Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Imran Khan Maidan Maar Pain Ge?

Kya Imran Khan Maidan Maar Pain Ge?

آج کل ٹی وی چینلز پر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اشتہاری مہم چل رہی ہے۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جس پاکستان کی بات یہ کر رہے ہیں، کیا حقیقت وہی ہے اور کیا ہم اسی پاکستان میں رہتے ہیں؟ مبالغہ در مبالغہ۔ تحریک انصاف، ن لیگ، پیپلزپارٹی سب ہی نے پرکشش نقشہ پیش کیا، سہانے خواب دکھائے۔ ن لیگ نے ایک کام البتہ بڑے عامیانہ انداز میں کیا، وہ عمران خان پر ڈائریکٹ اٹیک ہے۔ مسلم لیگ کا یہ پرانا طریقہ رہا ہے، نوے کے عشرے میں مسلم لیگی میڈیا سیل اور تھنک ٹینک محترمہ بے نظیر بھٹو پر اس طرح کے حملے کرتے تھے، بے بنیاد خبریں، جھوٹے سکینڈل، گھٹیا کردار کشی کی مہم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان بولنے میں احتیاط نہیں کرتے اور ان کا زوربیان بدتمیزی اور غیر شائستگی کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے، لیڈروں کو جس سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔ ن لیگ کو مگرعمران خان کی تقریروں کے ٹکڑے نکال کر اشتہار بنانے سے کیا حاصل ہوگیا؟ تحریک انصاف والے چاہتے تو جوابی اشتہار بنا ڈالتے، جناب شہباز شریف کی تقریروں میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے، زردار بابا کو سڑکوں پر گھسیٹنے سے لے کر چھ ماہ، ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اورمکے مار کر مائیک گرانے سے لے کر حبیب جالب کی انقلابی نظمیں پڑھنے تک بہت کچھ ایسا ہے جس پر ہنسا جا سکے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کا اشتہار نسبتاً دھیمے سروں میں ہے، یہ ماننا چاہیے کہ بلاول بھٹو نے اچھے معقول انداز میں شائستہ گفتگو کی۔ بلاول نے پچھلے کچھ عرصے میں انٹرویوز اوراپنی بعض تقریروں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو حیران اور متاثر کیا ہے۔ بلاول کے پاس خاصا وقت ہے، انہیں ایڈوانٹیج ہے کہ پیپلزپارٹی جس مکتب فکر کی نمائندہ رہی، آج کے قومی سیاسی منظرنامے پر کوئی اور جماعت اس خلا کو پر کرتی نظر نہیں آتی۔ سنٹر آف دی لیفٹ، لبرل، سیکولر، ترقی پسند حلقوں کے لئے آج کوئی عملی آپشن موجود نہیں۔ اس بار تو بہت مشکل ہے، اگلے الیکشن تک ان کے والد محترم پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہوئے اورخود بلاول بھٹو پارلیمنٹ میں اچھی کارکردگی دکھا پائے، نئے چیلنجزسے نمٹ پائے تو ممکن ہے انہیں آگے نکل جانے کا موقعہ ملے۔ اس باربلاول کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ عمران خان پر بات کرنا آسان نہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھٹو صاحب کے بعد وہ دوسری شخصیت ہیں جن کے بارے میں دو انتہائی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک حلقہ ان کا زبردست حامی اور جان چھڑکنے کو تیار ہے۔ نوجوان ان میں بہت زیادہ ہیں۔ ایسے پڑھے لکھے نوجوان جنہیں سیاست میں کسی نے متاثر نہیں کیا تھا، جو بیزار ہو کر سیاست سے دو ر ہوگئے تھے، ووٹ ڈالنے کے بجائے سوئے رہنے کو ترجیح دیتے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر ان سب کو اپنے گرد اکٹھا کیا اور ایک نیا پلان آف ایکشن دیا۔ ایسا نہیں کہ صرف نوجوانوں نے تحریک انصاف کو ووٹ ڈالے، فعال طبقات کے وہ لوگ جو تبدیلی کے خواہاں ہیں، جو سٹیٹس کو توڑنااورعوام کے لئے فلاح وبہبود پر مبنی نظام چاہتے، ان سب نے عمران خان کو ووٹ دیا اور اس کی جماعت کو ملک کی دوسری بڑی جماعت بنا دیا۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ عمران خان نے پچھلے انتخابات میں جو ووٹ حاصل کئے تھے، ان میں اضافہ ہوگا یا پھر کمی؟ اس سے منسلک ضمنی سوال یہ بنتا ہے کہ کیا عمران خان توقعات پر پورا اترے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ہر کوئی اپنی پسند اور سیاسی رائے کے مطابق دے گا۔ تحریک انصاف والوں کے مطابق اس بار ان کی جماعت صفایا کر ڈالے گی۔ ن لیگ کے متوالے مختلف جواب دیں گے، ایم ایم اے والے تو عمران کو یوں دیکھتے ہیں جیسے بقول شخصے سفید لباس پر کیچڑ کا داغ۔ بہرحال محتاط رہ کر بات کی جائے تو عمران خان ایک لحاظ سے ناکام ہوا، مگر ایک دوسری سطح پر وہ کامیاب بھی ہوا۔ عمران خان کے پاس خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت آئی تھی۔ اگر وہ چاہتا تو اپنا تمام تر زور اس صوبے میں اصلاحات لانے پر لگا دیتا۔ پشاور میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ جاتا اور اپنے تمام مشیروں، بیرون ممالک موجود دوستوں کو اکٹھا کر کے پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں میں انقلاب برپا کر دیتا۔ کام آسان نہیں تھا، لیکن اگر عمران پورے پانچ سال پشاور میں لگا دیتا تو سرکاری سطح پر شوکت خانم جیسے چار پانچ ہسپتال کھڑے ہوسکتے تھے، دیگر شعبوں میں بھی حیران کن تبدیلی لائی جا سکتی تھی۔ ایسا مگر نہیں ہوپایااگر خیبر پختون خوا پر جم کے پانچ سال محنت کی گئی ہوتی تو آج عمران خان کے لئے قومی سطح پر زیادہ مہم چلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ صوبے کا ماڈل ہی پبلسٹی کا کام دیتا۔ یہ عمران خان کی واحد ناکامی نہیں تھی، اس نے دھرنے کے دوران اپنے حد سے بڑھی ہوئی جارحانہ تقریروں اور مخالفوں پر کئے ذاتی حملوں سے سنجیدہ، معتدل طبقات میں اپنی سپورٹ کم کی۔ ایسے کئی دوستوں کوجانتا ہوں جنہوں نے پچھلی بار عمران کو ووٹ ڈالے، مگر اس بار وہ گومگو کا شکار ہیں۔ مئیء تیرہ کے انتخابات میں عمران خان ایک ڈریمر تھے، خواب دکھانے والے، پچھلے پانچ برسوں میں وہ ایک بے رحم ایجی ٹیٹر کے طور پر سامنے آئے، ان کا سافٹ امیج کسی حد تک مسخ ہوا۔ عمران کی تیسری ناکامی کراچی کے ووٹروں کی توقعات پر پورا نہ اترنا ہے۔ اہل کراچی نے الطاف حسین کی فسطائیت کے چنگل سے نکلنے کے لئے عمران خان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عمران مرکز کی سیاست میں ایسے الجھے رہے کہ وہ کراچی کو بالکل نظرانداز کر تے رہے۔ مائنس الطاف کے بعد جب متحدہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور کراچی میں موجود سیاسی خلا بہت بڑھ گیا، اس وقت بھی عمران خان لاتعلقی سے یہ دیکھتے رہے۔ اگر وہ چند دن بھی کراچی میں بیٹھ کر عوام رابطہ مہم چلاتے، پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دیتے تو آج کراچی میں تحریک انصاف قابل ذکرسیاسی قوت ہوتی۔ یہ ناکامیاں اپنی جگہ مگر عمران خان ایک خاص سطح پر کامیاب تو ہوئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی بارایوان اقتدار میں پہنچے، مگر ان کا دامن کرپشن کے داغوں سے محفوظ رہا۔ خیبر پختون خوا کا کئی سو ارب کا بجٹ تھا، عمران خان صوبے کے بے تاج بادشاہ تھے، جو چاہتے کر ڈالتے۔ ان کے حوالے سے ایک بھی کرپشن سکینڈل نہیں آیا۔ کوئی جھوٹا الزام بھی نہیں لگا پایا کہ عمران خان نے فلاں ٹرانسفر، پوسٹنگ کے مجھ سے پیسے پکڑے یا اس معاملے میں عمران کو نوٹوں کا بریف کیس دے کر میں نے کام کرایا۔ شریف برادران، زرداری صاحب جیسے لیڈروں پر ایسے جھوٹے سچے الزام لگانے والے سینکڑوں مل جاتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں جہاں سب ننگے ہیں، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کے بعد صرف عمران خان یہ واحد قومی لیڈر ہے جسے کوئی کرپٹ نہیں کہہ سکتا۔ عمران خان نے پرویز خٹک جیسے روایتی سیاستدان اوربغیر کسی انقلابی کیڈر کے صوبے میں اصلاحات لانے کی کوشش بہرحال کی۔ کچھ نتائج اور ثمرات سامنے بھی آئے۔ پولیس کو وہ پوری طرح غیر سیاسی اور پروفیشنل بنانے میں کامیاب رہا۔ ناصر درانی جیسا نیک نام افسر پنجاب سے کے پی لے گیا اور اسے بھرپور اختیارات دئیے۔ صوبے کی تاریخ کے وہ طاقتور ترین آئی جی تھے، پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے باہر نکالا، ٹرانسفر پوسٹنگ میرٹ پر ہونے لگی اور نتیجے میں بہت سی چیزیں بہتر ہوئیں۔ اسی طرح محکمہ پٹوار کو کینڈے میں کیا گیا، سکول ٹیچرز کی چیکنگ ہونے لگی، محکمہ تعلیم میں بہت بہتری آئی۔ ہسپتالوں میں اصلاحات ڈاکٹر ز کمیونٹی نے ناکام بنادیں، مگر ہسپتالوں میں بہت بہتری آئی۔ ماحولیات پر پہلی بار توجہ دی گئی، ایک ارب نہ سہی، دو چار کروڑ درخت تو لگ ہی گئے ہوں گے، اس سے پہلے کبھی کسی نے اس کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔ عمران خان اپنی ناکامیوں، کامیابیوں اور مستقبل کے ایجنڈے کے ساتھ ایک بار پھر انتخابات میں جا رہے ہیں۔ اس بار انہیں مسلم لیگ ن پر دو اعتبار سے برتری حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے پاس اچھے اور مضبوط امیدوار موجود ہیں، ایسے لوگ جو الیکشن لڑنا اور جیتنا جانتے ہیں۔ دوسرا مسلم لیگ ن پچھلے دس برسوں سے مسلسل صوبے میں حکمران ہے، ان کے پاس اپنی کمزوریوں، نالائقیوں کا کوئی جواز باقی نہیں۔ جب شہباز شریف پنجاب کے کسی شعبے کو بہتر کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو سننے والے کو ہنسی آ جاتی ہے کہ پچھلے دس برسوں میں ایسا کیوں نہ کیا۔ ن لیگ کے قائد اپنی شعلہ مزاج صاحبزادی سمیت جیل جا چکے ہیں، انتخابی مہم چلانے والا لیڈر ہی کوئی نہیں۔ پاکستانی سیاست میں کچھ" نادیدہ" فیکٹرز بھی اثرانداز ہوتے ہیں، ن لیگ ہمیشہ ان کا فائدہ اٹھاتی رہی، اس بار یہ فیکٹرز ن لیگ کے خلاف ہیں، جس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ اس سب کے باوجود قومی اسمبلی اور پنجاب میں سادہ اکثریت لینا قطعی آسان ٹاسک نہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو اس وقت ہلکی سی برتری حاصل ہے، مگر الیکشن ڈے کی پرفارمنس ہی طے کرے گی کہ تحریک انصاف ہنڈرڈ پلس نشستیں جیت سکے گی یا اسی، نوے تک محدود رہ جائے گی۔ اگر پیپلزپارٹی کی بلیک میلنگ، یا "جیپ "والوں کی احسان مندی سے آزاد رہ کرتحریک انصاف حکومت بنانا چاہتی ہے تو اسے 110سے 120سیٹیں درکار ہیں۔ یہ ٹاسک وہ حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں، الیکشن کی شام اس کا فیصلہ ہوگا، اتنے کلوز مقابلوں میں تجزیہ نگار نہیں، نجومی ہی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