Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Tareekh Apne Aap Ko Dohrati Hai? (3)

Kya Tareekh Apne Aap Ko Dohrati Hai? (3)

گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے فرمایا کہ چیف جسٹس ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال ہوئے تھے، ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے جا بھی سکتے ہیں۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے ایک سنگین دھمکی اور واضح توہین عدالت کہا جا سکتا ہے۔ رانا ثنااللہ چیف جسٹس آف پاکستان عطا بندیال کو صرف اس لئے دھمکا رہے ہیں کہ کہیں وہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن نہ کرانے پر وفاقی حکومت کے خلاف کارروائی نہ کرے۔ اسے ججوں کو دھمکانا ہی کہا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟

خیر یہ تو ہمارے آج کا قصہ ہے۔ اپنے پچھلے دو کالموں میں بتایا کہ مسلم لیگ ن کا یہ پرانا سٹائل رہا ہے۔ ججوں کو مینیج کرنے کی کوشش کرو، ناکام ہوجائو تو دھمکائو اورپارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے لاکھڑا کرو تاکہ اداروں کے ٹکرائو کا تاثر بنا کر اپنے آپ کو بچایا جا سکے۔ چھبیس سال پہلے 1997میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

پچھلے دونوں کالموں میں ذکر آیا کہ اگست 97سے شروع ہونے والی جنگ نومبر کے آخری ہفتے تک اپنے کلائمکس پر پہنچ گئی۔ اب آگے دیکھتے ہیں کہ ان آخری سات دنوں میں کیا ہوا۔

ستائیس نومبر1997: سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ نے چیف جسٹس کا ایگزیکٹو آرڈر ختم کر دیا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کوئٹہ کے ڈویژن بنچ کے فیصلے کو ختم کیا تھا۔ موجودہ کوئٹہ بنچ فل بنچ یعنی تین ججوں پر مشتمل تھا، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس خلیل الرحمن خان، جسٹس ناصر اسلم زاہد۔

ستائس نومبر، پشاوررجسٹری سپریم کورٹ: سپریم کورٹ پشاور کے ایک دو رکنی بنچ نے بھی کوئٹہ بنچ کے فیصلے کی تائید کر دی۔ یہ بنچ جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس فضل الٰہی خان پر مشتمل تھا، پشاور میں موجود تیسرے جج جسٹس مختار جونیجو بنچ میں نہیں بیٹھے۔

ستائیس نومبر، سپریم کورٹ: چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے صدر فاروق لغاری کو خط لکھا کہ سپریم کورٹ کو آرمی یا پیراملٹری فورسز کے ذریعے تحفظ دیا جائے۔ اس خطر کے باوجود مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔

یوم سیاہ اٹھائیس نومبر، سپریم کورٹ بلڈنگ، کورٹ نمبر ون: چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر مسلم لیگی کارکنوں نے حملہ کر دیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دو سو سے زیادہ پولیس والے لاٹھیوں سے مسلح موجود تھے، مگر کسی نے کارکنوں کو روکنے کی زحمت تک نہیں کی۔ پرجوش لیگی کارکن گیٹ توڑ کر اندر گھسے، چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے اورکمرہ عدالت کی طرف لپکے۔

چیف جسٹس سمیت تینوں جج صاحبان اس دوران اٹھ کر ریٹائرنگ روم چلے گئے، انہیں بمشکل پولیس نے پچھلے دروازے سے نکالا۔ مبینہ طور پر یہ لیگی کارکن لاہور سے لائے گئے تھے۔ پنجاب ہائوس میں ناشتہ کے بعدانہیں سپریم کورٹ بلڈنگ لایا گیا۔ مسلم لیگی ایم این اے میاں منیر، ایم این اے طارق عزیز، ایم پی اے اختر رسول ان کی قیادت کر رہے تھے۔ حملہ کا مقصد پورا ہوا اور کارروائی پیر تک معطل ہوگئی۔

