اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم میں مایوسی کی شدید لہر دوڑگئی ہے۔ نوجوان نسل خاص طور سے دکھی اور مایوس ہوئی، جنہیں کرکٹ کھیلنا اوراچھی کرکٹ دیکھنا پسندہے۔ کچھ لوگوں کو اس پر افسوس ہوا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ایک نئے فیز میں داخل ہونے والی تھی۔ گوری ٹیمیں (نیوزی لینڈ، انگلینڈ، آسٹریلیا)وغیرہ یہاں کھیلنے آتیں تو پچھلے چودہ پندرہ برس کی کلفت دور ہوجانے کا امکان تھا۔ نیوزی لینڈ اور پھر انگلینڈ کی ٹیم کے نہ آنے سے یہ سب سپنے چکنا چور ہوگئے۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایسا ہونے سے دنیا ختم ہوگئی ہے؟ ہمارے لئے کیا اب کچھ نہیں بچا؟ ایسا ہرگز نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستانی کرکٹ کو دھچکا پہنچا، درست کہ پاکستان کے نارمل ملک ہونے کا تاثر عالمی سطح پر نہیں گیا۔ کرکٹ بورڈ کو کروڑوں کا نقصان پہنچا، بتایا جا رہا ہے کہ یہ نقصان چالیس کروڑ تک ہے۔ اس کے باوجود یہ ایسا صدمہ نہیں جس سے ہم جانبر نہ ہوسکیں۔ ایسی مشکل نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکے۔
چند باتیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے لئے مشکل وقت ہے۔ ایسا کسی قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک باقاعدہ پلاننگ اور منظم سوچ کے تحت ہو رہا ہے۔ پاکستان کو بطور ریاست نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کسی ایک فرد، شخصیت، کرکٹ بورڈ یا کرکٹ ٹیم کا مسئلہ نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسلام آباد میں کون حکمران ہے، پنڈی میں اہم سیٹ پر کون بیٹھا ہے اور آب پارہ میں کون سی شخصیت کام کرر ہی ہے۔ افراد سے قطع نظر یہ ریاستوں اور اقوام کی گیم ہے بلکہ زیادہ صاف الفاظ میں سپرپاورز کی باہمی لڑائیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس لئے ہمیں بطور قوم بی ہیو کرنا چاہیے۔ اس نازک وقت میں اختلاف برائے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا۔
ہمارے تین بڑے" جرم" ہیں۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو سپر پاورز کا طفیلی بننے کے بجائے اپنی آزاد پالیسی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے حالات کے جبر کے تحت اتحادی بننا بھی پڑے تب بھی یہ اپنے ریاستی مفادات کو سامنے رکھ کر اپنے قومی ایجنڈے کو ساتھ چلاتا ہے۔ ایسا دنیا کی ہر سمجھدار، آزاد قوم کرتی ہے، مگر آزادی کی ایک قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم وہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا دوسرا "جرم "ہے کہ یہ ایک مسلمان ملک ہے، مسلم دنیا میں قابل ذکر ملک اور اتفاق کہیں یا خوش قسمتی /بدقسمتی سے واحد مسلم نیوکلیئر قوت۔ جب تک پاکستان کے پاس یہ نیوکلیئر قوت ہے، اس میں مزاحمت اور کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کر نے کی سکت ہے، تب تک ہمارے خلاف مختلف انداز اور زاویوں سے سازشیں ہوتی رہیں گی۔ یہ ہمارا مقدر اور مقسوم ہے۔ اسے مان کر، جان کر، سمجھ کر ہی چلنا ہوگا۔ انفرادی طور پر ہر مومن کو زندگی کے سفر میں چوکنا، مستعد اور ہوشیار رہنا پڑتا ہے، انگریزی محاورے کے مطابق Always on the toesوالا حال ہے۔ یہی دور حاضر میں مسلم ریاستوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ترکی سرکاری طور پر سیکولر ملک ہے، اس کا کلچر بھی بڑی حد تک مغربی ہے۔ اس کے باوجودمسلم ملک ہونے کے ناتے اسے کبھی یورپی یونین کا رکن نہیں بننے دیا گیا، وہ امریکہ اور مغربی قوتوں کا ہدف بھی ہے۔ کم وبیش یہی ملائشیا کے ساتھ ہے، ہوگا، اس کے علاوہ بھی جو مسلمان ملک نمایاں ہوگا، وہ ازخود نشانے پر آ جائے گا۔ عراق کواسی لئے تباہ کیا گیا، لبیا کی بربادی کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے۔ مڈل ایسٹ میں نجانے اور کیا کیا جال بچھائے گئے ہیں، آنے والے برسوں میں مزید بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔
