Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Muskurahat Ke Sath Istaqbal

Muskurahat Ke Sath Istaqbal

ایک دوست کے والد کا پچھلے دنوں انتقال ہوا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ٹھیک ٹھاک تھے، باہر سے گھر آئے، گپ شپ کرتے رہے اور پھر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد بیٹے کو بلایا کہ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے، ہسپتال لے چلو۔ وہ گاڑی میں لے کر گئے اور وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اولاد حیران پریشان والد کو دیکھ رہی جو ہلکی مسکراہٹ چہرے پر سجائے دنیا سے جا چکے ہیں۔

اچانک ہی، بغیر کسی بیماری کے یوں چلتے پھرتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے کی ہمارے ہاں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ والد مرحوم (اللہ ان کی مغفرت فرمائے)ہمیشہ یہی دعا کرتے تھے کہ یا رب مجھے کسی کا بھی محتاج نہ کر اور چلتے پھرتے دنیا سے جائوں۔ ویسا ہی ہوا۔ ہمارے احمد پورشرقیہ کے وکلاہفتے میں ایک دن پون گھنٹے کی مسافت پر واقع بہاولپور شہر کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں جایا کرتے تھے۔ وہ اپنے کیسزا سی دن لگواتے۔ والد صاحب بھی پیر کو بہاولپور گئے، وہاں ساتھی وکلا سے ملے جلے، ہنستے مسکراتے، گپ شپ لگاتے رہے۔ شام کو واپس احمد پور آگئے، نصف شب کے بعد کہیں دل کی تکلیف ہوئی، برداشت کرتے رہے، صبح انہیں بہاولپور کے مشہور وکٹوریہ ہسپتال لے جایا گیا۔ سٹریچر کو منع کر دیا اور خود چل کر ایمرجنسی روم گئے، بستر پر لیٹے اور چند لمحوں میں روح پروا ز کر گئی۔ خبر پھیلی تو کسی کو یقین نہ آئے کہ ایک دن پہلے تو بالکل ٹھیک ٹھاک، سرخ وسپید چہرہ لئے ہنستے مسکراتے مل رہے تھے۔

ہمارے ایک دوست راو عبدالمنان کا بھی ایسا ہی قصہ ہے۔ بھلے آدمی تھے، کتابیں پڑھنے کے شوقین، میرے کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتے اور اپنا فیڈ بیک دیتے۔ میرے کسی کالم سے انہیں قبلہ سرفراز شاہ صاحب کا تعارف ہوا۔ شاہ صاحب تب ستلج بلاک، اقبال ٹائون میں ہر اتوار دعا کے لئے بیٹھا کرتے، اس سے پہلے وہ روحانیت پر لیکچر بھی دیا کرتے۔ رائو منان ہر اتواراہتمام سے جاتے۔ ٹھیک ٹھاک تھے، البتہ سموکنگ کے عادی تھے، چین سموکر۔ یار دوست منع کرتے تو ہنس کر ٹال جاتے۔ احمد پورشرقیہ گئے ہوئے تھے، و ہاں اچانک چھاتی میں درد سا اٹھا، بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل میں بیٹھ کر ایک ڈاکٹر کے کلینک میں گئے۔ ڈاکٹر سے سلام دعا کی اور بیڈ پر لیٹے۔ ڈاکٹر نے روٹین میں انجیکشن لگانے کے لئے مڑا، چند لمحوں بعد واپس پلٹا تو مریض دنیا سے جا چکا تھا۔