اٹھائیس نومبر، کوئٹہ: جب اسلام آباد میں سپریم کورٹ پر حملہ ہو رہا تھا، اسی وقت کوئٹہ میں سپریم کورٹ کے بنچ نے مائنس چیف جسٹس ایک فل کورٹ بلانے کا کہا جوچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف الزامات کی سماعت کرے۔ ایسا ہی ایک آرڈر پشاور بنچ نے بھی جاری کیا۔ سعید الزماں صدیقی نے پندرہ رکنی فل کورٹ بلائی۔

تیس نومبر، اسلام آباد: چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنی رہائش گاہ سے آرڈر جاری کرتے ہوئے جسٹس سعیدالزماں صدیقی کے فل کورٹ آرڈرز کو منسوخ کر دیا۔ دوسری طرف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے سجاد علی شاہ کے ان مذکورہ آرڈرز کو لینے سے انکار کر دیا۔

اختتام یکم دسمبر، اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے صدر لغاری کے مواخذہ کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ 1993کی طرح مستعفی نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کے مطابق تب انہوں نے غلطی کی تھی، جسے دہرانے کا وہ کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

یکم دسمبرپیر، اسلام آباد، سپریم کورٹ بلڈنگ: سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار دو الگ الگ کاز لسٹیں ایشو کی گئیں، ایک جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے جبکہ دوسری جسٹس سعید الزماں صدیقی کی جانب سے پندرہ رکنی فل کورٹ کی۔ دو دسمبر، اسلام آباد، سپریم کورٹ: کورٹ نمبر ون میں سجاد علی شاہ نے جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس چودھری آصف کے ساتھ کارروائی کا آغاز کیا اور شروع ہی میں تیرویں آئینی ترمیم معطل کر دی۔

دو دسمبر، اسلام آباد، سپریم کورٹ، کورٹ نمبر ٹو: جسٹس سعیدالزماں صدیقی کی سربراہی میں دس رکنی بنچ نے فوری طور پر چیف جسٹس کے بنچ کی جانب سے تیرویں ترمیم کی معطلی کا آرڈر منسوخ کر دیا۔ یاد رہے کہ اس ترمیم کی معطلی سے صدر لغاری کو اسمبلی توڑنے کا اختیار مل گیا تھا۔

دس رکنی بنچ میں جسٹس سعیدا لزماں صدیقی، جسٹس فضل الٰہی خان، ارشاد حسن خان، راجہ افراسیاب خان، ناصر اسلم زاہد، منورا حمد مرزا، خلیل الرحمن خان، شیخ ریاض احمد، عبدالرحمن خان شامل تھے۔ بعض جج صاحبان جیسے اجمل میاں، جسٹس مختار جونیجو، جسٹس مامون قاضی وغیرہ نیوٹرل رہے، وہ دونوں بنچوں میں شامل نہیں ہوئے۔

کچھ دیر تک یوں ہی ہوتا رہا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے چودھویں ترمیم بھی معطل کر دی، دس رکنی بنچ نے وہ فیصلہ بھی اڑا دیا۔ جو فیصلہ چیف جسٹس کا بنچ کرتا، چند منٹوں بعد اسے ساتھ والے کمرے میں بیٹھا بنچ اڑا دیتا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سب فیصلے ہوا میں ہوئے، دس رکنی بنچ کے پاس نہ کوئی پٹیشن تھی نہ کوئی فائل وغیرہ، فیصلے بس ایسے ہی ہوئے جا رہے تھے۔ دو دسمبر، اسلام آباد، ایوان صدر۔ صدد فاروق لغاری نے استعفا دینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف پر سخت تنقید کی اور انہیں تمام تر غلط کاموں کا ذمہ دار ٹھیرایا۔

دودسمبر: سجاد علی شاہ کے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس اجمل میاں نے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے انتظامی اختیارات سنبھال لئے۔ دس رکنی بنچ نے جسٹس اجمل میاں کو ایسا کرنے کا کہا۔ جسٹس اجمل میاں نے چھ نئے بنچ بنا دئیے، جن میں سے ایک بنچ میں جسٹس سجاد علی شاہ بھی بطور جج شامل تھے۔

