تین چار دن پہلے ایک دوست کے بھتیجے کی شادی میں شریک ہوا۔ کھانے میں ابھی کچھ وقت تھا، قریب بیٹھے لوگوں سے گپ شپ شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ میرے ساتھ والی نشست پر ایک عالم دین تشریف فرما ہیں جو بیالیس برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کے چہرہ پر صوفیوں سی مخصوص نرمی اور لہجہ میں ملائمت نمایاں تھی۔ گپ شپ شروع ہوئی، بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ ہمارے دوست کے عزیز ہیں۔ کریدا تو پتا چلا کہ فیصل آباد کی معروف مذہبی شخصیت شمس المشائخ صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی (مرحوم)سے ان کی نسبت ہے۔ نام قاری غلام یٰسین رضوی قادری تھا، بتانے لگے کہ ان کے مرشد نے قادری سلسلہ کے ساتھ تصوف کے باقی تینوں سلاسل(چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ)میں بھی بیعت کی اجازت دی۔
تصوف کے حوالے سے مفید گفتگو رہی، مگر اس پر پھر کبھی سہی۔ ایک بڑی دلچسپ بات انہوں نے بتائی کہ امریکہ کے کئی شہروں میں قبول اسلام کی شرح خاصی تیزی سے بڑھی ہے۔ مولانا غلام یٰسین رضوی امریکہ کی معروف ریاست نیوجرسی کے جرسی سٹی میں رہتے ہیں۔ بتانے لگے کہ میں یافت کے لئے میرا اپنا کام ہے، مگر قریبی مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتا ہوں جبکہ ہڈسن کائونٹی کی جیل میں بھی تبلیغ کے لئے جاتا ہوں۔
مولاناغلام یٰسین رضوی کے بقول پچھلے چند برسوں میں جیل سے سینکڑوں غیر مسلم قیدی مسلمان ہوچکے ہیں، ان میں سیاہ فام امریکینز کی اکثریت ہے، مگر کئی گورے بھی مسلمان ہوئے، حتیٰ کہ جیل کے بعض اہلکاروں نے بھی اسلامی کتب کا مطالبہ کیا اور پھر گفتگو کے سیشنز کے بعد وہ مسلمان ہوئے۔ رضوی صاحب کے بقول جیل کے سینئر حکام ان وزٹس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ان کے مطابق جو قیدی مسلمان ہوا، اس کے رویہ میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔ بتایا کہ جیل کے علاوہ بھی جرسی سٹی کے کئی غیر مسلموں کو مسجد جو ایک باقاعدہ مرکز ہے، اس کے ذریعے مسلمان کرنے کا موقعہ ملا۔ بڑے انکسار کے ساتھ انہوں نے دھیرے سے کہا کہ ایک ہزار کے قریب لوگوں کو مسلمان کیا۔ بتانے لگے کہ یہ لوگ اسلامی کتب کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے لئے ہمیں خاصی کاوش کرنا پڑی، حتیٰ کہ بعض پمفلٹس اور کتب خود بھی تحریر کرنا پڑی تاکہ ان نومسلموں کو دین کی بنیادی معلومات مل سکے۔
رضوی صاحب سے گپ شپ میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے حوالے سے بھی سوال کیا، اس وقت تک بل منظور نہیں ہوا تھا۔ کہنے لگے، " میں گرما گرم سیاسی مباحث سے دور رہتا ہوں، اسلئے کسی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ مجھے امریکہ میں مقیم ہوئے بیالیس سال ہوگئے ہیں، اپنے خاندان کے دو درجن کے قریب افراد کو بھی امریکہ بلوایا۔ وہ سب امریکی نیشنل ہیں، میرے بچے امریکہ میں پلے بڑھے، امریکی تعلیمی اداروں میں پڑھے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی، سب وہیں سیٹل ہیں۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی پاکستان دل میں دھڑکتا ہے۔
