Friday, 03 January 2025
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Madrassa Registration Bill, Kis Ne Kya Khoya, Kya Paya?

    Madrassa Registration Bill, Kis Ne Kya Khoya, Kya Paya?

    مدرسہ رجسٹریشن بل کے تنازع کا ڈراپ سین ہوچکا۔ صدر آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے مطالبے پر اسمبلی سے منظور شدہ بل پر دستخط کردئیے ہیں جس سے وہ اب قانون بن گیا جبکہ اس کے ساتھ ہی ایک آرڈیننس پر بھی دستخط کئے ہیں جس سے وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو بھی قانونی تحفظ مل گیا۔ البتہ اسے اگلے ایک سو بیس دنوں کے اندر پارلیمنٹ سے بطور ایکٹ منظور کرانا پڑے گا ورنہ آرڈی ننس ختم ہوجائے گا۔

    سوال یہ ہے کہ اس پورے ایشو میں کس نے کیا کھویا، کیا پایا؟ پہلے مولانا فضل الرحمن اور اتحاد تنظیمات مدارس میں موجود پانچ پرانے بورڈز کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو کیا ملا، کیا گنوایا؟ مولانا فضل الرحمن کو ایک اہم کامیابی تو یہ ملی ہے کہ ان کے مطالبے کے عین مطابق اسمبلی سے منظور شدہ مدرسہ رجسٹریشن بل من وعن ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا، اس پر صدر نے دستخط کر دیئے۔ یوں مولانا فضل الرحمن اپنی دینی مدارس کی مخصوص آڈینس اور اتحاد تنظیمات مدارس کے سامنے سرخرو ہوگئے ہیں۔

    مولانا کو دو نقصانات بھی ہوئے ہیں، اگرچہ انہیں اس کا ابھی اندازہ نہیں یا اگر ہوا ہے تو وہ اظہار نہیں کرینگے۔ پہلا نقصان یہ کہ اب تک مولانا فضل الرحمن دینی مدارس کے متفقہ نمائندے سمجھے جاتے تھے۔ یہ تاثر عام تھا کہ مولانا پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی سیاست سے دینی مدارس کے تمام تر حقوق اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس تنازع میں یہ مِتھ ٹوٹ گئی، یہ بھرم ختم ہوگیا۔ واضح ہوگیا کہ مولانا صرف وفاق المدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس کے دیگر تین چار بورڈز کے نمائندے ہیں۔ جو دس نئے مدرسہ بورڈز بنے ہیں، ان کا مولانا فضل الرحمن سے کوئی تعلق نہیں۔

    مولانا نے ان کے حقوق کا خیال رکھنا تو درکنار انہیں معمولی سا اکاموڈیٹ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ یہ یاد رہے کہ نئے دس مدرسہ بورڈز میں بریلوی مکتب فکرکے اہم مدرسہ بورڈز جیسے منہاج القرآن، دعوت اسلامی، علامہ حامدرضا کا مدارس نیٹ ورک کے علاوہ مجمع العلوم اسلامیہ جیسا اہم دیوبندی مدرسہ بورڈ بھی شامل ہے جس میں جامعتہ الرشید اور جامعتہ بنوریہ علمیہ شامل ہیں، پنج پیری مدرسہ بورڈ، ڈاکٹر جواد نقوی سے منسلک شیعہ مدارس کے علاوہ بعض دیگر بورڈز بھی ان میں شامل ہیں۔

    اب یہ ہر ایک پر کلیئر ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمن دینی مدارس کے ایک دھڑے یا حلقے کے نمائندہ ہیں اورایک اچھا خاصا بڑا حلقہ ان کے دائرہ اثر میں نہیں بلکہ ان سے شدید اختلاف رکھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے حامی ان کی ستائش کرتے ہوئے مبالغہ آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ مولانا پانچ لاکھ علما کے نمائندہ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب انہیں ازخود یہ تعداد گھٹا دینی چاہیے۔

    جمعیت علما اسلام کے لوگ سوشل میڈیا پر مسلسل یہ لکھ اور کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے دینی مدارس میں اختلافات پیدا کئے ہیں۔ درحقیقت اس کے ذمے دار مولانا فضل الرحمن ہی ہیں۔ وہ اگر بل اسمبلی میں لانے سے پہلے پندرہ کے پندرہ مدرسہ بورڈز کے ذمہ داران کو بلا کر مشاورت کر لیتے اور مسودے میں صرف چند الفاظ اور ایک دو سطروں کا اضافہ کرا لیتے تو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ان مدارس بورڈز کو بھی قانونی تحفظ مل جاتا۔ یہ تحفظ اب انہوں نے اپنی کوشش، لابنگ اور اہم حلقوں تک رسائی کرکے حاصل کر ہی لیا ہے۔ اگر مولانا انہیں یہ سب کچھ دلوا دیتے تو پھر وہ خود کو پھر سے مدارس کا متفقہ نمائندہ کہہ سکتے تھے۔ افسوس ایسا نہیں ہوپایا۔

