میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ سر پر آن پہنچی، یہ کالم جمعرات کی سہہ پہر کو لکھا گیا اور اس وقت تک میاں صاحب کی اپنی صاحبزادی اور کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جمعہ کی شام لاہور آمد یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے لیڈر کی واپسی کو گلوریفائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ ہم نے اختلاف رائے برداشت کرنے اور شخصیت پرستی سے ہٹ کر نظریاتی بنیاد پر سیاست کی طرح ہی نہیں ڈالی۔
پیپلزپارٹی میں ایسے "شیر جوان" آج بھی مل جاتے ہیں جن کے خیال میں جناب زرداری معصوم اور بے گناہ ہیں، انہوں نے کبھی کرپشن کی اور نہ کریں گے، نوٹوں کی بوریاں سمیٹنے والے تمام تر الزامات اسٹیبلشمنٹ انہیں بدنام کرنے کے لئے لگاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پیروکار انہیں امام سیاست، زیرک زماں اور معلوم نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں۔ مولوی صاحب کی انتہائی درجہ کی موقعہ پرستی، کہہ مکرنیاں اوردین کو اپنی سیاست کے لئے بے دریغ استعمال کرنا انہیں کبھی نظر نہیں آیا۔
امید واثق ہے کہ آئندہ بھی نظروں سے اوجھل ہی رہے گا۔ اے این پی کے کارکن ابھی صدمے کی کیفیت میں ہیں، ان کے قائدین پر تبصرہ مناسب نہیں، حال ویسے ادھر بھی پتلا ہی ہے۔ اس کمزوری سے مستثنیٰ کوئی نہیں۔ پی ٹی آئی کے بہتیرے جوشیلے نوجوان عمران خان کی ہر غلطی اور سیاسی حماقت کا دفاع کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر البتہ انصافین حامیوں نے پرجوش کمپین چلا کر خان کو بعض فیصلے واپس لینے پر مجبور کئے ہیں۔ اس حوالے سے تو ویسے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں کا ذکر بھی آنا چاہیے، بختاور اور آصفہ ابھی سیاست میں باقاعدہ لانچ نہیں ہوئیں، مگر انہوں نے ایک دو بار اپنے ٹوئٹس سے زرداری صاحب کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ افسوس کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ہولناک کرپشن سکینڈلز پر بی بی کی اولاد نے خاموش کی سفاک چادر اوڑھے رکھی۔
آج کل ہمارے بعض صحافی دوست اور کچھ سوشل میڈیا فرینڈز مسلسل اپنی تحریروں، ٹیکسٹ میسج اور زبانی پیغامات کے ذریعے ایک نکتہ سمجھانے کی بار بار کوشش کررہے ہیں کہ میاں نواز شریف جمہوریت اور سول بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس لئے ہر جمہوریت پسند، اصول پسند شہری کو ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے ان دوستوں کے اخلاص، اصول پسندی اور جمہوری جذبے پر کوئی شک نہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اور موقف البتہ ان سے مختلف ہے۔ ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ تین چار نکات ہیں، جنہیں سمجھ لیا جائے تو بات کی سمجھ آ جائے گی۔
میاں نواز شریف کی واپسی میں سیاسی عظمت یا عزیمت کا پہلو پوشیدہ نہیں۔ یہ سیدھی سادی کیلکولیشن پر مبنی فیصلہ ہے۔ اگر وہ واپس نہ آتے تو ان کی سیاست ختم ہوجاتی۔ وہ سیاسی سلطنت (Empire)جس کی تشکیل میں انہیں کئی عشرے لگے، اس کی فصیلیں اچانک منہدم ہوجا تیں۔ پرویز مشرف کے دور میں باہر جانا ایک اور معاملہ تھا۔ مشرف ڈکٹیٹر تھا، اس نے میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا اور مشکوک طیارہ سازش کیس چلایا، جسے عوامی سطح پر قبولیت نہیں ملی۔ پھر اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو بھی باہر تھیں، پنجاب میں متبادل سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔
