ڈینیل پرل کی بیوہ میریان پرل نے اپنی کتاب "اے مائٹی ہارٹ" میں وجہ بتائی ہے کہ اس کا خاوند کسی بڑی سٹوری کے چکر میں اتنا مضطرب کیوں تھا اور کس لئے اس نے رسک لیا؟ میریان کے مطابق نائن الیون کے بعد پاکستان، افغانستان اور طالبان، القاعدہ عسکریت پسندی امریکی میڈیا کے لئے بہت اہم ہوگئی تھی۔ نائن الیون کے بعد پرل اسلام آباد آگیا، مگر کوئی بڑی خبر اس کے ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔ جرنل کا انٹرنیشنل ایڈیٹر جان بسی بار بار اسے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے انٹرویو کا کہہ رہا تھا، مگر چونکہ مغربی میڈیا نے یلغار کر رکھی تھی، اس لئے پرویز مشرف سے بھی انٹرویو کا وقت نہیں مل رہا تھا۔
ڈینیل پرل کے مقامی سطح پر رابطے نہیں تھے، اس لئے جس مقامی صحافی کو اس نے بطور فکسر(Fixer)ساتھ لگایا تھا، اسے روز کے ایک سو ڈالر دیتا تھا۔ اتنی رقم خرچ کرنے کے باوجود کوئی ایسی خبر ڈینیل کے پاس نہیں تھی جسے وال سٹریٹ جرنل اپنے فرنٹ پیج پر چھاپ سکتا۔ اسی لئے ڈینیل مبارک شاہ جیلانی اور برطانوی خودکش بمبار رچرڈ ریڈ کے باہمی تعلق کی خبر سن کر پرجوش ہوگیا۔ اسے لگتا تھا کہ مبارک شاہ جیلانی کا انٹرویو کرنے سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور سامنے آئے گا جو فرنٹ پیج کی اچھی خبر بن سکے۔ ڈینیل پرل کے مقامی معاون صحافی فکسرکا نام بی بی سی نے ڈینیل پرل پر اپنی سٹوری میں نہیں دیا، پرل پراجیکٹ رپورٹ میں البتہ نام بتایا گیا، مگریہاں اسے نقل کرنا نامناسب ہے۔ پرل پراجیکٹ کے ریسرچراور اسرانعمانی نے ڈینیل پرل مرڈر کیس میں فکسر کو بے گناہ قرار دیا ہے۔ میریان پرل نے اپنی کتاب میں البتہ ایک معروف پاکستانی صحافی (آج کل کے نامور ٹی وی اینکر)پر سخت تنقید کی، جس نے واشنگٹن پوسٹ کے لئے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا کہ ڈینیل پرل یہودی النسل ہے۔ میریان پرل کے مطابق جب ڈینیل کوپرو القاعدہ شدت پسند عسکریت پسندوں نے اغوا کر رکھا ہے، ایسے میں یہ بات بتاناڈینیل پرل کے قتل کا لائسنس جاری کرنے کے مترادف تھا۔ میریان پرل نے واشگٹن پوسٹ پر بھی تنقید کی جس نے فقرہ ایڈٹ نہیں کیا۔
ڈینیل پرل کی گیارہ جنوری 2002کو پنڈی کے ایک ہوٹل میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی، جو مبینہ طور پر پیر مبارک شاہ جیلانی کا قریبی ساتھی تھا۔ اس نے اپنا نام چودھری بشیراحمد شبیر بتایا۔ پرل پراجیکٹ رپورٹ، اسرانعمانی اور کراچی پولیس اور تحقیقاتی اداروں کی تفتیش کے مطابق وہ شخص عمر سعید شیخ تھا، جو فرضی نام سے ڈینیل پرل کو ملا اور مقصد اسے ٹریپ کرنا تھا۔ ڈینیل پرل بشیر احمد شبیر کی شخصیت، اس کی عمدہ انگریزی اور طرز گفتگو سے متاثر ہوا۔ بشیر نے امریکی صحافی کو بتایا کہ پیر مبارک شاہ کراچی گئے ہوئے ہیں اور چند دنوں میں واپس پنڈی آ جائیں گے۔ اس نے پھر ڈینیل پرل سے اپنے کچھ شائع شدہ مضامین بھیجنے کا کہا تاکہ وہ پیر صاحب کو ای میل کئے جا سکیں۔ ڈینیل پرل نے اپنی کچھ رپورٹیں بشیر کو ای میل کر دیں۔ بشیر احمد شبیر نے پھر ڈینیل کو فون پر بتایا کہ پیر مبارک کو رپورٹیں پسند آئی ہیں اور وہ اب ڈینیل کو انٹرویو دینے کو تیار ہیں، مگر صرف ایک مسئلہ ہے کہ وہ ابھی کچھ عرصہ کراچی رہیں گے، اس لئے اگر انٹرویو کرنا ہے تو کراچی جانا پڑے گا۔ کسی سکوپ (بڑی خبر)کے متلاشی ڈینیل پرل نے کراچی جانے کی ہامی بھرلی۔
