وفاقی حکومت نے نیا یکساں قومی نصاب بنایا ہے، وہ ابھی تمام صوبوں میں نافذ نہیں ہوسکا۔ اس نصاب میں کئی عمدہ کام ہوئے ہیں، جنہیں نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ اس نصاب کے حوالے سے مذہبی یعنی رائٹس حلقوں میں بھی بعض تحفظات موجود ہیں، ان پران شااللہ بات کریں گے۔ سردست تو یکسر مختلف نقطہ نظر کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے سیکولر، لبرل حلقوں کا نئے یکساں قومی نصاب پر اعتراض یہ ہے کہ مذہب کو کچھ زیادہ شامل کر لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی مواد اسلامیات کی حد تک محدود ہونا چاہیے تھا، مگر نئے نصاب کی اردو، انگریزی اور معاشری علوم کی کتابوں میں بھی مذہبی مواد شامل کیا گیا ہے، جو کہ زیادتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
چند دن پہلے ہمارے ایک بہت پیارے دوست اور عمدہ کالم نگار کا بھی اس حوالے سے کالم شائع ہوا۔ یہ دوست ماڈریٹ اور روشن خیال آدمی ہیں، مگر چونکہ اپنی شناخت لبرل، سیکولر کے طور پر نہیں کراتے، اس لئے انہیں سیکولر کالم نگار نہیں کہوں گا۔ ویسے بھی نجانے انہیں لبرل کیمپ قبول بھی کرتا ہے یا نہیں کہ آزادانہ سوچ رکھنے والوں کی وہاں گنجائش نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اردو اور انگریزی کی کتابوں میں اسلامیات نہیں پڑھانی چاہیے۔ اقلیتی اساتذہ کی تنظیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ان کے مطابق پانچویں کی انگریزی کی کتاب میں تیئس فی صد جبکہ چوتھی کی انگریزی کتاب میں اکیس فی صد مذہبی مواد شامل ہے، یہی حال اردو اور معاشرتی علوم کا ہے۔
آگے جا کر انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ اگرچہ ہمارے ملک میں ستانوے فیصد مسلمان ہیں، مگر تین فی صد اقلیتیں بھی ہیں، انہیں اسلام سے متعلق مواد پڑھنے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے؟ ان کا اعتراض یہ بھی تھا کہ ہماری درسی کتب میں عیسائیت، بدھ مت، ہندو مت یا یہودیت وغیرہ سے متعلق مواد کیوں شامل نہیں؟ کیا ان مذاہب کے ماننے والے اربوں لوگ دنیا میں نہیں بستے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اسی کالم میں ایک اور اہم بات کی گئی کہ علامہ اقبال نے ایک زمانے میں اردو کا ساتویں، آٹھویں جماعت کا نصاب بنایا تھا، اس نصاب کی ایک جھلک بھی پیش کی گئی، جس میں ہندو اوتار یا ہیرو رام چندر جی کے بن باس کے حوالے سے مواد بھی شامل تھا۔ سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا آج علامہ اقبال کی طرح کا "سیکولر"نصاب پیش کرنا ممکن ہوگا؟
سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس پر ازحد خوشی ہوئی کہ شفقت محمود جیسے سیکولر شناخت کے وزیر اور ہمارے ہاں تعلیم میں فنڈنگ کرنے والی طاقتور سیکولر ایجنڈے کی حامل تنظیموں کے ہوتے ہوئے بھی نئے یکساں قومی نصاب میں مذہبی مواد کوشامل کیا گیا اور اس حد تک کہ جس پر سیکولر حلقے شاکی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ خوش آئند بات ہے اور نیا نصاب بنانے میں شریک تمام افراد اس کارخیر پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ یہ میں جوابی کارروائی کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ اس