پرویز مشرف نے اپنے قریبی ساتھیوں کے کہنے پر چودھری برادران کو موقعہ دیا۔ چودھری پرویز الہٰی میں شخصی سحر تھا اور نہ ہی خوئے دلنوازی۔ وہ اپنی جماعت نہ بنا سکے، بطور وزیراعلیٰ کچھ اچھے کام کئے، مگر وہ کافی نہیں تھے۔ سیاسی خلا موجود تھا، اسے پر نہ کیا گیا۔ اب عمران خان کی صورت میں متبادل سیاسی قوت اور مقبول شخصیت موجود ہے۔ نواز شریف صاحب کی گرفت بھی اب پہلے جیسی نہیں، ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں رہا۔ سیاسی ورثہ آل شریف کی نئی نسل کو منتقل ہونا ہے، مگر ان میں پچھلی نسل جیسا اتفاق اور اتحاد نہیں۔
میاں نواز شریف کے باہر رہ جانے کی صورت میں ان کے گھرانے کا سیاسی کردار بالکل ختم ہوجاتا، شہباز شریف اور انکی اولاد کے لئے کچھ نہ کچھ سپیس البتہ موجود رہتی۔ اس لئے وطن واپسی تو ایک ناگزیر مجبوری ہے۔ یہ پہلو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ میاں نواز شریف کو کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر کوئی سیاسی یا جعلی مقدمہ نہیں تھا۔ پانامہ جیسے عالمی سکینڈل کے سامنے آنے پرایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف خاندان کی ملکیت ثابت ہوئے، کیس سپریم کورٹ گیا، جہاں شواہد سامنے آنے پر نااہل کیا گیا اور ٹرائل کے لئے ریفرنس احتساب عدالت میں بھیجے گئے۔ ان میں سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا اور جرمانے کا یہ فیصلہ آیا ہے، باقی ریفرنس ابھی چل رہے ہیں۔ اس لئے یہ بات کہنا تو جھوٹ اور غلط بیانی ہے کہ نواز شریف کو کرپشن میں سزا نہیں سنائی گئی۔ وہ کرپشن کا ہی نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن کا بیانیہ ایک لمحے کے لئے درست مان لیں تب بھی ماننا پڑے گا کہ معاملہ صرف ڈیل کا نہیں۔ اگر ڈیل ہوجاتی تو پھر پانامہ سکینڈل کو کہاں غائب کیا جاتا؟
پانامہ اور لندن کی جائیدادیں نواز شریف خاندان کے نام نکلنا، ان کی ملکیت کی منی ٹریل نہ ہونا ہی اصل نکتہ ہے، جس پر سزا ہوئی۔ اگر ڈیل ہوجاتی تب بھی نواز شریف مجرم ہی رہتے، انہوں نے معصوم تو نہیں ہوجانا تھا۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ میاں نواز شریف سول بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں یا ان کی لڑائی جمہوریت کے لئے ہے۔ ہم یہ مان لیتے اگر نواز شریف صاحب کا ماضی بعید اور ماضی قریب کاکردار، رویہ اور طرز سیاست اسے سپورٹ کرتا۔
سول بالادستی سے آخر کیا مراد ہے؟ یہی ناں کہ تمام تر حکومتی معاملات سول حکومت چلائے اور اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرے۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں مرکز، پچھلے دس برسوں کے دوران پنجاب اور مجموعی طور پر سابقہ تیس برسوں کے دوران شریف برادران نے کہاں کہاں پر سول اداروں کو مضبوط کیا، گڈ گورننس قائم کی؟ نواز شریف اتنے ہی غیر جمہوری اور آمرانہ مزاج کے حامل نظر آتے ہیں جتنا کوئی فوجی ڈکٹیٹر ہوسکتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف حقیقی طور پر سول بالادستی کے امین ہوتے تو پھر وہ اپنی جماعت میں جمہوریت لے آتے۔