میرے سسر افضل مسعود ایڈووکیٹ معروف سرائیکی قوم پرست دانشور، مصنف اور ایکٹوسٹ تھے۔ دیگر قوم پرستوں کے برعکس وہ معتدل اور وضع دار آدمی تھے، کبھی کسی پر ذاتی تنقید کرتے نہ مخالفوں کے لئے سخت الفاظ استعمال کرتے۔ پیپلزپارٹی سے سیاسی وابستگی رہی اور بھٹو صاحب کے بڑے مداح تھے، مگر میرے جیسوں کی اینٹی بھٹو تنقید بھی برداشت کر لیتے۔ ان کا مزاج یہی تھا کہ دوسرے کی پوری بات سنتے اور نہایت سلیقے سے اپنا اختلاف رائے ظاہر کرتے۔ کتاب ان کی کمزوری تھی، بے شمار کتابیں اکھٹی کر رکھی تھیں۔ خوش ونت سنگھ کے ناول ٹرین ٹو پاکستان کا سرائیکی میں ترجمہ بھی کیا۔ وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے، سادہ خوراک اور روزانہ پیدل سیر کرنا۔ آخری مہینوں میں شوگر کے مریض بنے اور پھر وہ بھی جھٹ پٹ دو تین دن کی بیماری میں چلے گئے۔ میری بیوی شدید افسردگی میں ایک دن ان کی باتیں سنا رہی تھی کہ ابو ہمیشہ یہی دعا کرتے کہ چلتے پھرتے جائوں اور لمبی بیماری نہ دیکھنا پڑے۔ میں نے کہا، بس ان کی یہی دعا قبول ہوئی اور وہ زیادہ تنگ ہوئے بغیر ہی آرام سے چلے گئے۔ ہم لوگ تو اپنے پیاروں کے دکھ میں اس بات کو نہیں سمجھ پاتے، مگر جانے والوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہ آسان موت سے ہمکنار ہونا چاہتے تھے۔ فرشتہ اجل کا مسکراتے ہوئے استقبال کرنے کے خواہاں۔

خوش ونت سنگھ کے ناول کا ذکر آیا، وہ میرے پسندیدہ مصنف تھے۔ اپنے عقائد اور نظریات کے حوالے سے خوشونت سنگھ نرالے قسم کے آدمی تھے۔ وہ سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر مذہبی طور پر سکھ نہیں رہے، وہ کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے تھے، مگر انہوں نے سکھوں والی صورت نہیں بدلی، پگڑی اور ڈاڑھی آخر وقت تک ان کا جز رہی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ دفن ہونا چاہتے ہیں، اس لئے وصیت کی ہے کہ انہیں جلانے کے بجائے بہائیوں کے قبرستان میں دفنایا جائے۔ خوشونت انقلابی مزاج کے نہیں تھے، اندرا گاندھی کے حامی تھے، ایمرجنسی میں وہ حکومت کے ساتھ کھڑے رہے، ان کے مخالف انہیں پرواسٹیبلشمنٹ لبرل کہتے تھے۔ تاہم بعض معاملات میں وہ دلیری سے ڈٹ گئے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں تھے تو خوشونت نے ان کی رہائی کی بھرپور مہم چلائی، اندرا ان پر ناراض ہوئی، بلا کر ڈانٹا کہ تم سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ تیز دھار خوشونت نے برجستہ جواب دیا، سیاست نہ سہی، مگر اخلاقیات کے بارے میں میں جانتا ہوں، میں اخلاقی بنیادوں پر پاکستانی فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہوں گا۔ یہ وہ دن تھے جب بھارت میں پاکستان کا نام لینا جرم سے کم نہیں تھا۔ اسی طرح ایک بار ایک جریدے میں طویل مضمون لکھا، جس میں بتایا کہ مغرب کا اسلام اور حضور اکرم ﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ غلط ہے، انہوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ انہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ پر لگائے جانے والے کئی الزامات کا دلائل کے ساتھ جواب دیا۔ شدت پسند ہندو اس پر ناراض ہوئے، مگر خوشونت نے ان کی پروا تک نہ کی۔ کانگریس نے ایوان بالا (راجیہ سبھا)کارکن بنایا، مگر جب گولڈن ٹیمپل پر آپریشن ہوا تو اپنا صدارتی تمغہ احتجاجاً واپس کر دیا۔