لئے لکھا کہ آئین پاکستان کے تحت ریاست اس کی ذمہ دار ہے کہ اسے مسلم ریاست بنائے، شہریوں کی اچھی مذہبی، اخلاقی تعلیم وتربیت دے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ملک کی ہر حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ان کا فرض ہے کہ اپنے طلبہ کو نہ صرف بھرپور طریقے سے اسلامیات کی کتاب پڑھائیں، قرآن فہمی سکھائیں، احادیث کا علم دیں، اہم مسنون دعائیں یاد کرائیں اور روزمرہ زندگی میں کس طرح سیرت مبارکہ ﷺ کے منور گوشوں کی جھلک شامل کرنا ہے، یہ سب کچھ سکھائیں۔
ہم اپنے بچوں کو سکول صرف تعلیم کے لئے نہیں بھیجتے بلکہ مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اچھی اخلاقی تربیت حاصل کریں۔ انسانی جبلت میں لالچ، حرص، نفرت، غصہ، کینہ، غیب، حسد وغیرہ جیسی اخلاقی کمزوریاں ہیں، ان پر قابو پا کر اچھی، مثبت عادتیں ڈالیں۔ میرا نہیں خیال کہ مملکت خداداد پاکستان کا کوئی بھی قابل ذکر حلقہ اس بات کی مخالفت کرے گا۔ گزشتہ روز گیلپ کا سروے آیا جس کے مطابق آبادی کے پچانوے، چھیانوے فیصد حصہ نے قرآنی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔ سروے میں صرف ایک فی صد نے مخالفت کی۔ اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ ننانوے فیصد کو اس پر اعتراض نہیں۔
اپنے پچھلے کالم میں ایک ٹی وی پروگرام کا ذکر کیا جس میں پرویز ہود بھائی مذہبی تعلیم کے خلاف بڑا چیخے چلائے اور انہوں نے حجاب لینے والی بچیوں کے خلاف نامناسب، فضول تبصرہ بھی کیا۔ اسی پروگرام میں یا اس اینکر کے کسی اور پروگرام میں ایک خاتون ماہر تعلیم کو یہ کہتے سنا کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے نصاب میں مذہبی مواد شامل کراتی ہیں، انہوں نے منہ بھر کر یہ بھی کہہ ڈالا کہ وفاقی وزیرعلی محمد خان کے کہنے پر اب نصاب میں ہر جگہ خاتم النبین ﷺ کے الفاظ بھی شامل کئے گئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ خاتون وزارت تعلیم کی ایڈوائز ر ہیں اور قومی نصاب اب ان کی نگرانی میں تشکیل پائے گا۔ انہوں نے جس انداز میں کمنٹ کیا وہ سخت مایوس کن اور افسوسناک لگا۔ ایسا مائنڈ سیٹ رکھنے والا فرد قومی نصاب کے پراسیس میں شریک ہے تو پھر اللہ رحم فرمائے۔ چھٹی سے آٹھویں کا نصاب تشکیل ہونا ہے، مذہبی حلقوں کو بہت مستعد اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ مجھے تو یہ بات سن کر وفاقی وزیر علی محمد خان اچھے لگنے لگے۔ یہ سعادت رب نے ان کے حصے میں لکھی تھی کہ نصاب کی کتابوں میں جہاں سرکار مدینہ ﷺ کا ذکر آیا، ہر بار اس سے پہلے خاتم النبین لازمی لکھا گیا۔ نئی نسل کے دلوں میں ختم نبوت ﷺ کا نظریہ راسخ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ حیرت ہے کہ ایسا کرنے پر بھی کوئی معترض ہوا۔
