مدرسہ رجسٹریشن بل کا جو تنازع چل رہا ہے، اس میں لگتا ہے ن لیگ کی حکومت پھر سنگین غلطی کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کو خوف ہے کہ کہیں مولانا فضل الرحمن احتجاجی سیاست کی طرف نہ چلے جائیں اور اگر وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کربیٹھیں تو بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی۔ اسی وجہ سے وزیراعظم شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے حوالے سے یہ اطلاعات آئی ہیں کہ حکومت نے مولانا کی تما م شرائط مان لی ہیں اور جلدمولانا کی طرف سے پیش کردہ مدرسہ رجسٹریشن بل کو قانون بنانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ حکومت کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہیں، انہیں سمجھنا مشکل نہیں۔ تاہم حکومت کا کام صرف سیاسی چالیں چلنا نہیں۔ اصل کام وسیع تر تناظر اور لانگ ٹرم بنیاد پر قوم اور ملک کے لئے بہتر سوچنا ہے۔
بظاہر حکومت پھر وہی غلطی دہرا رہی ہے جس کا ارتکاب اس نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت بلاسوچے سمجھے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پیش کئے گئے مدرسہ رجسٹریشن بل کو اسمبلی سے پاس کرا کر کیا تھا۔ اب پھر حکومت بلاسوچے سمجھے، صرف سیاسی بلیک میلنگ یا دباؤ سے بچنے کے لئے اسی بل کو قانون کی شکل دلوانا چاہ رہی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ایک بہت بڑے طبقے کو بے رحمی سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ معمولی طبقہ یا کم لوگ نہیں، اٹھارہ ہزار چھ سو مدارس اور بائیس لاکھ کے قریب طلبہ کا معاملہ ہے۔ ان سب کا مستقبل مولانا کے مدرسہ رجسٹریشن بل سے داؤ پر لگ جائے گا۔ اس ایشو پر رائے قائم کرنے سے پہلے دو تین بنیادی نکات کو سمجھ لینا چاہیے۔
1: یوٹرن حکومت نے نہیں بلکہ وفاق المدارس نے لیا ہے۔ یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے کیونکہ اس حوالے سے خاصا کنفیوژن پھیلایا جا رہا ہے۔ مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو چند سطروں میں خلاصہ آ جائے گا۔ پاکستان میں مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں جو کہ وزارت صنعت کے تحت آتے ہیں۔ سوسائٹی ایکٹ کے تحت آنے کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ ترویلفیئر ادارے اسی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں، مدارس کا موقف تھا کہ وہ بھی چونکہ فری تعلیم دیتے ہیں، چیریٹی ادارے ہیں اس لئے ان کی بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن بنتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دیگر چیریٹی ادارے جیسے ایدھی، چھیپا، الخدمت، اخوت وغیرہ کا معاملہ مختلف ہے، وہ صرف چیریٹی کام کرتے ہیں، تعلیم نہیں دیتے۔ ان چیریٹی اداروں سے نہ فرقہ واریت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی ایدھی، الخدمت، چھپیا اور دیگر ادارے کسی قسم کے فتوے جاری کرتے ہیں اور ان سے مذہبی شدت پسندی کو بھی بڑھاوا نہیں مل سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس بہت بڑا کام کررہے ہیں، بیشتر مدارس کے حوالے سے منفی تاثر بھی نہیں، وہ شدت پسندی میں ملوث نہیں، تاہم یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت، فتوے بازی کے پیچھے کہیں نہ کہیں مدارس یا وہاں سے فارغ التحصیل افراد کا ایک حلقہ (چاہے خاصامختصر سہی)موجود ہے۔
اسی لئے سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں یہ سوچا گیا کہ اس سسٹم کو زیادہ منظم بنایا جائے اور بعض ممکنہ خرابیوں کا تدارک کیا جائے۔ ایک لمبی چوڑی ایکسرسائز ہوئی، دینی مدارس کے پانچوں پرانے وفاق سے مذاکرات کی کئی نشستیں ہوئیں۔ لمبے چوڑے سوچ بچار کے بعد مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اتحاد تنظیمات مدارس (پانچوں پرانے وفاق کے اتحاد)نے اس معاہدے پر دستخط کئے اور پھروہ قانون بن گیا۔ تب بہت سے مدارس وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہوگئے۔
