ٹرانس جینڈر ایکٹ اور اس میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے آج کل میڈیا پر بہت کچھ چل رہا ہے۔ ٹرانس جینڈرز ایکٹوسٹ بڑے ٹھسے سے چینلز سکرینوں پر براجمان ہیں، وہ بڑے سٹائل سے اور روانی سے انگریزی بولتے ہوئے بہت کچھ وہ بول رہے ہیں جو خلاف واقعہ، خلاف حقیقت ہے۔ پچھلے دو تین دنوں میں اس حوالے سے کچھ چیزیں پڑھنے، دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ممتاز ماہر قانون، استاد، مصنف اور دانشور ڈاکٹر مشتاق خان نے اس موضوع پر بڑی عمدگی اور مہارت سے اظہار خیال کیا ہے، ان کی فیس بک پوسٹوں، لیکچرز اور یوٹیوب چینلز کی ویڈیوز سے بہت کچھ آگہی ہوتی ہے، میرے کئی سوالات کا جواب ملا۔ ہم میں سے بہت سوں کو قانونی پیچیدگیوں سے کوئی دلچسپی نہیں، اس لئے عام فہم انداز میں چند بنیادی باتیں بیان کرتا چلوں۔
سب سے پہلے تو خواجہ سرا/ہیجڑازنانہ(یو نِکEunuch) اور ٹرانس جینڈر (transgender) میں فرق سمجھ لینا چاہیے۔ یہ بہت اہم اور بنیادی نکتہ ہے، یہ سمجھ آ گئی تو ہمارے ہاں چلنے والی پوری بحث سمجھ ا ٓجائے گی۔ خواجہ سرا، ہیجڑا، زنانہ، زنخا، کھسرا وغیرہ یہ سب مختلف عوامی سطح کے نام ہیں، اس تھرڈ سیکس (Intersex)کے لئے جو مردانہ صلاحیتوں کا حامل ہے اور نہ وہ عورت جیسا جسم اور تولیدی اعضا رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر جنس دو طرح کی ہوتی ہے، مرد یا عورت۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی میڈیکل ڈس آرڈر کی بنا پر ایسا بچہ پیدا ہوجاتا ہے جو ویسے تو لڑکا ہے، مگر اس میں مردانہ تولیدی اعضا موجود نہیں۔ خال خال ایسے میڈیکل کیسز بھی ہیں کہ کوئی بچی پیدا ہوئی، مگر اس میں عورت کے تولیدی اعضا موجود نہیں۔ ان کے لئے انٹرسیکس(Intersex)یا خنثیٰ مشکل کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ایسا جسم رکھنے والا فرد جو واضح طور پر نہ مرد ہے نہ عورت۔ ظاہر ہے جب یہ بڑے ہوں گے، یہ مرد کا جسم رکھنے کے باوجود مردانہ صلاحیت سے محروم ہوں گے۔ اس محرومی کے اپنے گہرے نفسیاتی مضمرات اور اثرات ہوتے ہیں، یہی بات عورت خواجہ سرا کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے۔
ایک زمانے میں جس گھر میں ایسا انٹرسیکس بچہ پیدا ہوگیا تو صف ماتم بچھ جاتی تھی۔ شعور اور آگہی نہ ہونے کے باعث ایسے بچوں کی زندگی اجیرن بن جاتی تھی۔ روایت ہے کہ جب ہیجڑا یا خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگوں کو کہیں ایسے بچے کی پیدا ئش کا پتہ چلتا تو وہاں پہنچ جاتے اور اس بچے کو مانگ لیتے، ایک زمانے میں والدین معاشرتی دبائو یا خوف کے پیش نظر ان بچوں سے جان چھڑا لیا کرتا تھے۔ یہ ہیجڑے ان بچوں کو لے جاتے، ناچ گانا سکھاتے اور وہ ہیجڑا یا خواجہ سرا کمیونٹی کا حصہ بن جاتے، کبھی آٹھ دس بارہ سال کا ایسا کوئی بچہ خود ہی اس کمیونٹی کے پاس چلا جاتا اور وہ ہیجڑا ہی بن جاتا۔
پھر زمانہ بدلا، طبی سائنس نے ترقی کی تو ڈاکٹروں کی مدد لی جانے لگی۔ آج کے زمانے میں ایسے بیشتر کیسز میں سرجری کے ذریعے یا ہارمون تھراپی کی مدد سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اس لئے انٹرسیکس بچوں کی شرح اب بہت کم ہوگئی ہے۔ نوٹ کیجئے کہ جہاں کہیں کوئی ہیجڑا یا خواجہ سرا نظر آئے وہ اٹھارہ بیس سال سے زیادہ ہوگا یا پھر ادھیڑ عمر ہوگا، دس بارہ سال کے ہیجڑے کم نظر آتے ہیں۔
بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی بچے کے بظاہر مردانہ تولیدی اعضا نہیں، جسمانی صورت بچی کی سی ہے، مگر وہ دراصل لڑکا ہی ہے، چند برسوں بعد اس کا مردانہ روپ ظاہر ہونے لگتا ہے، ویسا مضبوط جسم، بھاری آواز اور کبھی ہلکی ڈاڑھی مونچھ بھی، ایسے بہت سے کیسز میں ڈاکٹر سرجری کر کے اسے لڑکا بنا دیتے ہیں، بعد میں کچھ ہارمون تھراپی کے بعد وہ مکمل طو رپر لڑکا بن جاتا ہے۔ ایسی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، کئی خاتون ایتھلیٹس بھی مرد بن گئیں۔
ہیجڑا/خواجہ سرایا یونِک /یونخ (Eunuch)کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم چین اور سنٹرل ایشیا میں بعض غلاموں یا مردوں کو جبری تولیدی اعضا سے محروم کر کے ہیجڑا بنا دیا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو عام طور سے محل کے حرم سرا، زنانہ خانہ وغیرہ میں بطور ملازم رکھا جاتا۔ مقصد یہ ہوتا کہ مردانہ خصوصیات نہ ہونے کے باعث یہ شہزادیوں یا امرا کی خواتین سے کوئی تعلق قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ان میں سے کچھ مضبوط اور طاقتور جسم والے گارڈز بھی رکھے جاتے۔ ہندوستانی تاریخ میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ کچھ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے کماندار اور وزرا وغیرہ بھی بنے۔ ملک کافور ایسا ہی ایک مشہور کردار ہے، علاوالدین خلجی کا یہ معتمد ساتھی تھا۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر بننے والی ایک انڈین فلم پدماوتی میں یہ کردار فلمایا گیا، اگرچہ اسے مسخ کیا گیا۔
یہ بات واضح ہوگئی کہ خواجہ سرا، ہیجڑا، زنانہ، کھسرا، چھکا وغیرہ وغیرہ کے عوامی ناموں والی کمیونٹی وہ ہے جو مردکا جسم اور شکل صورت رکھتے ہیں مگر وہ حقیقی مرد نہیں نہ ان میں وہ تولیدی اعضا ہیں جو معاشرتی طور پر مردانگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں تیسری جنس یا مخنث بھی کہا جاتا ہے، اکبر الہ آبادی کے مشہور مصرع میں اسی جانب اشارہ کیا گیاع حضرت مخنث ہیں، نہ ہیئوں میں نہ شئیوں میں پاکستان میں عام طور سے اس کمیونٹی سے شادی بیاہ میں واسطہ پڑجاتا ہے، ان میں سے بہت سے لوگ ناچ گانا سیکھ کر اس سے روزگار کماتے ہیں، بچے کی پیدائش پر یا کسی شادی خوشی میں گھر کے باہر آ کر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے، گاتے اور پھر بچے یا دلہا کے والد سے ویل لے کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں میں خاتون کا لباس پہنے، میک اپ سے آراستہ یہ نظر آ جاتے ہیں، خاص کر بڑے شہرو ں کے ٹریفک سگنلز پر بھی یہ اکثر ملتے ہیں۔