اپنی طویل عمر کا سبب وہ ڈسپلن سے گزاری زندگی کو قرار دیتے تھے۔ بتاتے کہ میں روز آٹھ بجے رات سو جاتا ہوں، پنڈت نہرو بھی اگر مہمان تھے، تب بھی ان سے رخصت لے لی، صبح چار بجے اٹھ کر لکھنا شروع کر تا ہوں۔ خوشونت سنگھ نے پچھلے سال آنے والی اپنی آخری کتاب " لیسنز آف مائی لائف" میں اپنی زندگی کے تجربات کو نچوڑ چند نکات میں بیان کیا۔ انہوں نے لکھا کہ صحت مندطویل زندگی کے لئے روزانہ ورزش ضروری ہے، کوئی کھیل کھیلا جائے یا ایک گھنٹہ واک کی جائے۔ کھیل نہ سکتے تو روزانہ ایک گھنٹہ مساج کرائیں، اس کے بھی وہی نتائج نکلیں گے۔ کھانے پینے کے معمولات(باقی صفحہ5نمبر 1) طے کئے جائیں، کم مگر اچھی خوراک کھائی جائے۔ کھانا ہمیشہ خاموشی کے ساتھ لطف اٹھا کر کھایا جائے، بہتر یہی ہے تنہائی میں کھائیں تاکہ فوکس رہے اور لذت اٹھائی جا سکے۔ ایک وقت میں صرف ایک قسم کا گوشت یا سبزی کھائیں اور کوئی دیسی چورن بھی استعمال کریں تاکہ معدہ ٹھیک رہ سکے، خاص کربڑھاپے میں خود کو قبض سے بچائیں۔ دولت کی ہوس نہ کریں، مگر بڑھاپے کے لئے پس انداز ضرور کریں، اس عمر میں بینک بیلنس اطمینان اور آسودگی دیتا ہے۔ غصے اور جھوٹ سے بچیں، قہقہے لگانے کے بہانے ڈھونڈیں۔ سخاوت کریں، ہاتھ کھلا ہوگا تو عمر بھی زیادہ ہوگی اورزندگی میں آسانیاں بھی آئیں گی، یاد رکھیں کہ سب کچھ چھوڑ کر ہی جانا پڑے گا۔ سب سے اہم یہ کہ کوئی مشغلہ ضرور اپنائیں، باغبانی، شوقیہ پڑھانا، موسیقی سننااور فلمیں دیکھنا۔ ہاتھ اور دماغ مصروف رہنا چاہیے۔

اپنی موت سے چار سال پہلے معروف بھارتی میگزین آئوٹ لک میں خوشنونت سنگھ کا مضمون شائع ہوا۔ یہ تحریران کے مخصوص اسلوب کا دلکش نمونہ ہے۔ لکھتے ہیں:

"میری عمر پچانوے سال ہوگئی، میں اب اکثر موت کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں، جو جا چکے ہیں، حیران ہوتا ہوں کہ وہ کہاں چلے گئے، اب کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا؟ مجھے ان سوالات کے جوابات نہیں آتے۔ عمر خیام کی ایک رباعی یادآتی ہے

اس کائنات میں اور کچھ بھی نہ جانتے ہوئے

نہ ہی اس بات کا کوئی علم کہ تالاب میں کنول کا پھول کیسے کھلتا ہے

اور ایک دروازہ تھا مقفل، مجھے اس کی چابی نہیں ملی

ایک نقاب، جس کے پیچھے میں جھانک نہ سکا

وہی چھوٹی سی بات جو تم میں اور مجھ میں ہوئی

لیکن وہ کیا بات تھی کہ

تم تم رہے نہ ہم ہم

میں نے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سے پوچھا تھا کہ کسی کو موت کا سامنا کس انداز سے کرنا چاہیے۔ دلائی لامہ نے جواب دیا: مراقبے اور استغراق کے ذریعے"۔

"موت کا مجھے خوف نہیں، صرف یہی ڈر ہے کہ کہیں میں معذور نہ ہوجائوں۔ میں ایک ہی امید کرتاہوں کہ میری موت آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے آئے۔ نزع کے عالم میں لٹکے رہنے کے بجائے غنودگی میں موت آ جائے تو سب سے بہتر ہے۔ تب تک میری خواہش ہے کہ میں کام کرتا رہوں اور ہر دن ایک زندہ شخص کے طور پر گزاروں۔ ابھی میرے کرنے کو بہت کام پڑا ہے۔ مجھے اقبال کے اس مصرع میں بہت لطف آتا ہے

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر

آئوٹ لک کے مضمون کو خوشونت سنگھ نے اپنے پسندیدہ شاعر اقبال کے ایک فارسی شعر پر ختم کیا

نشان مرد مومن باتوگوئم

چوں مرگ آید، تبسم بر لب اوست

(مرد مومن کی یہ نشانی ہے کہ جب موت آئے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہو۔)