علامہ اقبال کے نصاب تشکیل دینے کی بات پہلی بات سنی، کبھی کہیں ایسا پڑھا نہیں تھا۔ اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ درست ہے یا کوئی نئی سوشل میڈیائی ڈس انفارمیشن۔ اس پر بھی حیرت ہوئی کہ کتاب کی ابتدا میں علامہ نے جوش ملیح آبادی کی ایک حمد شامل کی۔ بیان کیاگیا کہ یہ نصاب 1927، 28میں علامہ نے بنایا ہے، تب جوش صاحب کی ادبی حیثیت ایسی تھی کہ اردو کے نصاب کی ابتدا بھی ان سے کی جائے؟ خیر اگر علامہ نے یہ نصاب بنایا تب بھی یہ قابل فہم ہے کہ کروڑوں ہندو بچوں نے بھی اسے پڑھنا تھا۔ ہندوستان میں تب ہندی کا سکرپٹ اردو جیسا تھا۔ پاکستان میں یہ مطالبہ مضحکہ خیز ہے کہ تیسری چوتھی کے بچوں کو جہاں اسلام کی بنیادی چیزوں سے واقف کرانا بھی ایک چیلنج ہے، وہاں یہ کہا جائے کہ اس عمر میں انہیں ہندومت، یہودیت، عیسائیت، بدھ مت کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ آخر کیوں؟ یہ مسلمان بچے ہیں، ایک اکثریتی مسلمان ملک میں پڑھتے ہیں، ان کے والدین کی یہی خواہش ہے کہ بچے اپنے دین کے بارے میں کچھ سیکھ جائیں۔ دوسرے مذاہب سے متعلق علم ان پر کیوں ٹھونسا جائے؟
میرے خیال میں اقلیتی اساتذہ کی تنظیم کو بھی عملیت پسندانہ سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ نصابی کتب میں اسلامی معلومات سے متعلق ان کی یہ معاندانہ رائے نامناسب اور غیر حقیقی ہے۔ یہ دلیل بھی عجیب وغریب ہے کہ دو تین فیصد غیر مسلم بچوں کے لئے ستانوے فیصد مسلمان بچوں کو مذہبی مواد سے دور کیا جائے۔ ویسے یہ تین فیصد والی بات بھی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، ورنہ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں سو فی صد مسلم آبادی ہے۔ غیر مسلم آبادی کا بڑا حصہ ہندو ہے اور وہ سندھ کے بعض علاقوں میں آباد ہے۔ پنجاب میں مسیحی آبادیاں ہیں، مگر ان کی بھی پاکٹس ہیں اور وہ زیادہ تر مخصوص علاقوں میں مرتکز ہیں، ننکانہ صاحب میں سکھ پاکٹ ہیں، اسی طرح اکا دکا دوسری جگہوں پر۔ عملی طور پر ایسا نہیں کہ ہر سکول میں ستانوے بچے مسلمان اور تین غیر مسلم ہیں۔ ہزاروں سکول ایسے ہوں گے جہاں ایک بچہ بھی غیر مسلم نہیں ہوگا۔ ان کا کیا قصور ہے؟ اگر کوئی یہ مطالبہ کرے کہ غیر مسلم بچوں کے لئے اخلاقیات کی تعلیم دینے والے اساتذہ بھرتی کئے جائیں یا کسی اردو، انگریزی، معاشرتی علوم کی کتاب میں اسلامی مواد شامل ہے توغیر مسلم بچوں کے لئے ایسی کتب بھی شائع ہوں جن میں اس بیس فی صد مواد کو تبدیل کر دیا جائے۔ ایسے مطالبے کی ہم حمایت کریں گے، مگر مٹھی بھر اقلیتیوں کے لئے کروڑوں مسلمان بچوں کو بامقصد، معیاری، اخلاقی، مذہبی تعلیم کی فراہمی روک دینا غلط اور زیادتی ہوگی۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اردو، انگریزی یا معاشرتی علوم میں معمولی سا مذہبی مواد سلیقے سے پیش کیا گیا، جیسے اگر اردو کی کتاب میں صفائی کے حوالے سے بچوں کو سمجھایا جائے تو اس میں سیرت مبارکہ ﷺ کا حوالہ کیوں نہ آئے؟ ایک مسلمان بچے کو سکھانے کااور موثر طریقہ کیا ہوگا؟ ایک اہم بات یہ ہوئی کہ اس بار یہ طے کیا گیا ہے کہ اردو یا انگریزی کتاب میں رول ماڈل کے طور پر صرف آپ ﷺ کی شخصیت پر مضمون ہوگا۔ یہ مضمون ظاہر ہے اردو میں بھی ہوگا، انگریزی زبان میں بھی، اسے صرف مذہبی مواد کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا سب کچھ ہے ہی سرکار ﷺ کے لئے، وہی ہمارا سہارا اور وہی ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ اسی طرح اگر قائداعظم یا اقبال پر مواد ہے تو اس سے اقلیتی اساتذہ کیوں پریشان ہیں؟
میرے سامنے نئے نصاب کی پانچویں اور دوسری جماعت کی اردو کتب ہیں، ان کے متن پر بات کروں گا، مگران شااللہ اگلی نشست میں۔