باقاعدہ الیکشن کراتے، نظریاتی کارکنوں کو پروموٹ کرتے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کا کلچر قائم کرتے۔ انہوں نے تو حالیہ سینیٹ انتخابات میں کسی نظریاتی مڈل کلاس ورکر کو سیٹ نہیں دی، حالانکہ پنجاب میں انہیں بہت بڑی اکثریت حاصل تھی۔ (یاد رہے کہ نظریاتی کارکن سے میری مراد کوئی چاپلوس، خوشامدی، کاسہ لیس اورنجی ملازموں کی طرح آگے پیچھے پھرنے والا شخص نہیں۔)اگر میاں صاحب سچے ہوتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو پسپا کرنے اور جمہوری سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کے لئے پارلیمنٹ پر توجہ دیتے، اجلاسوں میں شریک ہوتے، سٹینڈنگ کمیٹیوں کو فعال بناتے اور سیاسی نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش کرتے۔ ہم جس میاں نواز شریف سے واقف ہیں، اسے پارلیمنٹ سخت ناپسندرہی۔
سینیٹ کے اجلاس میں وہ سال بھر شریک نہیں ہوئے، چیئرمین سینٹ کو اس پر باقاعدہ رولنگ دینا پڑی۔ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس تو خیر کیا ہونا تھا، ان کی کابینہ کا اجلاس بھی مہینوں نہ ہوتا۔ ایم این اے اور وزرا تک جناب نواز شریف کا کئی کئی مہینے دیدار نہ کر پاتے۔ بلدیاتی ادارے ہر جمہوری نظام کی پہلی سیڑھی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے جی بھر کر ان اداروں کو کمزور کیا۔ پہلے چھ سال الیکشن نہ کرائے۔
سپریم کورٹ کے مجبور بلکہ زبردستی کرنے پر الیکشن ہوئے تو سال بھر ان اداروں کے سربراہوں کا انتخاب تک نہ ہونے دیا۔ حد تو یہ ہے کہ جب پورے صوبے میں اپنی پسند کے سوفی صد میئر، چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوگئے، تب بھی انہیں معمولی سا اختیار بھی نہیں دیا گیا۔ کونسلر، یوسی ناظمین عضو معطل بنے ہر ایک کے سامنے شرمندہ ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو جمہوریت پسند کہنے والے بھاڑے کے" زبان فروشوں" میں سے کوئی یہ بتائے گا کہ ایک منتخب سول وزیراعظم اور ایک بدترین ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور کے سرکاری ٹی وی چینل میں کیا فرق تھا؟ کوئی ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میاں نواز شریف نے پی ٹی وی کا قبلہ درست کر دیا اور اسے یک طرفہ پروپیگنڈے کے بجائے غیر جانبداری سے استعمال کیا جاتا تھا؟ کیاانہوں نے ایسے تھنک ٹینک بنا دئیے جو خارجہ اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے حکومتوں کی رہنمائی کر سکیں؟ انتخابات سستے کرکے ان کی رسائی عام کارکن تک پہنچا دی؟ کوئی ایک بات تو جناب نواز شریف کی گنوائی جائے جس سے ہم ان کی جمہوریت پسندی کے قائل ہوں اور مان لیں کہ وہ واقعتاً سول بالادستی کاجھنڈا اٹھانے کے مستحق ہیں؟
یہ سراسر نواز شریف صاحب کی ذاتی جنگ ہے، اقتدار کی جنگ۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے یہی تکلیف ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو میاں صاحب شہنشاہوں کی طرح کھل کر حکومت کریں، جس کو جی چاہے نوازیں، جس کو چاہے نیست ونابود کرڈالیں، سرکاری اداروں اور میگا پراجیکٹس کے ساتھ جو مرضی کریں، کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
اسٹیبلشمنٹ سے ہم عوام کو بھی شکوے ہیں، اس کے کردار پر اعتراضات اور تحفظا ت موجود ہیں، اسے پیچھے ہٹنا چاہیے، مگر یہ کام وہ سیاستدان کر سکتا ہے جس کے پاس مورل اتھارٹی ہو اور وہ دل سے جمہوری کلچر قائم کرنے اور سول اداروں کو مضبوط کرنے کا خواہش مند ہو۔ اس کے علاوہ باقی سب کہانیاں ہیں بابا۔