بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی فسطائی سیاست نے نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے میں شدید قسم کا تنائو پیدا کر دیا ہے۔ پاکستان سے تو خیر بھارت کی پرانی چپقلش ہے، سری لنکا، بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی مودی ازم سے نالاں ہوچکے ہیں۔ حسینہ واجد جیسی پروانڈیا بنگلہ دیشی سیاستدان بھی بھارتی پالیسیوں سے سخت شاکی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہہ دی اور بی جے پی کی پالیسیوں کو نازی ازم سے ملایا، اس وقت تو شائد یہ خاصا سخت قسم کا کٹیلا طنز محسوس ہوا ہو، مگر آج عالمی میڈیا میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور کئی ممتاز مغربی اخبارنویس اسی انداز کی بات کچھ کھلے، کچھ ڈھکے انداز میں کہہ رہے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر مودی ازم سے ہم پاکستانیوں کو کئی باتیں سیکھنے، اپنے بعض مغالطے، مفروضے درست کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ چند نکات تو خاص طور سے دلچسپی کے حامل ہیں۔
انڈیا سینٹرک ہونا درست تھا، پاکستان میں ایک حلقہ ہمیشہ سے ریاستی پالیسیوں پر یہ تنقید کرتا آیا تھا کہ ہماری خارجہ اور سکیورٹی پالیسی "انڈیا سینٹرک" ہے یعنی اس کا ہدف بھارت ہی ہے، ایسا غلط ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نریندرمودی کا اس لحاظ سے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے اب بات بالکل صاف کر دی ہے۔ پاکستانیوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اس خطے میں ان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے اور اس کی طرف سے ہوشیار رہنا کتنا ضروری تھا۔ بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت بی جے پی نے مسلسل پاکستان کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے اور مختلف حیلوں، بہانوں سے سرحدوں پر دبائو بڑھا رکھا ہے۔ بھارت کبھی افغانستان پر دبائو ڈال کر پاکستان کے خلاف بیانات دلواتا ہے، کبھی عالمی اداروں میں پاکستان کے خلاف مہم چلاتا ہے جبکہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پراکسی وار بھی جاری ہے۔ یہ سب ایسے حال میں ہو رہا ہے جب پاکستانی ریاست اپنی سابق پالیسی سے فاصلہ کر چکی ہے اور اب بھارت میں کسی بھی قسم کی پراکسی وار جاری نہیں۔ چند برس قبل جنرل کیانی جب آرمی چیف تھے، ان دنوں بھارت کی کولڈسٹارٹ ڈاکٹرائن سامنے آئی۔ پاکستانی عسکری قیادت نے امریکہ سے یہ شیئر کی تو جوابی طور پر انہیں کہا گیا کہ بھارتی قیادت ایسا کچھ نہیں کر رہی اور ان کی جانب سے پاکستانی سرحد پر کسی بھی قسم کا دبائو نہیں ڈالا جائے گا۔ جنرل کیانی نے تب جواب دیا تھا کہ مسئلہ نیت کا نہیں بلکہ اہلیت کا ہے۔ بھارت کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن پاکستان کے لئے خطرہ ہے کیونکہ بھارت ایسا کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور پاکستان کو ہر حال میں اس کی کائونٹر اسٹریٹیجی بنانا ہوگی کہ آج بھارتی قیادت کی ایسا کرنے کی نیت نہیں، مگر کچھ عرصے بعد ان کی سوچ تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت من موہن سنگھ وزیراعظم تھے۔ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ میں منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔ اس لئے مودی ازم نے ہم پاکستانیوں کو یہ سبق تو بہرحال دیا ہے کہ انڈیا سینٹرک رہتے ہوئے اپنے بچائو کی مکمل تیاری کر رکھو۔ یہ بھی کہ بھارت سے کسی بھی قسم کا حسن ظن رکھنا پرلے درجے کی بے وقوفی اور نادانی ہوگی۔