پاکستان کا تیسرا "جرم"اس کا جغرافیہ ہے۔ یہ بھارت جیسے بڑے، طاقتور، بے لگام اورکم ظرف علاقائی قوت کا ہمسایہ ہے۔ جب تک پاکستان بھارت کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوجاتا، ہمارے خلاف اس کی سازشیں جاری رہیں گی۔ ویسے تو جھکنے پر بھی اکتفا نہیں کی جائے گی، ٹانگیں توڑ کر لولا لنگڑا بنائے بغیر بھارتی ریاست اور اس کی اشرافیہ مطمئن نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے پڑوسیوں میں افغانستان، ایران اور چین بھی ہیں۔ پچھلے تین عشروں کے دوران دنیا میں جاری بہت سے عالمی کھیل اور منصوبے انہی ممالک کے گرد گھومتے ہیں۔ ہمیں چاہتے، نہ چاہتے ہوئے مختلف نوعیت کی گریٹ اور کبھی سمال گیم کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ صرف نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ اس کے فوائد بھی ہیں اور ہم سمیٹتے رہے ہیں۔ سمجھنا صرف یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے غیر جانبدار اور لاتعلق ہونے کی جتنی کوشش کریں، ہو نہیں سکتے۔ مختلف کرداروں میں سے کوئی ایک ہم نے چننا اور پھر اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا ہے۔ یہ ہمارا مقدر ہے۔
اس لئے ہمیں اپنے اعصاب مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔ مشکل میں اگر اوسان خطا ہوجائیں، اعصاب جواب دے جائیں تو مصیبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں حوصلے، قوت اور مضبوطی کے ساتھ ان تمام چیزوں کا مقابلہ کرنا، ان میں سے اپنے لئے مثبت تلاش کرنا اور منفی پر قابو پانا ہے۔
دو مغربی کرکٹ ٹیموں کا نہ آنا صرف ایک اشارہ ہے، موسلا دھاربارش سے پہلے کی چند بوندیں۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوگا۔ آئی ایم ایف کا رویہ سخت ہوجائے گا۔ FATFکا شکنجہ مزید تنگ ہوسکتا ہے، نوبت کسی نوعیت کی اقتصادی پابندی تک جا سکتی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ کا بڑا حصہ امریکہ جاتا ہے، اگر وہ معمولی سی ڈیوٹی بڑھا دے تو بہت کچھ تلپٹ ہوجائے گا۔ ہر چیز کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ کمانڈوز کا مشہور اصول ہے "بہترین کی امید اور بدترین کے لئے تیار Hope for the best Prepare for the worst"جہاں تک کرکٹ کا تعلق ہے، ہم نے اس سے کہیں زیادہ مصیبت برداشت کی ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ طویل عرصہ کوئی انٹرنیشنل ٹیم آنے کوتیار نہیں تھی۔ اب تو ہم پی ایس ایل ملک میں کرا رہے ہیں، سری لنکا، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز وغیرہ بھی آنے کو تیار رہتی ہیں۔ اگر ہم لا اینڈ آرڈر پر مکمل قابو رکھتے ہیں، کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوتا تو مغربی ٹیموں کے لئے غیر معینہ مدت تک نہ آنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
مجھے خوشی ہے کہ اس وقت کرکٹ بورڈ کا چیئرمین رمیز راجہ ہیں، انہوں نے بہت مثبت اور مدبرانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ خود ترسی اور احساس کمتری کی کیفیت میں ڈوبے رہنے کے بجائے رمیز نے ٹیم کو جوش اور عزم دلایا ہے۔ ان کی بات درست ہے کہ ہمیں اپنی ٹیم کو مضبوط اور بہتر بنانا چاہیے، اگر ہم عالمی مقابلوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھائیں، عالمی نمبر ون بن جائیں تو دوسرے ممالک ہم سے کھیلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہمیں ہرائے بغیر وہ نمبر ون نہیں بن سکیں گے، اس لئے ان کا یہاں آنا ان کی اپنی ضرورت بن جائے گا۔
اگر کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان نہ آئے تب بھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ڈومیسٹک سٹرکچر کو اتنا مضبوط، توانا بنانا چاہیے کہ اعلیٰ پائے کی مسابقتی کرکٹ یہاں کھیلی جا سکے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے دور میں طویل عرصہ ان پر پابندی رہی، پندرہ بیس سال کسی ٹیم نے وہاں کا دورہ نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کا ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر اتنا عمدہ تھا کہ جب ان پر پابندی ختم ہوئی تو پہلے ہی ٹورنامنٹ (ورلڈ کپ 1992)میں وہ سیمی فائنل تک پہنچ گئے تھے، بارش کی وجہ سے ایک احمقانہ قانون کی نذر نہ ہوجاتے تو جنوبی افریقہ فائنل ہمارے ساتھ کھیلتی۔ پاکستان بھی اس سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ اپنی ڈومیسٹک کرکٹ کو اچھا اور ٹف بنائیں۔ اعلیٰ کوالٹی کے بلے باز، بائولر اور فیلڈر یہاں تیار ہوں، جوعالمی ٹورنامنٹس میں تہلکہ مچا دیں۔ ایسے کھلاڑی جو عالمی لیگز میں اپنے آپ کو منوائیں اور بطور پاکستانی نمایاں ہوجائیں۔ اگر ہم ان اہداف کو پورا کر پائے تو کسی ٹیم کے آنے، نہ آنے سے ہمیں فرق نہیں پڑے گا۔
مصائب اور پریشانیاں کسی قوم کی قوت مدافعت بڑھاتی اوران کے پوٹینشل میں اضافہ کرتی ہیں۔ سب سے اہم اپنے اعصاب پر قابو پانا اور جذباتی ردعمل کے بجائے سوچے سمجھے، منظم منصوبے کے تحت کام کرنا ہے۔ ان شااللہ ہم ماضی میں کئی طوفانوں اور منجدھارسے نکلے ہیں، اس بار بھی سرخرو ٹھیریں گے۔