پھر دو ہزار اکیس میں وزارت تعلیم کے اسی ڈائریکٹوریٹ نے مذہبی مدارس کے دس نئے وفاق بنانے کی منظوری دی۔ ان میں سب سے اہم جامعتہ الرشید اورمفتی نعیم کے مدرسہ جامعہ بنوری کا اتحاد مجمع العلوم الاسلامیہ ہے۔ جامعتہ الرشید وفاق المدارس کے مدارس میں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا، اس کا الگ وفاق بنانے کے فیصلہ سے وفاق کے قائدین مولانا حنیف جالندھری، مفتی تقی عثمانی صاحب اور وفاق المدارس کے سیاسی سرپرست مولانا فضل الرحمن کو شدید دھچکا پہنچا۔ مولانا فضل الرحمن ہمیشہ سے دینی مدارس کے متفقہ نمائندے اورسرپرست سمجھے جاتے تھے، نئے وفاق بننے سے انہیں نقصان پہنچا۔
پانچوں پرانے وفاق میں سب سے بڑا وفاق المدارس ہے، آج کل اس کے صدر مفتی تقی عثمانی صاحب ہیں۔ وفاق المدارس ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کے دست وبازو ہونے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ جب سے نئے بورڈ (وفاق) بنے، تب سے وفاق المدارس اور مولانا فضل الرحمن ان نئے مدارس کے بورڈ یا وفاق سے ناراض اور شاکی رہے۔ اب چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت مولانا فضل الرحمن کو موقع مل گیا۔ وہ زبردست بارگیننگ کی پوزیشن میں تھے، حکومت ان کی مدد کے بغیر کسی بھی صورت آئینی ترمیم منظور نہیں کرا سکتی تھی۔ مولانا نے چھبیسویں ترمیم کے ساتھ اپنا مدرسہ رجسٹریشن بل بھی پیش کیا کہ اسے بھی ساتھ ہی منظور کریں۔ حکومت دباؤ میں تھی۔ بل اسمبلی سے منظور ہوگیا، تاہم صدر زرداری نے اس پر دستخط نہیں کئے اور اسے واپس بھیج دیا کہ اس کی بعض شقیں آئین سے متصادم ہیں۔
مولانا اور وفاق المدارس کا یوٹرن۔ مولانا فضل الرحمن کی ہوشیاری یہ ہے کہ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دس کے دس نئے وفاق کی جڑ ہی کاٹ ڈالی۔ نئے مدرسہ رجسٹریشن بل میں واضح ہے کہ ہر مدرسے کو چھ ماہ میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونا پڑے گا، اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ یعنی اس اعتبار سے جو ساڑھے اٹھارہ ہزار مدارس گزشتہ تین برسوں سے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہیں اور انہوں نے اپنا پورا نظام وضع کر لیا ہے، وہ سب کچھ صفر ہوجائے گا اور ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ یہ اس اعتبار سے یوٹرن ہے کہ وفاق المدارس اور باقی پرانے وفاق خود پانچ سال پہلے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ڈ کرانے پر رضامند ہوئے تھے، اب اچانک انہیں سوسائٹی ایکٹ کیسے اور کیوں یاد آیا؟
غلطی کہاں ہوئی؟ مولانا فضل الرحمن نے پانچوں پرانے وفاق سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی۔ جماعت اسلامی کا ایک مدرسہ بورڈ(رابطہ المدارس) بھی ان پانچوں پرانے وفاق کے مشترکہ پلیٹ فارم"اتحاد تنظیمات مدارس"کا حصہ ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم یہ بتا چکے ہیں کہ ان سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اپنی غلطی سے رجوع کرنے کے بجائے اس پر مصر ہیں۔ حکومت سیاسی دباوکا شکار ہو کر مولانا کے بل کو اگر من وعن قانون بنا لے گی تو پھر ایک نئی احتجاجی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ جو ساڑھے اٹھارہ ہزار مدارس اور بائیس لاکھ طلبہ متاثر ہوں گے وہ کہاں جائیں گے؟ بہتر یہی ہے کہ مولانا کو رضامند کیا جائے کہ دونوں آپشن کے ساتھ نیا قانون منظور ہو۔ جو مدرسہ بورڈ چاہے وہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن لے اور جو وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ اور مطمئن ہیں، انہیں نہ چھیڑا جائے۔ یہی بہترین حل ہے۔