شدت پسندی بھارت کا اصل روپ ہے، پاکستان میں رائٹ ونگ نظریات رکھنے والے ہمیشہ سے یہ کہتے تھے کہ بھارت میں شدت پسند ہندو ذہنیت رکھنے والا حلقہ طاقتور ہے اور اس کے اثر سے یہ ملک کبھی نہیں نکل سکتا۔ ہمارے لبرل، سیکولر لوگ اس پر خاصے ناراض ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی مذہبی جماعتیں اور رائٹ ونگ کے لوگ جنگ کے متمنی ہیں اور خواہ مخواہ شریف، بھولے بھالے سیکولر، جمہوری بھارت پر حرف دھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں رائٹسٹ بیانیہ یہ تھا کہ کانگریس کی سیکولر پالیسیاں دراصل شدت پسند ہندو ذہن پر پردہ ڈالتی ہیں، جبکہ بھارتی سو ل، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اصل چہرہ شدت والی سوچ کا عکاس ہے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔ بی جے پی کی حکومت نے بھارتی سیکولرازم کا چولہ اتار پھینکا اور اندر سے شدت پسندی کاوہ عفریت نکل آیا ہے جس نے عالمی دنیا کو بھی حیران کر دیا۔
بھارت سے دوستی کیوں نہیں ہوسکی؟ بھارت کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے پاکستانی سیکولرلبرل کیمپ بہت زیادہ خوش گمان ہوجاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ بھارت سے اچھے تعلقات قائم رہنے چاہئیں اور ایسا صرف اس لئے نہیں ہو رہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں چاہتی۔ اس تاثر کو بڑے منظم طریقے سے پھیلایا گیا، حتیٰ کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بھی یہی سوچنے لگے کہ پاکستانی فوج بھارت سے صلح نہیں ہونے دیتی۔ میرے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے اس پر گھنٹوں بحث مباحثے ہوئے۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ ایسا کرنے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو آخر کیا فائدہ پہنچے گا؟ جنگ سے سب سے زیاد ہ متاثر فوج ہی ہوتی ہے کہ اس کا براہ راست نقصان ہوتا ہے۔ یہ بات مگرلڑکوں کوسمجھ نہیں آتی تھی۔ آج بھارتی جنگی جنون دیکھ کر ہر ایک جان گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا تھی؟ یہ بھی سمجھ آ گئی کہ یک طرفہ طور پر بھارت یا کسی بھی ملک سے دوستی نہیں ہوسکتی۔ دوستی ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے۔ اپنے سے بڑے ملک سے تعلق صرف اور صرف تب ہی استوار ہوسکتا ہے جب وہ بڑا ملک ایسا کرنا چاہے۔ ورنہ وہی ہوتا ہے جو آج کل پاک بھارت تعلقات میں دکھائی دے رہا ہے۔ ہم یہ سوال اٹھاتے تھے کہ چلیں کشمیر کا حل پیچیدہ یا مشکل ہے، مگر سیاہ چن اور سرکریک کے مسائل کرنے میں تو کوئی قباحت نہیں، وہاں بریک تھرو کیوں نہیں ہو رہا؟ یاد رہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک سے زیادہ بار سیاہ چن سے فوجوں کی واپسی کی تجویز دے چکی ہے، مگر کبھی بھارت کی جانب سے اس کی پزیرائی نہیں ہوئی۔ چلیں یہ مشکل مسائل تو ایک طرف، بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان میں آخر کیا قباحت تھی؟ ایسا بھی نہیں ہونے دیا گیاکہ کہیں نارمل تعلقات کا تاثر دنیا کو نہ چلا جائے۔ آج یہ سب باتیں عام پاکستانی کو بھی سمجھ آ رہی ہیں۔
