس سے ہل گیا۔ اس بارے میں پڑھا اور پھر تحریک اسلامی کا حصہ بنا۔ بیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی۔ نیٹو کے بیس برسوں میں بھی علمی مشاغل میں رہا، اب تک پچاس ہزار صفحات لکھ ڈالے ہیں، علمی کام بھی جاری ہے جبکہ سیاسی جدوجہد بھی چل رہی ہے۔ "
انٹرویو کے بعد باہر نکلے تو ایک سینئرساتھی نے دلچسپ تبصرہ کیا، کہنے لگے حکمت یار صاحب بھی پاکستانی حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی طرح نوے کے سیاست کر رہے ہیں، آج سے غیر متعلق، آئوٹ آف ڈیٹ۔ حکمت یار وہ بات کر رہے ہیں جس کی ڈیمانڈ امریکہ اور یورپ تک نہیں کر رہایعنی انتخابات۔ الیکشن طالبان کا ایشو نہیں اور اس وقت مغربی دنیا کا بھی نہیں۔ حکمت یار مگر اپنے اسی پوائنٹ پر کھڑے ہیں، اکیلے، تنہا، سب سے مختلف۔