کتابوں کا شوق تو ہر نسل میں مشترک رہا ہے۔ ہر دور میں لوگوں کی ایک خاص تعداد کتاب سے محبت کرتی اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بناتی ہے۔ میرے خیال میں یہ خوش بخت لوگ ہیں۔ کتاب سے تعلق اللہ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے۔ آپ کتابیں پڑھتے ہیں، علم کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب رب سے علم نافع کی دعا کریں تو یقینا قدرت آپ کو ان عظیم کتابوں تک لے جائے گی جو آپ کی زندگی بدل دیں، دنیاوی زندگی کے ساتھ اخروی زندگی۔ ہم اپنی پسندیدہ کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پا لیتے ہیں۔ کبھی کتابیں خود آپ کی طرف لپکتی ہیں۔ کوئی حسین اتفاق آپ کو کسی شاندار کتاب تک پہنچا دیتا ہے۔ بعد کی زندگی پر اس کے گہرے نقش ثبت ہوتے ہیں۔ برسوں بعد مڑ کر دیکھاا ور سوچا جائے تب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملاقات قدرت کے کسی ڈیزائن کا نتیجہ تھی۔
کتابوں سے محبت اور تعلق کو چار عشرے ہونے کو آئے ہیں، مطالعے کی کمی اور کم فہمی کا احساس ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اب ادراک ہو رہا ہے کہ کتنی بڑی کتابیں آج تک ہم چھو ہی نہیں سکے۔ جو کتابیں پڑھیں، ان پر غور کی توفیق بھی کم ملی۔ دنیا کی عظیم ترین کتاب قرآن پاک ہمارے سامنے بچپن سے ہے، کبھی اس کی تلاوت کر لی، کبھی ترجمہ پڑھنے کی کوشش، کبھی کوئی تفسیر دیکھ لی، ایک سے دوسری تفسیر کی طرف لپک پڑے۔ اہم بات یہ کہ غور کتنا کیا؟ ایک ایک حرف اس قابل کہ اس پر غور وفکر کے بے شمار گھنٹے صرف کئے جا سکیں۔ افسوس کہ ہم نے اتنا وقت ضائع کر دیا اور اب معلوم نہیں قدرت کے توشہ خانے میں ہمارے لئے کیا اور کتنا بچا ہے؟
ایسے میں اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ جو وقت بچا ہے، اسے اچھی، معیاری اور منتخب کتابوں کی صحبت میں گزارا جائے۔ دو دن پہلے کتابوں کا عالمی دن تھا۔ ایک مارننگ شو میں اس پر چند منٹ بات کرنے کا موقعہ ملا۔ ایک سوال اکثر سننے کوملتا ہے کہ کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے، یہ کتاب کی آخری صدی، ہم کتاب پڑھنے والی آخری نسلیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ درست کہ آج ہمارے پاس اضافی وقت گزارنے کے بہت سے دلچسپ اور پرکشش طریقے آ گئے ہیں۔ بچوں کے لئے خاص طور سے مطالعہ کرنا خاصا بے رنگ اور بے کشش سا کام بن گیا ہے۔ اتنی حسین، پرکشش ویڈیوز، کارٹون اور گیمز آ چکی ہیں، جن کے مقابلے میں کہانیوں کے جامد، سپاٹ الفاظ بیکار لگتے ہیں۔
آج کے بچے کتابوں کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے تو بات سمجھ آتی ہے۔ انہیں اس طرف لانے کی ضرورت ہے، باقاعدہ ترغیب اور گاہے تنبیہ کے ذریعے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بچوں کو چھٹیوں میں کہانیاں پڑھنے کی باقاعدہ ادائیگی کرنی چاہیے۔ داستان امیر حمزہ، عمر و عیار، ٹارزن وغیرہ سے لے کر جاسوسی ناول پڑھنے تک مختلف کیٹیگریز بنا کر اس حساب سے نقد انعام رکھا جائے۔ پھر اگر بڑے گھر میں کتاب نہیں پڑھیں گے تو یقین رکھیں بچے بھی کتاب کو نہیں چھوئیں گے۔ ہم سارا دن اپنا فارغ وقت موبائل فون میں سر دئیے واٹس ایپ، فیس بک پر چیزیں دیکھتے پڑھتے رہیں گے تو بچوں نے اسی کی تقلید کرنی ہے۔ گھر میں سٹڈی آور یا مطالعے کا وقت طے کرنا چاہیے۔ کچھ وقت ہوجو سب گھر والے بیٹھ کر پڑھیں، اپنی مرضی کا کچھ بھی۔ دادا، دادی بھی اس وقت اپنی تلاوت کر سکتے ہیں، پنج سورہ سے پڑھ سکتے ہیں۔ اگر روزانہ ممکن نہیں تو ویک اینڈ پر ہی کر لیا جائے۔ کچھ نہ کچھ نیااور آئوٹ آف باکس ہمیں کرنا پڑے گا۔
کتاب کے حوالے سے دو تین اچھی باتیں بھی ہوئی ہیں جن سے امید پیدا ہوئی ہے۔ فیس بک اور واٹس ایپ کی وجہ سے ان لوگوں نے بھی کچھ نہ کچھ پڑھنا شروع کر دیا ہے جنہوں نے زندگی بھر کتاب نہیں پڑھی تھی۔ فیس بک کا چند سو الفاظ کا سٹیٹس یا واٹس ایپ کی کوئی تحریر یا چیٹ کرتے ہوئے انہیں مجبوراً لکھنا پڑھنا پڑتا ہے۔ یہ نئی بات ہے۔ اب یہ ہورہا ہے کہ ایک کتاب جتنا موادایک شخص اپنے ہفتہ دس دن کی فیس بک سکرولنگ کے دوران پڑھ لیتا ہے۔ اس سے کہیں نہ کہیں مطالعے کا سٹیمنا اور رجحان بن رہا ہے۔ ان کی اگلی منزل کتاب ہی ہے۔
دوسرا ایڈوانٹیج یہ ہوا کہ فیس بک کی وجہ سے بہت سے نئے اچھے لکھنے والے سامنے آئے ہیں۔ ایسے عمدہ تخلیق کارجن کی تحریر پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ پہلے کہاں تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خالص گھریلو خاتون جو اپنا تمام وقت خاوند، بچوں کو دیتی، مزے کے کھانے پکاتیں، کچن گارڈننگ کرتیں، گھر کی اچھے سے دیکھ بھال کرتی تھیں۔ اب بچے بڑے ہوگئے، کچھ وقت میسر آ گیا۔ انہوں نے لکھنا شروع کیا اور کمال ہی کر دیا۔ ایسی عمدہ تحریر، خوبصورت خیال، دلچسپ نثر کہ یقین نہیں آتا۔ پچھلے دنوں جہلم بک کارنر نے محترمہ قیصرہ شفقت کی کتاب چھاپی۔ وہ ریٹائر سکول ٹیچر ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق ہے، مگر اسلام آباد مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر، بچوں، خاندان کے قصے، واقعات فیس بک پر لکھنے شروع کئے۔ عام سی باتیں، ہر گھر کا وہی معاملہ ہے، مگر عام باتوں میں بھی ایسا تخلیقی حسن پیدا ہوا کہ رئوف کلاسرا جیسے لوگ بھی مداح بنے اور زور دے کر کتاب چھپوائی۔ سنا ہے کتاب کی خاصی پزیرائی ہوئی ہے۔
فیس بک پر زارا مظہر ایک محترم بلاگر خاتون ہیں۔ تمام زندگی گھریلو خاتون کے طور پر گزاری، اب پچھلے دو ڈھائی برسوں سے فیس بک پر فعال ہوئیں تو ان کی درجنوں تحریریں ایسی ہیں جو وائرل ہوچکیں۔ کسی دن یہ تحریریں یکجا ہو کر اچھی کتاب بن جائے گی۔ اسی طرح کئی اور اچھا لکھنے والے ہیں جن کے خیالات کی اپج اور تخلیقی نثر نے ہر ایک کو چونکایا اور اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمایوں تارڑ کا پہلے بھی ذکر آیا، وہ بنیادی طور پر استاد اورٹرینر ہیں۔ بڑا عمدہ لکھا اور تعلیم کے ساتھ بچوں کی تربیت پر نہایت عمدہ کتاب لکھ ڈالی۔ جنید سیریز نامی ایک جاسوسی ناولوں کا سلسلہ شروع کیا، بہت دلچسپ، قابل مطالعہ۔ پرندوں اورجانوروں پر بھی دو تین کہانیوں کی کتابیں آ گئیں، چند ایک زیر طبع ہیں۔ ہمایوں تارڑ کو شائد دو ڈھائی سال پہلے ان کے اپنے حلقے سے باہر کوئی نہیں جانتا ہوگا، آج وہ معروف بلاگراور باقاعدہ ادیب ہیں۔ رابعہ خرم درانی پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں، باقاعدہ پریکٹس کے باوجود اپنے ذوق مطالعہ کی وجہ سے رعنائی خیال کے نام سے ایک فیس بک پیج بنایا، اس پر اپنی تحریریں لگاتی رہیں، پھر اپنے نام سے بھی لکھنا شروع کیا۔ اب ان کی اتنی تحریریں شائع ہوچکی ہیں کہ چاہیں تو آسانی سے کتاب بن سکتی ہے۔ کئی اہم طبی موضوعات پر ڈاکٹر رابعہ خرم سے عمدہ اور جامع تحریریں میں نے کسی جگہ نہیں پڑھیں۔ اٹھرا، بانجھ پن وغیرہ پر کمال فیچر لکھے جو ایک قومی اخبار کے میگزین میں شائع ہوئے۔
سلمان خالدامریکہ میں مقیم ایک پروفیشنل ہیں۔ پڑھنے لکھنے سے شغف ہے، امریکی سماج کے حوالے سے کئی عمدہ تحریریں لکھ چکے ہیں، بعض بہت اچھے تراجم کئے، ان کی بعض تحریریں میں اپنے اخبار نائنٹی ٹو نیوز کے سنڈے میگزین میں شائع کرنے پر مجبور ہوگیا۔ محسن علی خان فیصل آباد کے ایک نوجوان ہیں، ان کا صحافت یا ادب سے باقاعدہ تعلق نہیں۔ کتاب پڑھنے کا ذوق ایسا ہے کہ اپنی فیس بک وال پر ایک ہزار کتابوں کے تعارف کی سیریز شروع کر رکھی ہے۔ ہر ہفتے کسی اچھی کتاب کا بھرپور تعارف۔ زیشان سرور ایک اور نوجوان ہیں، ایچ آر کی ملازمت کرتے ہیں، مگر اپنی آمدنی کا خاصا حصہ کتابیں خریدنے میں صرف کرتے ہیں، انہیں پڑھتے اور پھر ان پر لکھنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں۔ سائرہ اعوان کا تعلق غالباً ہزارہ، کے پی سے ہے۔ ان کی کئی اچھی تحریریں فیس بک پر پڑھیں، پھر پتہ چلا کہ وہ قومی اخبارات میں بھی شائع ہو رہی ہیں۔ لاہور کی محترم خاتون آمنہ آحسن کراچی میں مقیم ہیں، انہوں نے کتابوں پر ویڈیو بلاگ کا سلسلہ شروع کیا، فیس بک پر لکھتی رہیں اور اب ایک قدم آگے بڑھ کر شہر کی کسی جگہ پر کچھ لوگ اکٹھے ہو کر کسی کتاب کی ریڈنگ کرتے ہیں۔ ایک اور خاتون مطربہ شیخ نہ صرف کتابوں پر وی لاگ بناتی ہیں بلکہ بعض تحریریں پڑھ کر ریکارڈ بھی کرائیں۔ یہ فیس بک اور مختلف سائٹس پر لکھ بھی رہی ہیں۔
بیرون ملک مقیم کئی خواتین کو دیکھا کہ وہ فیس بک پر فعال ہیں، سوشل اور پولیٹیکل ایکٹوسٹ ہیں، ان میں سے بعض اچھی کتابیں پڑھتی اور ان کا تعارف کراتی ہیں۔ انگلینڈ سے ثمینہ رشید، کینیڈا سے نیئر تاباں، ناروے سے راحیلہ ساجد، امارات سے شہنیلا بیلگم والا اس کی چند مثالیں ہیں۔ ظاہر ہے بہت سے اور بھی ہوں گے، میں نے توصرف مثال دی ہے کہ کیسے گھر بیٹھے لوگ بھی اپنے مطالعہ کی وجہ سے کتاب پھیلا رہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ کتاب ان شااللہ زندہ رہے گی۔ کتابیں پڑھنے والے بھی موجود رہیں گے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ اپنے آپ کو، اپنی اگلی نسل کو ان خوش بخت، خوش قسمت لوگوں کے گروہ میں شامل کراتے ہیں یا کتاب سے دور بنجر، بے فائدہ، جامد، بے کار زندگی گزرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ کتاب کا نہیں، یہ آپ کے مستقبل کا سوال ہے۔