بھارت کی فالٹ لائنز، ہمارے ہاں پرو انڈین سوچ رکھنے والے یا خود کو اعلانیہ لبرل، سیکولر کہلانے والے حلقے بھارتی کی ترقی سے بڑے متاثر تھے۔ بات بات میں بھارتی کی اس طلسماتی ترقی کی مثالیں دی جاتیں اور پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ مذہب قرار دی جاتی۔ آج بھارت کی جادوئی ترقی کی قلعی بھی کھل چکی ہے۔ ان کی فالٹ لائنز بھی نمایاں ہوگئی ہیں۔ ان کے داخلی تضادات زیادہ شدید اور گہرے ہوچکے۔ ہم جیسے لوگ پہلے ہی کہتے تھے کہ بھارت میں بہت سی فالٹ لائنز ہیں، جنہوں انہوں نے سیکولرازم، جمہوریت اور بالی وڈ کی فلموں کی چکاچوند سے چھپا رکھا ہے۔ آج بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک ہوچکا۔ جمہوریت پر کئی سوال اٹھے ہیں جبکہ بالی وڈ پر را اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے گہرے اثرات اندھوں کو بھی نظر آ رہے ہیں۔ یہ فالٹ لائنز گزرتے وقت کے ساتھ مزید گہری ہوتی جائیں گی۔ بھارتی پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والے پہلے ہی کہتے تھے کہ بھارت کی شکست وریخت نارتھ انڈیا سے نہیں بلکہ سائوتھ سے ہوگی۔ مودی ازم کے تحت وہ سنگین غلطیاں ہو رہی ہیں جن سے سائوتھ کی مختلف پرتوں میں شدید مایوسی اور احتجاجی لہریں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسا چلتا رہاتو بڑے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔
بھارت کا ہدف کشمیری نہیں بلکہ مسلمان ہیں یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی، مگر بھارت کے اندر اور باہر اسے پوری طرح قبول نہیں کیا جاتا رہا۔ خود بھارتی مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں یہ سمجھتی تھیں کہ بی جے پی اور شدت پسند ہندو کشمیریوں کو اس لئے ہدف بنا رہے ہیں کہ انہیں خطرہ ہے کہیں دوبارہ ملک کا بٹوارہ نہ ہوجائے۔ بھارتی مسلمانوں میں جماعت اسلامی ہند کے سوا کسی بھی نمایاں گروپ نے کبھی کشمیریوں کی کھل کر حمایت نہیں کی تھی۔ دیوبند کا موقف ہمیشہ سے پرو انڈیا رہا، اسی طرح حیدرآباد کے بڑبولے مسلمان سیاستدان بھی کشمیرپر خاموش رہتے جبکہ بابری مسجد اور دیگر ایشوز پر وہ کھل کر بولتے۔ اب جبکہ بی جے پی نے اپنی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا ایشو جبر سے نمٹا لیا ہے، وہ بھارتی مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ شہریت کے قانون میں مذہبی تفریق ابتدا ہے۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ جوں جوں وقت گزرے گا، بی جے پی حکومت مختلف حربوں سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنائے گی۔ ابھی تک بھارت کے دیوبندی علما، اوربڑی تنظیموں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ بھارتی مسلمان یوتھ البتہ اس کو بھانپ گئی ہے، اس لئے وہ زیادہ پرجوش انداز میں احتجاج پر نکلے ہیں۔ ادھر بھارتی مسلمانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے لئے تو کھل کر آواز بلند کر سکتا ہے، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر وہ زیادہ اس لئے نہیں بول سکتے کہ اسے فوری طور پر بھارت کا اندرونی مسئلہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔
اللہ بھارتی مسلمانوں اور مظلوم کشمیریوں کی زندگی آسان بنائے، آمین۔ ان پر آئی آزمائش کڑی ہے، اللہ اسے دور کرے۔ بھارت میں گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ ہوا، اس نے پاکستان میں بھارت سے ہمدردی رکھنے والے حلقوں کو ایسا خاموش کرایا ہے کہ وہ منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ موم بتی مافیا، واہگہ بارڈر پرشمعیں جلانے والے سادہ لوح خواتین وحضرات شرمندگی سے سر جھکائے اپنے گزشتہ کمزور موقف کی تاویلیں ڈھونڈ رہے ہیں، مگر کچھ سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