دو دسمبر، ایوان صدر: چیئرمین سینٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر پاکستان بن گئے۔

مایوس اور شکست خوردہ جسٹس سجاد علی شاہ کراچی چلے گئے، اسلام آباد ائیر پورٹ پر انہیں دس رکنی بنچ کی جانب سے نوٹس پہنچایا گیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ انہیں بائی پوسٹ نوٹس کراچی بھیجے جائیں۔ کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے عندیہ ظاہر کیا کہ وہ اپنا کیس خود سپریم کورٹ میں لڑیں گے۔

تین دسمبر، اسلام آباد: جسٹس اجمل میاں نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لے لیا۔ مختلف کرداروں کو کیا ملا؟ تاریخ کے اس اہم موڑ پر جن کرداروں نے جو کچھ کیا، ان سب کو ان کی ایک خاص قیمت ادا کرنا پڑی۔

فاروق لغاری: انہوں نے بطور صدر بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑی تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کو لانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ بعد میں انہوں نے ملت پارٹی بنائی مگر سیاسی طور پر اپنی جگہ نہ بنا سکے۔

جسٹس سجاد علی شاہ: انہوں نے نواز شریف اسمبلی کی بحالی کے فیصلے (1993)میں اختلافی فیصلہ لکھا تھا اور کہا کہ پنجابی وزیراعظم کی اسمبلی بحال ہوجاتی ہے، سندھی کی نہیں۔ تین سال بعد انہوں نے سندھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑے جانے کو جائز قرار دیا۔ نواز شریف سے ٹکرائو کے بعد ان کا کیئرئر ختم ہوا۔ پنشن بھی خاصا عرصہ بند رہی، باقی ماندہ حصہ انہوں نے گمنامی میں گزارا۔

جسٹس سعیدالزماں صدیقی: انہوں نے دس رکنی بنچ کے سربراہ کے طور پر سجاد علی شاہ کو رخصت کرنے میں کردار ادا کیا۔ بعد میں اپنی باری پر وہ چیف جسٹس پاکستان بنے۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت فارغ کئے گئے۔ کئی سال تک گمنام رہے اور پھر نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں انہیں گورنر سندھ بنایا، صرف چند دنوں کے بعدوہ علیل ہوئے اور انتقال کر گئے۔

جنرل جہانگیر کرامت: تب آرمی چیف جنرل کرامت نے عدلیہ یا صدر کے بجائے وزیراعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو سکیورٹی بھی فراہم نہ کی اور اس کے نتیجے میں حملہ ہوگیا۔ جس وزیراعظم کی جنرل کرامت نے حمایت کی، اسی نے اگلے سال انہیں خاصا بے آبرو کرکے استعفادینے پر مجبور کر دیا۔ استعفے کے بعد انہیں ایک امریکی تھنک ٹینک میں ملازمت کرنا پڑی۔

نواز شریف: وزیراعظم نواز شریف فاتح ٹھیرے، چیف جسٹس اور صدر سے جان چھوٹ گئی۔ اگلے سال آرمی چیف بھی بدل ڈالا اور اپنی مرضی کے بظاہر کمزور اردو سپیکنگ جنرل مشرف کو چیف بنایا۔ صرف ایک سال بعد نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، ان پر مقدمہ چلا، پھر سعودی حکومت کی مدد سے ڈیل کرکے جلاوطن ہوگئے۔ واپسی کی راہ تب کھلی جب بے نظیر بھٹو ڈکٹیٹرمشرف کے ساتھ این آر او کرکے وطن واپس آئیں۔ تب نواز شریف واپس آئے، پانچ سال بعد وزیراعظم بنے اور پانامہ کیس کے بعدتاحیات نااہل ہوئے۔

چھبیس سال پرانی تاریخ کے یہ اوراق ختم ہوئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کیا ہوگا؟ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی یا اس بار کچھ انہونی ہوجائے گی؟