Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Paanch Barson Ki Kamai

Paanch Barson Ki Kamai

مسلم لیگ ن کی حکومت کا پانچ سالہ دور اختتام پزیر ہوا، پارلیمنٹ نے بھی اپنی مدت مکمل کی اور یہ لگاتار تیسری پارلیمنٹ بن گئی، جسے اپنا عرصہ پورا کرنے کا وقت ملا۔ مشرف دور کی پارلیمنٹ کمزور اور یتیم یسیر تھی، پیپلزپارٹی کی حکومت والی اسمبلی اور اب مسلم لیگ ن کے غلبہ والی پارلیمنٹ پر تو خیر کسی کو اعتراض نہیں، اس لحاظ سے کم از کم دس مسلسل سال جمہوری سیاسی جماعتوں کو ملے ہیں۔ خوشگوار امر ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاست دان ہمیشہ یہی شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں موقعہ نہیں ملتا اور سیاسی سفر تواتر سے چلنے کے بجائے بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔

پارلیمنٹ جب مدت مکمل کرے، حکمران جماعت اپنے کوٹے کے پانچ سال گزار لے تو ان سے سوال پوچھا جا سکتا ہے، محاسبہ کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ دیانت داری سے ان پچھلے پانچ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو بعض اچھے کام بھی ہوئے، ان کی ستائش میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے، حکومتی غلطیاں بلکہ بلنڈرز کی بھی کمی نہیں۔ معیشت خاص طور سے نشانہ بنی اور ایسی افسوسناک، تباہ حال حالت اس اہم ترین شعبے کی ہوئی کہ جتنا لکھا جائے کم ہے۔

خیر اس پر الگ سے کسی نشست میں بات کریں گے۔ آج صرف سیاسی پہلوئوں پر بات کرتے ہیں۔ آج یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ کیا ان پانچ برسوں سے جمہوریت مستحکم ہوئی، پارلیمانی روایات کس قدر مضبوط ہوئیں؟ ممکن ہے حکمران جماعت کے پاس اس کا کوئی اچھا جواب ہوکہ سیاستدانوں کی جرات اور دیدہ دلیری پر دنیا کی بہت سی زبانوں میں بے شمار لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ میرے جیسے اخبارنویسوں کا جواب نفی میں ہے، اگرچہ ایسا کرتے ہوئے دلی افسوس ہوتا ہے۔

ان پانچ برسوں میں اراکین پارلیمنٹ کا مجموعی رویہ نہایت مایوس کن اور غیر ذمہ دارانہ تھا۔ بیشتر اراکین اسمبلی کی کارروائی میں دلچسپی نہیں لیتے رہے، ایک بڑی تعداد ان کی ہے، جنہوں نے پانچ برسوں میں ایک لفظ بھی نہیں بولا، پورے پانچ برس کورم کا مسئلہ حکمران جماعت کا ایشو رہا۔ ہر اجلاس دیر سے شروع ہوا، اپوزیشن کی منت ترلے کر کے انہیں کورم کی نشاندہی سے روکا جاتا کہ کچھ دیر تو کارروائی چل سکے۔

اراکین اسمبلی میں جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے رہے، تاہم اس حوالے سے واجبات، سفری اخراجات کے بل وصول کرنے میں غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ قائمہ کمیٹیوں کا کردار جمہوری ممالک میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاں ان قائمہ کمیٹیوں میں متعدد بڑے گھپلے اور مشکوک مالی معاملات کو کس طرح مل جل کر "سیٹل "کیا گیا، اس حوالے سے صرف برادرم رئوف کلاسرہ کی رپورٹیں اور ٹی وی پروگرام ہی اکٹھے کر لئے جائیں تو جامع وائٹ پیپر بن جائے گا۔

کلاسرہ کے بعض پروگرام تو ہوش ربا تھے، یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسی ڈھٹائی اور بے حسی سے قوم کے منتخب نمائندے ایسا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک جمہوری، سیاسی روایات کے مضبوط ہونے کا تعلق ہے، اس حوالے سے جواب زیادہ مایوس کن ہے۔ ان پانچ میں سے چار برس میاں نواز شریف وزیراعظم رہے۔ وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، پچھلے پچیس تیس برسوں سے ایک بڑی قومی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ سیاسی اور جمہوری کلچر کو فروغ، حکومت اور پارٹی کو جمہوری طریقوں سے چلائیں گے۔