کراچی پولیس اور تفتیشی اداروں کے مطابق بشیر احمد شبیر یا مبینہ عمر سعید شیخ نے کراچی کا مقام اس لئے متنخب کیا کہ وہاں کالعدم جہادی تنظیموں کا نیٹ ورک موجود تھا، جن میں عمر سعید شیخ کے کئی دوست شامل تھے۔ اس مشورے کے پیچھے لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے ایک ہائی پروفائل جنگجو کمانڈر امجد فاروقی کا نام لیا جاتا ہے۔ امجد فاروقی بعد میں صدر پرویز مشرف پر حملے میں بھی ملوث پایا گیا۔ اسے موسٹ وانٹیڈ ٹیررسٹ سمجھا جاتا تھا۔ 2004میں وہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ایشیا ٹائمز آن لائن کے لئے کام کرنے والے صحافی سلیم شہزاد مرحوم نے ان دنوں لکھا تھا کہ امجد فاروقی کے سینے میں بہت کچھ دفن تھا، اس لئے اس کازندہ رہنا محال تھا۔ اسی امجد فاروقی نے مبینہ طور پر لشکر جھنگوی اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو عمر سعیدشیخ سے ملوایا۔
تفتیشی اداروں نے ڈینیل پرل مرڈر کیس میں کڑیاں جوڑ کر ایک ٹائم لائن بنائی ہے، جس کے مطابق عمر شیخ ڈینیل پرل کے آنے سے پہلے کراچی آ کر پورا پلان تیار کر گیا تھا۔ اس نے مناسب انگریزی بولنے والے ایک شخص کا انتخاب کیا، جس نے ڈینیل پرل کو مبارک شاہ سے ملوانے کے بہانے مخصوص ٹھکانے پر لے جانا تھا۔ ایک محفوظ مکان بھی ڈھونڈ لیا گیا، جس کے آس پاس آبادی نہیں تھی۔ ڈینیل پرل کے لئے چار گارڈز بھی چن لئے گئے۔ عمر شیخ نے انسٹنٹ تصویر بنانے والے پولو رائیڈ کیمرہ خریدنے کے لئے پیسے دئیے، جو ڈینیل پرل کی تصاویر اتارنے کے کام آنا تھا، یہ تصاویر بعد میں مختلف عالمی نیوز ایجنسیوں کومطالبات کے نوٹ کے ساتھ ای میل کی گئیں۔ یہ ای میل جن دو نوجوانوں نے کرنا تھیں، انہیں عمر شیخ نے سختی سے ہدایت کی کہ اپنا کمپیوٹر استعمال کرنے کے بجائے کسی نیٹ کیفے سے میلز بھیجنا۔
سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا۔ تیئس جنوری کو ڈینیل پرل مبارک شاہ کے انٹرویو کے لئے اسرا نعمانی کے گھر سے روانہ ہوا، وہ واپس نہ لوٹ پایا۔ میریان پرل اور اسرانعمانی رات بھر انتظار کرتی رہیں، صبح انہوں نے ڈینیل پرل کا لیپ ٹاپ کھول کراس کی ای میلز چیک کیں۔ اسرا نعمانی کہتی ہے کہ بشیر احمد شبیر نے ای میلز "نو بدمعاشی "کی میل آئی ڈی سے کی تھیں، جسے دیکھتے ہی وہ سمجھ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ انہوں نے فکسر کو کراچی بلایا، امریکی سفارت خانے متحرک ہوا، تمام تفتیشی ادارے حرکت میں آئے، مگروہ کوشش کے باوجود ناکام رہے۔
