Kon Tolu Hua, Kon Ghorub, Faisla Abhi Hona Hai
Amir Khakwani102
میاں نواز شریف مع اپنی صاحبزادی مریم نواز راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچ چکے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنا عرصہ وہ اسیر رہیں گے؟ ان کے وکلا احتساب عدالت کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کررہے ہیں، اگر اعلیٰ عدالتوں کا فیصلہ اس کی تائید میں آیا توپھر خاصے عرصے کے لئے نواز شریف صاحب کا خاندان مشکلات کا شکار رہے گا۔ بظاہر بڑے میاں صاحب کیلئے سیاسی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ جیل میں رہ کر پارٹی پر گرفت مضبوط رکھ پانا آسان نہیں۔ ان کے جیل جانے کے حوالے سے دو بیانیہ سامنے آئے ہیں۔ میاں صاحب کے مخالفین نے سکھ کا سانس لیا، بعض نے اظہار مسرت کیا، چند ایک نے اسے تاریخ کا انتقام یا مقام عبرت قرار دیا۔ دوسرا بیانیہ جس کے خالق میاں نواز شریف کے حامی ہیں، اس کے مطابق "وطن واپسی نے ن لیگ کی سیاست میں جان ڈال دی۔ واپس آ کر وہ تاریخ میں امر ہوگئے، وغیرہ وغیرہ۔"اس دوسرے بیانیہ سے ایک تیسرے بیانیہ نما اعلان نے جنم لیا ہے۔ ایک محترم قلمکار دوست نے لکھا کہ مریم نواز بطور لیڈر طلوع ہوگئی ہیں۔ ان کے مطابق، "حالات نے جس جرات کا تقاضا کیا، اس کا اظہار مریم نواز نے کیا۔ انہوں نے باپ کے قدم سے قدم ملایا۔ مشکل میں نوازشریف کی طاقت بن گئیں۔ عوام لیڈر اسی کو مانتے ہیں جو بہادرہو۔ اگر آج وہ لیڈر ہیں تو یہ محض نوازشریف کی خواہش کی وجہ سے نہیں ہیں۔ یہ تاریخ اور اس ملک کے عوام کا فیصلہ بھی ہے۔" سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوچکا؟ کیا مریم نواز شریف مسلم لیگ ن کی حقیقی لیڈر بن کر ابھری ہیں؟ خاکسار کی رائے میں ابھی اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ایک آدھ لہر سے سمندر کی موجوں کی گہرائی اور قوت کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے صنف کے اعتبارسے مماثلت ایک اور چیز ہے، ان جیسی شخصیت، آہنی قوت ارادی، تیزفہمی اور قوت عمل کا لانا کسی اور کے لئے آسان نہیں۔ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے میاں نواز شریف کی واپسی پر نظر ڈالتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا وطن واپس آنا درست فیصلہ تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا آپشن بھی نہیں تھی۔ اگر وہ باہر رہ جاتے تو ان کی سیاست یکایک زیرو ہوجاتی۔ ویسے یہ مشکل فیصلہ تھا، انہیں معلوم تھا کہ آتے ہی جیل بھیج دیا جائے گا۔ نواز شریف صاحب اٹھارہ سال پہلے بھی جیل کی سختی برداشت نہیں کر پائے اور جلد سمجھوتہ کر کے باہر چلے گئے۔ ان دنوں جیل سے وہ پیشی بھگتانے عدالت آتے تو صحافیوں سے گفتگو میں اپنی بیرک کی خراب صورتحال، مچھروں کے کاٹے، سر پر مسلسل جلتے بلب کا شکوہ کرتے رہتے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس بار وہ کس حد تک استقامت کا مظاہرہ کر پاتے ہیں؟ انکی واپسی کی دو تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ میاں نواز شریف کو قریب سے جاننے والے کہتے ہیں کہ ان میں ایک خاص انداز کی ضد ہے، جس بات پر وہ اڑ جائیں، آسانی سے نہیں ہٹتے۔ اپنے مخالفوں کو شکست دینے کی تمنا یقینا ان کے دل میں ہوگی، جنہوں نے انہیں نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے محروم کرایا بلکہ جیل تک پہنچا دیا۔ دوسری بڑی وجہ ان کی صاحبزادی مریم ہیں۔ نواز شریف سیاست میں طویل اننگز کھیل چکے، تین بار وزیراعظم بن گئے۔ ایوان اقتدار سے باہر رہنا آسان نہیں رہتا، لیکن میرا قیاس ہے کہ اب میاں نواز شریف کی زیادہ توجہ اپنے سیاسی ورثے کو مریم نوازکی شکل میں آگے بڑھانا ہے۔ ان کے صاحبزادوں میں اہلیت نہیں، انہوں نے تو مشکل وقت میں باپ اور بہن کا ساتھ دینے کی بھی زحمت نہیں کی اور باہر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ نواز شریف شائد اسی لئے سیاست میں اپنی وقعت برقرار رکھنے واپس آئے۔ ممکن ہے ان کے ذہن میں یہ ہو کہ اعلیٰ عدلیہ سے جلد ریلیف مل جائے گا، ضمانت ہی ہوجائے تب بھی ان کے لئے حالات تو فوری بدل جائیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی پاکستان موجودگی کے باعث مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا کچھ نہ کچھ مورال بلند رہے گا۔ لندن رہ جاتے تو پھر صفایا ہوجانا یقینی تھا۔ ن لیگ کی اچھی کارکردگی ان کے لئے بہت اہم ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی ڈیل تب ممکن ہو سکے گی۔ واپسی کا فیصلہ ایک نپا تلا(Calculated) رسک تھا، اس کے تمام تر پہلوئوں اور مابعد اثرات(After effects)کا اندازہ لگا کر یہ قدم اٹھایا گیا۔ یہ تین چارممکنہ وجوہات اپنی جگہ، مگربے رحم حقیقت یہی ہے کہ میاں صاحب ایک سزا یافتہ مجرم کے طور پر واپس لوٹ رہے تھے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے استقبال کی کوشش ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ مقصد تباہ حال مسلم لیگ ن میں نئی جان ڈالنا اور اس کے ورکروں کو چارج کرنا تھا۔ یہ مقصد کس حد تک حاصل ہوا؟ اس بارے میں مختلف آرا ہوسکتی ہیں، مگر ایک بات سب میں مشترک ہے کہ جس انداز کی استقبالی ریلی میاں نواز شریف توقع کر رہے تھے، ویسا شو نہیں ہوسکا۔ مسلم لیگ ن اپنے تمام تر تجربے، انتخابی امیدواروں، بلدیاتی عہدے داروں کے باوجود اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں بھی لوگ اکٹھے نہیں کر سکی۔ دوسرے شہروں میں تو احتجاج نہایت مایوس کن رہا، لاہور میں خیبر پختون خوا اور پنجاب کے کئی شہروں سے کارکن، رہنما اکٹھے کر کے جو سیاسی سیلاب اٹھانے کا منصوبہ تھا، وہ بری طرح ناکام ہوابلکہ ن لیگ کا بھرم بھی جاتا رہا۔ ن لیگ سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں اور رپورٹروں کی رائے کے مطابق مسلم لیگ ن دس بارہ ہزار سے زائد لوگ اکٹھے نہ کر پائی۔ لاہور میں ن لیگ کے بارہ قومی اسمبلی اور اس سے دو ڈھائی گنا زیادہ ارکان صوبائی اسمبلی تھے، جبکہ تقریباً تمام یونین کونسلوں میں ان کے چیئرمین، ناظم وغیرہ منتخب ہوئے ہیں، اگر یہ سب کوشش کرتے توآسانی سے لاکھ دو لاکھ لوگ جمع ہوسکتے تھے۔ اگر پچاس ہزار بھی ہوتے تو انتظامیہ نہ روک پاتی۔ مسلم لیگی شو فلاپ رہا، لیکن صوبائی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ بھی آشکار ہوئی۔ موبائل فون پر پابندی لگانے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ جگہ جگہ کنٹینررکھ کر سڑکیں بلاک کرنا بھی فضول تھا۔ اگر ن لیگ کو فری ہینڈ دیا جاتا جیسا کہ سہہ پہر کے بعد دے دیا گیا، تب کون سی قیامت ٹوٹ پڑنی تھی؟ میاں شہباز شریف کے بارے میں اس خاکسار کی یہی تھی کہ وہ سیاستدان یا لیڈر سٹف نہیں ہیں اور اقتدارمیں رہ کر تو کچھ نہ کچھ دال دلیا کر لیتے ہیں، باہر رہ کر ان سے احتجاجی سیاست نہیں ہوپاتی۔ الحمداللہ انہوں نے اس رائے کو سو فی صددرست ثابت کر دیا۔ جس لیڈر کو اتنا بھی معلوم نہ ہو کہ ریلی ائیرپورٹ پر لے جانی ہے، مال کے ریگل چوک اور چیئرنگ کراس پر نعرے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ کیا سیاسی تحریک چلا سکتا ہے؟ رہے ان کے صاحبزادے تو اگر چہ انہوں نے اپنے تایا کے انداز میں گفتگو اور تقریر کرنا سیکھ لیا ہے، مگر کارکنوں کے دل جیتنے سے وہ ہنوز ناواقف ہیں، جوا ن کے لیڈر کی اصل خوبی رہی۔ خوئے دلنوازی شائدپیسوں سے خریدی نہیں جا سکتی۔ مریم نواز شریف کو دو ایڈوانٹیج تو حاصل ہیں۔ ان کے والد انہیں اپنی جگہ لانا چاہتے ہیں، نوا زشریف کی سیاسی عصبیت انہیں منتقل ہوسکتی ہے۔ آل شریف کے دوسرے اہم شخص میاں شہباز شریف اور ان کی اولاد کی کمزوریاں پوری طرح آشکار ہوگئی ہیں۔ یہ امر میاں نواز شریف کی صاحبزادی کے لئے سپیس بڑھا دیتا ہے۔ مریم نواز کو مگر ابھی خود کو لیڈر ثابت کرنا ہے۔ دلیری کسی بھی لیڈر کا اثاثہ ہے، مگر ذہنی اور اعصابی مضبوطی کے ساتھ جذباتیت سے گریز بھی بہت ضروری ہے۔ شدید جذباتیت، انتقام کی خو اور بے لچک رویہ کسی ڈکٹیٹر کے ساتھ تو کچھ عرصہ چل سکتا ہے، سیاسی لیڈر کو یہ کھا جائے گا۔ مریم نواز کو ابھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔ پانامہ کیس کے دوران ن لیگ کی میڈیا پر جنگ مریم نواز کی قیادت میں لڑی گئی۔ دانیا ل عزیز، طلا ل چودھری، عابد شیر علی جیسے" منہ زور"سالاروں کا جس انداز میں انتخاب کیا گیا، مشاورتی تھنک ٹینک میں پرویز رشید اور طارق فاطمی جیسے لوگوں پر بھروسہ کیا گیا، اس نے مریم بی بی کی فراست اور دانش کے بارے میں مبصرین کو مایوس ہی کیا۔ میں نے ن لیگ کے ڈائی ہارڈ قسم کے حامی اخبارنویسوں کو یہ کہتے سنا کہ میاں نواز شریف کی تباہی کی ذمہ داری ان کی صاحبزادی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مشکلات برداشت کیں، مگر وہ ایک عملیت پسند لیڈر تھیں۔ ان کے بھائی میر مرتضیٰ ایک جارحانہ مزاج رکھنے والے شدید جذباتی انسان تھے۔ عرب شاعری کے مطابق میر مرتضیٰ ایسی تیز دھار ہندی تلوار تھے، جس میان میں رکھیں، اسے کھا جائے۔ مریم نواز شریف نے ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ میرمرتضیٰ کے راستے پر چلیں گی یا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح مزاحمت، لچک، سمجھوتوں کے امتزاج سے اپنے لئے راستہ نکالیں گی۔ ان کی بدقسمتی کہ سب سے پہلے تو انہیں اپنی سزائوں کے معاملات سے جان چھڑانی ہے، بظاہر جس میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ طلوع یاغروب کا فیصلہ تب تک کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