شاعر نے کہا تھا ہم نے کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا اور پھر دونوں ہی ادھورے چھوڑ دئیے۔ میاں نواز شریف نے بھی کچھ جمہوریت اور کچھ سیاست چلانے کی کوشش کی اور آخر تنگ آ کر دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ ان کے غیر ملکی دوروں کی مدت گن لیں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت والے دن شمار کرلیں، واضح فرق نظر آئے گا۔ اسلام آباد میں ہوتے ہوئے وہ پارلیمنٹ جانے کی زحمت نہ فرماتے۔ سینیٹ میں تو سال بھر تشریف نہ لے گئے، بے چارگی سے سینیٹرز نے قرارداد منظور کی، وزیراعظم ایوان بالا کو اتنی اہمیت تو دیں کہ کبھی کبھار اپنا چہرہ انور دکھا جایا کریں۔

قومی اسمبلی کا بھی وہی حال تھا۔ اپنی جماعت کی مرکزی، صوبائی کمیٹیوں کا اجلاس تو خیر رہنے دیں، پارلیمانی پارٹی کا اجلاس مہینوں نہ ہوپاتا۔ اگر عمران خان دھرنا نہ دیتا تو شائد پوری مدت گزر جاتی اور اراکین پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم کی شکل دیکھنے سے بھی محروم رہتے۔ ایسے متعدد اراکین پارلیمنٹ ہیں جو نجی محفلوں میں صاف بتاتے ہیں کہ ہم پانچ برسوں میں کوشش کے باوجود وزیراعظم سے مصافحہ تک نہ کر پائے۔ کابینہ کا اجلاس مہینوں ملتوی رہتا۔ حتیٰ کہ بعض احکام، فیصلے کابینہ کی باضابطہ منظوری کے بغیر جاری کر دئیے گئے۔

عدالت عظمیٰ کو توجہ دلانا پڑی کہ ان پر کابینہ کی منظوری آئینی طور پر ضروری ہیں، مہربانی کر کے اسے پورا کریں۔ کسی بھی ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کمزور ہو، سیاسی قوتیں کو نادیدہ قوتوں سے خطرہ لاحق رہتا ہو، سیاسی عمل ٹوٹنے کے خطرات منڈلا رہے ہوں، وہاں سب سے زیادہ توجہ پارلیمنٹ اور پارلیمانی روایات کو مستحکم کرنے پر دی جاتی ہے۔ سیشن اتنے بھرپور ہوں، قائمہ کمیٹیوں کی کارروئی اتنی جاندار ہو، اراکین پارلیمنٹ ایسی تیاری کر کے اسمبلی میں آئیں اور عوامی مسائل پرگفتگو ہو کہ دیکھنے والے عوام بے اختیار پکار اٹھیں کہ یہ ہے آمریت اور جمہوری دور میں فرق۔

دل پر ہاتھ رکھ کردیانت داری سے بتائیں کہ گزشتہ روز اپنی مدت مکمل کر کے تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ کے بارے میں کوئی ایسا کہہ سکتا ہے؟ کوئی نہیں۔ سیاسی عمل میں اپوزیشن کی بہت اہمیت ہے۔ پارلیمنٹ کو موثر بنانے میں اپوزیشن اراکین اسمبلی کا مرکزی کردار ہے۔ بھٹو دور کی اپوزیشن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے، درجن بھر اراکین اسمبلی تھے، مگر انہوں نے ایسی مستعدی اور ذمہ داری سے کام کیا، ہر سیشن میں بھرپور تیاری کر کے آتے، اتنی شاندار تقریریں ہوتی رہیں کہ غیر معمولی بڑی حزب اقتدار زچ ہو جاتی۔

اس بار اپوزیشن کی بڑی جماعتوں میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تھیں۔ پیپلزپارٹی نے پہلے چار برس تک کمال احتیاط اور ہوشیاری سے ایسی فرینڈلی اپوزیشن کی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ جناب خورشید شاہ لیڈر آف اپوزیشن تھے، ان کی کارکردگی دیکھ کر مگر لوگ انہیں وزیر برائے اپوزیشن افیئرز کہنے لگے۔ انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ ہر قدم پر حکمران جماعت کو سہولت ہو، نواز شریف صاحب کی حکومت کہیں پریشان نہ ہو۔ اس کے بدلے میں میاں نواز شریف نے سندھ مسلم لیگ کا بیڑا غرق کرا لیا، مگر سندھ میں سیاست کرنے تشریف نہ لے گئے کہ کہیں وہاں برسراقتدار پیپلزپارٹی بے آرام ہوجائے۔