یہ منصوبہ بڑے تجربہ کار ماہر کا بنایا لگتا ہے۔ ایسا شخص جسے اغوا کرنے کا باقاعدہ تجربہ رہا ہو اور جو کئی ناکام آپریشن کا مشاہدہ کر کے ان غلطیوں سے بچنا جانتا ہو۔ اہم بات یہ تھی کہ آپریشن کو تین چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر ٹاسک مختلف لوگوں کے سپرد کیا گیا، دانستہ انہیں ایک دوسرے سے انجان اور دور رکھا۔ مقصد یہ تھا کہ اگر ایک گروپ یا ٹکڑا ٹریس ہوجائے تو پورے پلان پر فرق نہ پڑے۔ بشیر احمد شبیر یا مبینہ عمر شیخ کا اس پلان میں کوئی عملی کردار نہیں تھا۔ وہ منصوبہ بندی کرنے اور متعلقہ لوگوں سے ملنے کے بعد واپس لاہور آ گیا۔ اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ اغوا کے بعد ڈینیل پرل کو کس مکان میں رکھا جانا ہے۔ یہ کام ایک اور گروپ کے سپرد تھا۔ ڈینیل کی تصاویر اتار کر ایک اور شخص نے غیر معروف ہوٹل میں ای میلز بھیجنے والوں کے حوالے کرنا تھیں، تاکہ ای میلز بھیجنے والوں کا ٹھکانہ اسے پتہ نہ چلے اور نہ ہی میلز بھیجنے والے مغوی پرل کے ٹھکانے کو دیکھیں۔ جس انگریزی بولنے والے نے ڈینیل پرل کوہوٹل کے باہر سے لے کر محفوظ ٹھکانے تک پہنچانا تھا، اس کا کام بس اتنا ہی تھا، اس کے بعد اس نے غائب ہوجانا تھا۔ ڈینی کے گارڈز بھی الگ لوگ تھے، ان کو ہر دوسرے معاملے سے الگ رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تفتیشی ادارے سرتوڑ کوشش کے باوجود ڈینیل پرل کونہ ڈھونڈ سکے۔ ای میلز بھیجنے والوں نے اپنے کمپیوٹر سے میل بھیجنے کی غلطی کی، امریکی ماہرین کی مدد سے وہ پکڑے گئے تو عمر شیخ تک پولیس پہنچی۔ عمر شیخ پکڑا گیا (یا اس کے عزیزوں کو اٹھا کر اسے گرفتاری دینے پر مجبور کیا گیا)تب بھی ڈینیل پرل کا پتہ نہ چل سکا۔ خاصے دن گزر جانے کے بعد اس کی نعش کا پتہ چلا۔ وہ بھی اس لئے کہ گارڈز میں سے ایک اتفاقی طور پر کسی اور واردات کے شبہ میں پکڑا گیا تو ٹارچر کے بعد اس نے اگلا کہ یہ کا م میں نے نہیں کیا، مگر میں پرل کی لاش دفن کرنے والی جگہ کا بتا سکتا ہوں۔ اسی مضبوط پلان کی وجہ سے تمام ملزم پکڑے نہیں جا سکے اور جو پکڑے گئے، انہیں سخت ترین سزا نہیں مل سکی۔
پرل پراجیکٹ ریسرچ رپورٹ کی فائنڈنگ کے مطابق کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے امجد فاروقی، آصف رمزی، عاصم غفور، ساجد جبار، مطیع الرحمان، عطاالرحمن اور آصف بھٹی ڈینیل پرل کوٹریپ کرنے میں ملوث تھے جبکہ مظہر الحسن، فضل کریم، عبدالحی، تصدق حسین، محمد مزمل، محمد رشید، اکبر ستار، سراج الحق اورمحمد سہیل ڈینیل کو یرغمال بنائے رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ قاسم قادر اور عمر شیخ نے چارہ ڈالا، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے ڈینیل کی تصاویر اور مطالبات کا نوٹ نیوز ایجنسیوں کو بھیجا۔ خالد شیخ محمد، مسعود اروچی اورعبدالعزیز علی نے ڈینیل کا سر قلم کیا اور ویڈیو بنائی جبکہ بعد میں شیخ شاہد نے وہ ویڈیو ایک مقامی نیوز ایجنسی کو بیچنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ ان ستائیس میں صرف چار ملزموں عمر سعید، عادل، سلمان ثاقب اور فہد نسیم کو سزاملی اور جیل کاٹنا پڑی۔ خالد شیخ اور اس کے دوساتھی امریکہ کی قید میں ہیں جبکہ دو چاردیگر ملزم پاکستان میں مختلف مقابلوں میں مارے گئے، کچھ کے بارے میں کوئی معلومات موجودنہیں۔
اب اہم ترین تین سوالات کہ ڈینیل پرل کیوں اغواہوا؟ قتل کرنے کی کیا وجہ تھی اور کیا عمر شیخ ہی اصل ملزم ہے؟ ان پر بات کرتے ہیں۔ (جاری ہے)