Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mayoosi Ki Dhund Mein Lipta Column

Mayoosi Ki Dhund Mein Lipta Column

ایک اور سال گزر گیا۔ نئے سال کو تین دن ہوچکے ہیں، کچھ ہی عرصہ میں ایک بار پھر دسمبر کے آخری دن ہمیں یاد دلائیں گے کہ یہ سال بھی بیت گیااور نیا سال آن پہنچا۔ وقت کی رفتار کچھ زیادہ تیز ہوگئی ہے یا ہمارا روزمرہ کے معمول ایسے مشینی ہوچکے کہ ہفتے دنوں میں اور مہینے ہفتوں میں تبدیل ہوگئے۔ سال شروع ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ چارپانچ ماہ چلے گئے۔ وقت کے توشہ خانے میں معلوم نہیں کس کے لئے کیا بچا ہے، بس اس مہلت کو غنیمت سمجھ کر کچھ کر لینا چاہیے۔ یہ بات انفرادی سطح پر بھی درست ہے، گروہ، تنظیم، ادارے اور ملک کی سطح پر بھی۔

تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو بھی نوید ہو کہ وقت کی گھڑی تیزی سے چل رہی ہے۔ ان کی حکومت کو لگ بھگ ڈیڑھ سال ہونے کو ہے، اس دوران حکومت اور خود ان کی ذاتی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی حمایت کرنے والے ہر شخص کو مایوس کیا ہے۔ اب یہ انکے حامیوں پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی حمایت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ انکے قائد نے بہرحال حسن ظن کے کم وبیش تمام پردے چاک کر ڈالے ہیں۔ عمران خان نے پاکستانی سیاست کو شدید طریقے سے متاثر کیا، مثبت، منفی دونوں انداز سے ان کے اثرات ہیں۔ اس پر بات ہونی چاہیے۔ یہ مگر ایک علیحدہ موضوع ہے، جس پر جلد تفصیل سے بات کریں گے۔ سردست تو نئے سال کی ابتدا ہی میں مایوسی کی اس لہر پر بات کرتے ہیں، جس نے تبدیلی کے ہر خواہش مند کو شدت سے متاثر کیا۔

عمران خان نے سیاست میں رومانویت بھی شامل کی، مگر بہت سے خواب، وعدے اور نعرے بھی متعارف کئے۔ ایک ایک کر کے وہ ہر خواب، نعرے اور عہد سے دستبردار ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز محترم اوریا مقبول جان نے اپنے کالم میں بعض اہم باتوں کاتذکرہ کیا، جن میں اردو کو بطور دفتری زبان کے نافذ کرنا اور مقابلے کے امتحانات میں لازمی مضامین کے پرچے اردو میں لینے کی بات بھی شامل تھی۔ عمران خان نے سیاسی جماعت بنانے سے پہلے اخبارات میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، وہ مختلف ایلیٹ کلاس انگلش سکولوں میں جا کر بھی وہ باتیں کرتے رہے۔ مرکزی نکتہ یہی تھا کہ ہمیں انگریزدور کے احساس کمتری اور تعصبات سے نکلنا چاہیے۔ عمران خان بار بار انگریزی زدہ اشرافیہ کے لئے برائون انگریز کی اصطلاح استعمال کرتے۔ پڑھے لکھے مڈل کلاس نوجوانوں کے بڑے طبقے کو خان صاحب کے ان مضامین نے متاثر کیا تھا۔ اس وقت لگا کہ پہلی بار کوئی ایسانمایاں شخص یا لیڈ ر آیا جو اعلیٰ ترین مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھا، عمدہ انگریزی بول اور لکھ سکتا ہے، مغرب میں بہت سے سال رہا، مگر ان کے کلچرل رعب سے آزاد ہے۔ عمران خان نے اپنے دو عشروں کی سیاست میں بھی بار بار نظام کو بدلنے، اصلاحات لانے کی بات کی۔ حکومت میں آ جانے کے بعد فطری طور پر لوگ وہ وعدے پورے ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔

یہ درست کہ حکومت کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہو۔ ناتجربہ کار لوگ ہیں، معاملات مملکت سمجھتے سمجھتے بھی کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ ڈیڑھ سال اتنا عرصہ نہیں کہ حتمی فیصلہ دے دیا جائے۔ تشویشناک اور پریشان بات مگر یہ کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی استعداد (Capacity) کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات ہیں۔ ناتجربہ کار شخص تجربہ حاصل کر کے بہتری لا سکتا ہے۔ صلاحیت کو پالش بھی کیا جا سکتا ہے، بعض کمزوریوں کو اچھے مشیروں کی مدد سے دورکرنا ممکن ہے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں نوجوان ٹیلنٹیڈ کھلاڑی شروع میں نہ چل سکے توکچھ تجربہ حاصل ہوجانے اور اچھی کوچنگ ملنے کے بعد اس میں بہتری آ جاتی ہے۔ جس میں ٹیلنٹ ہی نہ ہو، اسے لاکھ تجربہ ملے، اچھے سے اچھا کوچ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ٹیم میں اہل لوگ موجود نہیں، زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو احساس تک نہیں۔ وہ شائد نااہل وزرا کو قابل سمجھتے ہیں یا پھر انہیں اپنے آپ پر کچھ زیادہ زعم ہے کہ ٹیم میں بہتر لوگ شامل کرنے کی خواہش ہی نظر نہیں آ رہی۔ انہوں نے جو ٹاسک فورسز بنائیں، ان میں وہی روایتی سوچ والے لوگ موجود ہیں، جو پچھلے دو عشروں سے مختلف حکومتوں کا حصہ رہے۔ جو مسئلہ کا حصہ ہوں، ان سے مسئلہ حل کرنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