پانامہ کیس سے پہلے پارلیمنٹ کی گیلریوں میں ٹی او آر کے نام پر کئی مہینے ضائع کئے گئے، یہ تو عمران خان نے دیوانہ وار اسلام آباد لاک ڈائون کا کارڈ کھیلا اور کیس مجبورا سپریم کورٹ کو سننا پڑا، ورنہ پیپلزپارٹی کا بس چلتا تو ابھی تک ٹی او آر ہی طے ہو رہے ہوتے۔ تحریک انصاف کا یہ کریڈٹ تو یقینا ہے کہ انہوں نے کھل کر اپوزیشن کی اور حکومت پر چیک رکھا۔ اگر تحریک انصاف جارحانہ انداز میں اپوزیشن کی سیاست نہ کرتی تو سیاسی عمل مذاق بن جاتا اور لوگ برملا کہتے کہ سیاست دان باری باری کا کھیل ہی کھیل رہے ہیں۔

تحریک انصاف البتہ پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنے میں بھی ناکام رہی بلکہ سچ یہی ہے کہ اس نے پارلیمنٹ کی ٹکے برابر عزت اور توقیر نہیں کی۔ پہلے دھرنے کے نام پر سال بھر ضائع کیا، پارلیمنٹ میں جانے سے گریزاں رہے، اس کے قائد عمران خان تو آخر تک اسی روش پر چلے اور اہم ترین قانون سازی میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے ذریعے اپوزیشن اراکین، خاص طور سے نئے اراکین اسمبلی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

تحریک انصاف نے ان میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔ عمران خان نے حد یہ کی کہ پارلیمنٹ پر باقاعدہ جلسہ عام میں لعنت بھیجی۔ یہ ہماری جدید سیاسی تاریخ کی شائد واحد مثال ہوگی۔ سیاسی کلچر بھی پانچ برسوں میں بہت خراب ہوا، بلکہ گندا شائد زیادہ درست لفظ ہے۔ تحریک انصاف نے اس میں خاصا حصہ ڈالا۔ عمران خان کی دھرنے کے دوران تقریریں نہایت مایوس کن تھیں۔ غیر شائستگی اور بدتمیزی کو چھوتے ہوئے جملے وہ تفاخر سے بولتے رہے۔

حکمران جماعت نے تو بعد میں اس بدتمیزی کے کلچر کو کئی گنا آگے بڑھایا۔ رانا ثنااللہ تو خیر بدتمیزی اور بدزبانی کا کوہ ہمالیہ ہیں ہی، سعد رفیق اور عابد شیر علی جیسے دو تین بار الیکشن جیتنے والوں نے بھی طوفان بدتمیزی کو عروج پر پہنچایا۔ مسلم لیگ ن کا اصل کارنامہ مگر طلا ل چودھری، دانیال عزیز جیسے" ہیروں " کو سامنے لانا تھا۔ بی بی مریم نواز کے خصوصی سیل کے یہ ہفت ہزاری سالار تھے، بڑھ چڑھ کر اپنی لیڈر کو خوش کرتے رہے، سیاسی روایات اور شائستگی کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہونے دو۔

تحریک انصاف کی جانب سے عمران کو خود جواب دینا پڑتا تھا، شیخ رشید کی بے لگام زبان پر ان کا خاصا عرصہ انحصار رہا، آخر انہوں نے بھی اپنے" شمشیر زن" بھرتی کر لئے۔ حکومت، اپوزیشن دونوں نے پانچ برسوں کے اندر سیاست میں بے پناہ بدتمیزی، گھٹیا ذاتی حملوں اور عامیانہ کردار کشی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ اب اگلی حکومت اور پارلیمنٹ کے لئے اس گرداب سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ افسوس کہ یہ ان لوگوں نے کیا، جو سیاسی روایات اور سیاسی عمل جاری رکھنے کے دعوے دار ہیں۔