ہمارے تمام تر مالی، معاشی، سماجی معاملات امریکہ سے جڑے ہیں، ایک ذمہ دار شہری کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، مگر آبائی وطن اور یہاں کے لوگوں کے لئے محبت کم نہیں ہوئی۔ مختلف صورتوں میں پاکستان سے تعلق جڑا ہوا ہے، خاندان، جاننے والوں کی مدد، مختلف خیراتی اداروں کی سپورٹ وغیرہ، حتیٰ کہ اپنی دینی کتب بھی یہاں بھیجے بغیر سکون نہیں ملتا۔ آبائی شہر جھنگ سے بھی تعلق گہرا ہے، فیصل آباد کے اپنے پیر خانہ سے دلی وابستگی ہے، پاکستان کی فلاح وبہبود اور ترقی کی دعائیں ہمہ وقت کرتے ہیں۔"
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دئیے جانے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مباحث جاری ہیں۔ آج کل سیاسی بحث میں تلخی فوراً در آتی ہے اور لوگ طعن پر اتر آتے ہیں۔ ان بحثوں کو پڑھتے ہوئے مجھے امریکہ میں بیالیس سال سے مقیم ان مولانا کا خیال آیا جن کی اگلی نسل اور بہن بھائی بھی امریکہ سیٹل ہیں، مگر آبائی وطن کی خوشبو ان کے دل ودماغ سے نہیں جاتی۔ میری ذاتی رائے میں یہ قانون بننا چاہیے تھا، نہایت مستحسن اور درست فیصلہ ہے۔ چند سوالات اس حوالے سے اٹھائے جاتے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
جو پاکستان چھوڑ کر گئے، انہیں ووٹ کا حق کیوں دیا جائے؟ اس بارے میں بعض لوگ سخت جملے بھی استعمال کرتے ہیں اور بھاگ جانے کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کہنا بے رحمانہ اور غلط ہے۔ پاکستان سے باہر جانے والے بھی ہم لوگ ہی ہیں، ہمارے چچا، ماموں، بھائی، بھانجے، بھتیجے۔ باہر جانے سے ان کا خون سفید نہیں ہوا نہ دل سیاہ پڑ گیا۔ بہت سے لوگ اپنی تعلیم، صلاحیت اور کیئرئر کے حوالے سے باہر گئے، وہاں محنت کی، نام بنایا اور مغربی ممالک میں انہیں چند برسوں بعد شہریت بھی مل گئی۔ عرب ممالک میں مقیم لاکھوں لوگ وہاں کے شہری نہیں اور انہوں نے ایک نہ ایک دن واپس لوٹنا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے شہریوں کے بھی پاکستان سے تعلق ٹوٹا نہیں۔ وہ اپنی فیملیز کو پیسے بھیجتے ہیں جس پر ہماری معیشت کا انحصار ہے۔ بے شمار ایسے لوگ جن کے اہل خانہ وہاں مقیم ہیں، وہ بھی اپنے خاندان میں نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں، فلاحی تنظیموں کی ملنے والی امداد اور عطیات کا بڑا حصہ ان اوورسیز پاکستانیوں کا ہے۔
میں اس معاملے کو بڑے سادہ طریقے سے دیکھتا ہوں۔ اگر مجھے باہر جانے کا موقعہ ملے، وہاں چار پانچ سال بعد شہریت مل جائے اور میں اپنے بیوی بچوں کو بھی وہاں بلوا لوں، سیٹل ہوجائوں تو کیا میرا پاکستان سے تعلق، ناتہ، جذباتی رشتہ ٹوٹ جائے گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ پاکستان میرے دل میں دھڑکتا ہے اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وہ دوست احباب جو باہر مقیم ہیں، ان کا معاملہ بھی کم وبیش اسی انداز کا ہے، بلکہ ممکن ہے بہت سے مجھ سے زیادہ جذباتی تعلق اور رشتہ رکھتے ہوں۔ میری تحریر یں پڑھنے والوں میں بہت سے اوورسیز پاکستانی ہیں، ان سے رابطہ رہتا ہے۔ میں نے تو انہیں مقامی پاکستانیوں سے کہیں زیادہ دردمند، مخلص اور پاکستان کے لئے پریشان پایا۔ امریکی یا یورپی شہریت مل جانے کے بعد بھی وہ پاکستانی ہی ہیں، پاکستان کا حصہ ہیں، ان کا اٹوٹ رشتہ ہے، اسے برقرار رکھنا بلکہ مزید مضبوط بنانا چاہیے۔ ووٹ ڈالنے کا یہ حق اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو مقامی حالات کا اندازہ نہیں یہ بات بذات خود سادہ لوحی بلکہ جہالت کے زمرے میں آتی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ میری اپنی فیس بک وال پر سینکڑوں بلکہ شائد ہزار سے اوپر اوورسیز پاکستانی ہوں، ہر مقامی ایشو پر بحث میں وہ شامل ہوتے اور اپنی رائے دیتے ہیں۔ فیس بک، واٹس ایپ کے ذریعے سب جڑے ہیں۔ پاکستانی اخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشن بڑی تعداد میں باہر پڑھے جاتے ہیں۔ اپنے رشتے داروں کے توسط سے بھی انہیں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ملتی رہتی ہے۔
بائی دا وے اگر ان ووٹرز کو اپنے حلقے میں گلی محلے کے مسائل اور ٹوٹی سڑکوں، سیوریج وغیرہ کی مشکلات سے آگہی نہیں تو پھر وہ سیاسی جماعتوں کے منشور کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے جو بذات خود بہت اچھی بات ہے۔ ہم ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ ووٹر نالی، سڑک کے مسائل سے ہٹ کر قومی معاملات کے حوالے سے ووٹ ڈالے اور خاص کر قومی اسمبلی کے اراکین اس بنیاد پر منتخب کرے۔ اوورسیز پاکستانی اگر ایسا کریں تو اس سے اچھی کیا بات ہوگی؟
ویسے لاکھوں ووٹر ہمارے ہاں ایسے ہیں جو خوشحالی کی بنا پر بہت سے مسائل سے لاعلم ہیں۔ انہیں کبھی بسوں، ویگنوں میں سفر کرنا پڑا نہ ریڑھیوں سے خریداری کی اور نہ ہی وہ پولیس، پٹواری کے مظالم سے دوچار ہوئے۔ ان تمام لوگوں کا ووٹ کا حق بھی پھر منسوخ کر دینا چاہیے کہ انہیں مقامی مسائل سے کماحقہ آگہی نہیں؟ اوورسیز پاکستانیوں کے شعور پر بلاوجہ شبہ کرنے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کریں، وہ ہم آپ سے زیادہ میچور اور باشعور ہیں۔
فلاں فلاں ملک میں ایسا نہیں کیا جاتادنیا کے بے شمار ممالک میں یہ حق دیا جاتا ہے۔ اگر کسی جگہ نہیں ہوتا تو یہ ان کی نالائقی ہے۔ یہ مطالبہ بھی عجیب ہے کہ جنہوں نے دہری شہریت لی ہے وہ ووٹ نہ ڈالیں، آخر کیوں؟ حکومت چلانے کے حوالے سے پابندی دوسری بات ہے، مگر ووٹ ڈالنا دراصل اپنے ملک کے ساتھ تعلق کی آبیاری کے مترادف ہے۔ اگر مغربی ممالک میں اوورسیز پاکستانیوں کا ایک حصہ یا ان کی نئی نسل پاکستان سے لاتعلق ہو رہی ہے تو اس رویے کو بدلنے کا سوچیں۔ ویژن تو یہ ہے کہ ان بیرون ملک پاکستانیوں کا ملک سے تعلق جوڑیں، نئی نسل کو ساتھ جوڑنے کی تدبیر سوچیں نہ کہ رہے سہے تعلق پر کلہاڑا چلا دیا جائے۔
اس قانون سازی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اپنے حلقوں میں انوالمنٹ بڑھے گی، مقامی نمائندوں سے تعلق بنے گا جو ان کی زمینوں وغیرہ پر ناجائز قبضوں وغیرہ کے مسائل میں مفید ثابت ہوگا، مقامی لوگوں کا بھی ان سے انٹرایکشن بڑھے گا۔ قومی سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ایشوز کو اہمیت دینا پڑے گی جس کا انہیں فائدہ ملے گا۔ بیرون ملک میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی شاخوں کو بھی اس حوالے سے متحرک ہونا پڑے گا۔ بہت سے مزید نکات بیان کئے جا سکتے ہیں مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