معاشی مسائل خاصے گمبھیر ہیں، حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بڑا ریلیف دے سکے۔ اسکے باوجود بعض شعبے ایسے ہیں جن میں اصلاحات لانے کے لئے زیادہ فنڈز کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پراکادمی ادبیات پاکستان کے لئے کسی مرد قابل کا تقرر کون سا مشکل کا م ہے؟ اس کے لئے آئی ایم ایف کی منظوری تودرکار نہیں۔ پچھلی حکومت کے دور میں جناب عرفان صدیقی کی کوشش سے چند اہم علمی ادبی محکموں کے لئے معروف، ممتاز شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔ اردو سائنس بورڈ کی سربراہی کے لئے ممتاز دانشور، نقاد، سکالر ڈاکٹر ناصر عباس نیئرجبکہ قومی لغت بورڈ کے لئے عقیل عباس جعفری جیسے محقق کا انتخاب کیا گیا۔ مقتدرہ قومی زبان کے لئے افتخار عارف کو لایا گیا۔ ان کے ناقدین موجود ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ افتخار عارف اہل شخص نہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فائونڈیشن کا پورا کلچر بدل کر رکھ دیا، اتنے کام ہوئے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے عطاالحق قاسمی کی کوشش سے لاہور میں مجلس ترقی ادب کے لئے ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے بڑے سکالر کو ذمہ داری ملی۔ آج عمران خان کی ٹیم میں، ان کے دوستوں، ساتھیوں میں دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو علمی، ادبی اداروں کے لئے اہل لوگوں کے تقرر کا مشورہ دے سکے۔ ممکن ہے ان میں سے بہت سے شرفاء نے کتاب کی شکل بھی نہ دیکھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں صدارتی ایوارڈ کے حوالے سے بدترین فیصلے ہوئے۔ خان صاحب کے دوستوں میں شوبز کے مداحین موجود ہیں، اسی لئے فنکاروں کو سولہ ایوارڈ جبکہ علمی شعبوں میں صرف دو ایوارڈز ملے۔

اوریا مقبول جان نے اردو کو دفتری زبان بنانے کی بات کی۔ یہ نہایت اہم مطالبہ ہے جس کی حمایت کرنی چاہیے۔ اردو کو دفتری زبان بنانا آئینی ذمہ داری ہے، جس سے ہر حکومت کتراتی رہی۔ عمران خان اگر اردو کو دفتری اور حقیقی معنوں میں قومی زبان بنانے کا بیڑا اٹھا لیں تو انہیں عوامی سپورٹ حاصل ہوجائے گی۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں، کئی محکموں میں فوری طور پر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہزاروں لاکھوں لوگ اب بہت اچھی اردو لکھ سکتے ہیں۔ اردو کمپوزوں کی کمی نہیں، چند ہی دنوں میں اردو کمپوزنگ کرنے والے مل جائیں گے۔ اسی طرح مقابلے کے امتحانات میں اگر لازمی مضامین کے پرچے سردست اردو میں نہ بھی لئے جائیں تب بھی فوری طور پر انٹرویو تو اردو میں لینے کا فیصلہ کر لیا جائے۔ جس شخص نے بطور اسسٹنٹ کمشنر، اے ایس پی یا دیگر سرکاری محکموں میں ملازمت کرنی ہو، اس کے لئے روانی سے فرفر انگریزی بولنا کہاں سے ضروری ہوگیا؟ اسی انگریزی انٹرویوکے چکر میں بہت سے لائق مڈل کلاس لڑکے سلیکٹ نہیں ہوپاتے۔ اسی طرح اگر انگلش Essay کا پیپرلازمی نہ ہو تولائق اردو میڈیم طلبہ مقابلے کے امتحانات میں چھا جائیں گے۔ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کو تب سخت ترین مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کم از کم یہ تو ہونا چاہیے کہ انگلش Essay کی طرح اردو میں مضمون کا پرچہ بھی شامل ہو۔ پاکستان میں کام کرنے والے ہر سرکاری ملازم کو اردو لکھنا تو آنی چاہیے۔ جس میں یہ صلاحیت نہیں، اسے کوئی حق نہیں کہ وہ سرکار کا حصہ بنے۔

خیر یہ تو کچھ نیا کرنے والی باتیں ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھانے کا معاملہ۔ نیب آرڈی ننس میں ترمیم نے تو حکومت کو نہ صرف ایک قدم بلکہ کئی قدم پیچھے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ احتساب کے حوالے سے رومانویت کے شکار ہر شخص کو دھچکا پہنچا۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم بار بار یہ سن رہے تھے کہ کرپٹ عناصر کا سخت بے رحم احتساب کیا جائے گا، حکمران ٹولے کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے والے بیوروکریٹس کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ملک لوٹنے والے سرمایہ دار بھی گرفت میں آئیں گے۔ اب حکومت نے خود واضح طور پر بتا دیا کہ ان کے پاس ایسی قوت نہیں کہ اتنے طاقتور مافیاز کا احتساب کر سکیں۔ چلیں یہ کہانی بھی ختم ہوئی۔ حکومت اور حکمران کا سب سے بڑا وعدہ اور عزم مٹی میں مل گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے معیشت کا جام پہیہ پھر سے حرکت میں آئے گا، یا پھر یہ پسپائی بھی حکومت کو کچھ فائدہ نہیں دے سکے گی۔ عمران خان کے ساتھ ویسے ہو یہی رہا ہے کہ ایک ایک کر کے ان کے کارڈزگرتے جا رہے ہیں اور پوائنٹس بھی نہیں مل رہے۔ دیکھیں تحریک انصاف کے حوصلہ مند حامی اسے نااہلی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں یا وہ اپنے لیڈر کو رعایت دیتے ہوئے سازشی عناصر کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں؟