اس کمیونٹی کے کچھ لوگ زنانہ لباس تو پہن لیتے مگر وہ ناچ گانا وغیرہ سے گریز کرتے اورصوفی ازم کی طرف مائل ہوجاتے۔ ایسے کئی کرداروں کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے۔ مزارات پر بھی ان کی موجودگی رہتی ہے۔ ان خواجہ سرائوں میں گرو کا بڑا اہم کردار ہے۔ سماج کے بڑے طبقے سے کٹ کر انہیں مجبوراً ایک الگ کمیونٹی یا گروہ کی شکل اختیار کرنا پڑی تو اس میں سینئر یا بزرگ خواجہ سرا کی صورت میں گرو یا مینٹور کا کردار وضع ہوگیا، یہ گرو اپنے شاگردوں یا ساتھیوں کو اولاد کی طرح رکھتا، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ آخری رسومات وغیرہ بھی ادا کرتا ہے۔ ان کی قبرستان میں تدفین بھی بہت سی جگہوں پر مسائل کا شکار رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواجہ سرا، ہیجڑا کمیونٹی کے ساتھ سماجی سطح پر بہت زیادتی ہوتی رہی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک ان کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ شناختی کارڈ ایشو نہیں ہوتا تھا، وراثتی جائیداد میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ ان کا ہر جگہ مذاق اڑایا جاتا ہے۔ خواتین میں یہ جا نہیں سکتے کہ عورتیں ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں کہ نجانے اصلی خواجہ سرا ہے یا کوئی مرد جو بناوٹی طور پر یہ حلیہ بنائے ہوئے ہے وغیرہ۔ یہ طبعاًبنے سنورے پھرتے ہیں اور شادی بیاہ کے لئے خاص طور سے تیار ہوتے ہیں، وہاں پر بہت سے مشٹنڈے ان سے سیکس ورکر کا سا سلوک کرتے اور اسی گھٹیا انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ایسے بہت سے سانحات ہوئے ہیں جن میں ان کے خود ساختہ عاشقوں یا شائقین نے رقابت یا کسی اور معاملے پر انہیں قتل کر دیا، سر کے بال کاٹ دئیے، تشدد کا نشانہ بنایا وغیرہ وغیرہ۔
علاج کے لئے خواجہ سرا ہسپتا ل جائیں تو عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، خواتین وارڈ میں یہ ایڈمٹ ہونا چاہتے ہیں مگر وہاں خواتین مزاحم ہوتی ہیں۔ مردانہ وارڈ میں انہیں بستر ملے تو پورا وارڈ مذاق اڑاتا، فقرے کستا اور تفریح طبع کی چیز سمجھتا ہے۔ تصور کریں کہ موٹر وے پر یا کسی اور جگہ سفر کرتے ہوئے انہیں پبلک ٹوائلٹس میں جانا پڑے تو کتنی مشکل ہوگی؟ کیا کچھ سہنا، سننا پڑے گا؟
خواجہ سرائوں کے ساتھ اس معاشرتی زیادتی یا استحصال پر عدالتوں نے کئی اچھے فیصلے سنائے ہیں اور ریلیف دیا ہے۔ اس حوالے سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کئی کورٹ آرڈرز کے ذریعے خواجہ سرائوں کو بعض بنیادی حقوق دلوائے۔ ان کے شناختی کارڈ بننے لگے، سرکاری محکموں میں ملازمتیں رکھی گئیں۔ دو ہزار نو میں افتخار چودھری نے ایک کورٹ آرڈر جاری کیا اور پھر وقتاً فوقتاً مختلف عدالتی احکامات جاری ہوئے، حتیٰ کہ پچیس ستمبر 2012کو سپریم کورٹ کا اس حوالے سے ایک بہت اہم فیصلہ آیا، جس نے ان کے حقوق کی فراہمی کی راہ ہموار کی۔ یہ مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فیصلے میں بھی لفظ ہیجڑا(Eunuch)استعمال ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواجہ سرااصطلاح کی سینکڑوں ہزاروں سالہ تاریخ کے باوجود خواجہ سرا ایکٹ کیوں نہیں بنا اورچار سال قبل شاہد خاقان عباسی حکومت کے دور میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قانون کا نام ٹرانس جینڈر ایکٹ کیوں رکھا گیا؟ یہ ٹرانس جینڈر کیا چیز ہے اوراس ایکٹ پر اعتراضات کیوں کئے جا رہے ہیں؟ اس پر ان شااللہ بات کرتے ہیں۔ (جاری ہے)