    مولانا کو دوسرانقصان یہ ہوا کہ وہ وزارت تعلیم کے تحت ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن کا سرے سے ٹنٹا ہی ختم کر دینا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مدارس صرف سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی رجسٹرڈ ہوں، اس سے ضمنی فائدہ یہ ملنا تھا کہ ان دس نئے مدرسہ بورڈز کی جڑ ہی کٹ جانا تھی اور انہیں نئے سرے سے آغاز کرتے ہوئے سوسائٹی ایکٹ کے تحت آنا پڑتا۔ یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ اس ایشو کو قریب سے دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ مولانا کی گرفت آنے والے دنوں میں دینی مدارس پر سے کمزور ہوگی کیونکہ ان کے بغیر بھی اپنے مطالبات منوا لئے گئے۔

    دس نئے مدرسہ بورڈز کو کیا ملا؟ مجمع العلوم الاسلامیہ اور دیگرمدرسہ بورڈز کو سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ وہ بدستور وزارت تعلیم کے تحت رہیں گے۔ انہیں آرڈینینس کے ذریعے قانونی تحفظ مل گیا۔ اب سوسائٹی ایکٹ کے تحت آنے کی ضرورت نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ کامیابی مولانا فضل الرحمن یا کسی اور سیاسی جماعت کی مرہون منت نہیں، اس لئے ان پر سیاسی حمایت کرنے کا غیر رسمی دبائو یا پابندی بھی نہیں ہوگی۔ ان مدرسہ بورڈز کے لئے البتہ یہ چیلنج ضرور ہوگا کہ چار ماہ کے اندر اندر اس آرڈیننیس کو اسمبلی سے منظور کرائیں تاکہ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے، بصورت دیگر ایک سو بیس دنوں کے اندر یہ آرڈی ننس ایکسپائر ہوجائے گا۔

    حکومت کو کیا حاصل ہوا؟ حکومت کے لئے طمانیت کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے دونوں فریق راضی ہوگئے ہیں۔ اگر اسمبلی سے منظور بل پر صدر دستخط نہ کرتے تو مولانا فضل الرحمن اور اتحاد تنظیمات مدارس کے لوگ احتجاجی موڈ میں چلے جاتے، ممکن ہے مولانا تب تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ملا کر لانگ مارچ بھی شروع کر دیتے۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔

    دوسری طرف اگر صدر صرف اسمبلی سے منظور شدہ بل پر دستخط کر دیتے تو تو دس نئے بورڈ سراپا احتجاج بن جاتے، آرڈی ننس جاری ہونے سے وہ بھی خوش اور مطمئن ہوگئے۔ حکومت کو البتہ اس معاملے میں اپنی کوتاہی اورغلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ انہیں اسمبلی سے بل منظور کراتے ہوئے ہی ایشو کو درست ہینڈل کرنا چاہیے تھا، تب چند لفظوں کے ہیرپھیر سے یہ بل سب کے لئے قابل قبول بن جاتا۔

    حکومت کو تب اس معاملے کی سنگینی اور پیچیدگی کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جب حکومتی ٹیم کی دس نئے مدرسہ بورڈز کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو بعض وزرا نے اعتراف کیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس بل کو تمام دینی مدارس کی حمایت حاصل ہے اور انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ پانچ بورڈ ایک طرف اور دس نئے مدرسہ بورڈ دوسری طرف ہیں۔ ایسی بے خبری اور لاعلمی قابل تنقید ہے۔ اس معاملے کو جاننا کون سامشکل تھا؟ کسی اخبار کے لئے مذہبی بیٹ کرنے والا ایک اچھا رپورٹر بھی ان تمام چیزوں سے باخبر اور آشنا تھا، حکومت کے پاس تو وزارت مذہبی امور اور کئی مشیر باتدبیر موجود تھے۔ خیر اچھا ہوا کہ تنازع نمٹ گیا۔ اس کے اثرات اگرچہ دوررس اور ہمہ گیر ہوں گے۔ بظاہر مبارکبادوں کا شور ہے، مگر اندر سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ اس تنازع نے تقسیم بڑھائی ہے، کم نہیں کی۔