الیکٹ ایبلز پر بحث ابھی جاری ہے، تحریک انصاف نے بیشتر ٹکٹوں کے فیصلے کر لئے، دوچار ابھی نہیں ہوپائے۔ احتجاج کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ بعض حلقوں کے تشنہ رہ جانے والے امیدوار اپنے کارکن ساتھیوں سمیت بنی گالہ کے باہر دھرنا ڈالے بیٹھے ہیں۔ اگلے روز عمران خان نے ان ناکام امیدواروں کو سخت سست کہا اور کہا کہ احتجاج سے بلیک میل نہیں ہوں گا۔
یہ ویسے بلیک میلنگ کی بات نہیں۔ جو سیاسی رہنما یا کارکن پچھلے کئی برسوں سے تحریک انصاف کے ساتھ چل رہے ہیں، نرم گرم انہوں نے برداشت کیا، خان کے اسلام آباد والے بچکانہ دھرنا سیاست کا حصہ بنے۔ وہاں جا کر خوار ہوتے رہے، اس امید پر کہ وقت آنے پرا س کا ثمر ملے گا، اب عین وقت پر کوئی پرانا گھاگ الیکٹ ایبل سکائی لیب کی طرح ان کے سر وں پر آ گرے تو تکلیف ہونا لازم ہے۔ ("سکائی لیب"نئی نسل کے قارئین کے لئے نیا اور اجنبی لفظ ہوگا۔
ہم نے اپنے بچپن میں سکائی لیب(Skylab) کا نام گھروالوں کی زبانی سنا، سکول کے زمانے میں اس کی تفصیل ایک میگزین میں پڑھی۔ یہ ایک امریکی سپیس سٹیشن تھاجو1973-79 تک خلا میں کام کرتا رہا، فنی خرابی کے باعث یہ تباہ ہو کرزمین پر گرا۔ اس زمانے میں کئی دنوں تک دنیا بھر میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ سکائی لیب کے منوں، ٹنوں وزنی ٹکڑے نجانے کہاں کس جگہ کن کے اوپر گریں گے؟
خدشہ تھا کہ کسی گنجان آبادی پر گرے تو خاصا جانی نقصان ہوگا۔ نجومی، روحانی شخصیات اس حوالے سے پیش گوئیاں بھی کرتی رہیں۔ خیر اس کا ملبہ آسٹریلیا کی ایک بالکل ہی غیر آباد جگہ گرا اور نقصان نہیں ہوا۔ البتہ یہ اصطلاح انگریزی، اردو اور دیگر زبانوں میں آ گئی کہ فلاں چیز یا شخص سکائی لیب کی طرح ان پر گرا۔)بات نئے الیکٹ ایبل اور پرانے امیدواروں کی ہو رہی تھی، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کسی اصول یا نظریے کے تحت نہیں بلکہ سرمایہ کاری کی نیت سے کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی سیاسی رہنما کسی پارٹی میں تین یا پانچ سال پرانا ہے تو وہ بے لوث سرمایہ کاری کر رہاتھا۔
پارٹی کے پرانے ساتھیوں کو دکھ یہ ہوتا ہے کہ ہم پیسے خرچ کر کے ٹرالیوں، ویگنوں، بسوں میں لاد کر لوگ جلسوں، دھرنوں میں لے جاتے رہے، پارٹی سربراہ اور دیگررہنمائوں کو پر تعیش کھانوں کی دعوتیں کھلائیں، پارٹی فنڈز کے نام پر سیاسی رشوت دیتے رہے اور اب جب ٹکٹ کا وقت آیا تو کوئی اور آ دھمکا۔ یہ سب قربانیاں جمہوریت، ملک میں بہتر نظام حکومت، گڈ گورننس، عوام کی بہتری کے لئے اگر دی جائیں تو کسی کو شکوہ نہ ہو۔ لوگ پھر یہ سمجھیں گے کہ ان کی قربانی کسی مقصد کے لئے تھی، ٹکٹ نہیں ملا تو نہ سہی، مقصد پورا ہونا چاہیے۔ طلبہ سیاست میں مفادات نسبتاً کم ہوتے ہیں، طلبہ ویسے بھی ابھی جذباتی اور اتنے پریکٹیکل نہیں ہوئے ہوتے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایک ہی طلبہ الیکشن دیکھنے اور ووٹ ڈالنے کا اتفاق ہوا۔
یہ 1989ء کی بات ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ الیکشن کرایا تھا۔ اس زمانے میں پنجاب میں سب سے نمایاں اور بڑی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ آج توزندہ بچنے والی یہ واحد طلبہ تنظیم ہے۔ پنجاب یونیورسٹی جمعیت کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔ گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ اور اسلامیہ کالج سول لائنز میں بھی جمعیت مضبوط تھی۔ ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج میں ایم ایس ایف کا طوطی بولتا تھا۔ اس کے ہتھ چھٹ سٹوڈنٹ ٹیرر وہاں چھائے تھے۔
الیکشن میں اکثر جگہوں پر جمعیت کے مقابلے میں سب تنظیمیں اکٹھی ہوگئیں۔ ایم ایس ایف مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم جبکہ پی ایس ایف پیپلزپارٹی، اے ٹی آئی(انجمن طلبہ اسلام)بریلوی ذہن رکھنے والے طلبہ، جے ٹی آئی(جمعیت طلبہ اسلام)دیوبندی ذہن رکھنے والے طلبہ یعنی جمعیت علما اسلامی کی ذیلی تنظیم تھی۔ لاہور کی انجیئنرنگ یونیورسٹی (UET)میں قائداعظم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام سے تنظیم تھی، تمام اینٹی جمعیت لڑکے اس کا حصہ بن جاتے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زرعی انقلابی کونسل کے نام سے تمام اینٹی جمعیت عناصر اکٹھے ہوگئے تھے، جبکہ ذکریا یونیورسٹی میں ذکریا طلبہ اتحاد کے نام سے ایک باقاعدہ اینٹی جمعیت اتحاد بن گیا تھا۔ بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی صوبے کی واحد یونیورسٹی تھی جہاں اے ٹی آئی کا بڑا ہولڈ تھا۔ قائداعظم میڈیکل کالج میں ایگلز نام کی مشہور ترقی پسند طلبہ کی تنظیم تھی، لیفٹ کے لڑکے اس میں شامل ہوتے، جمعیت کے خلاف یہ سرگرم رہی۔
معروف اینکر، کالم نگار رئوف کلاسرا کے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا مرحوم ایگلز کے سرکردہ رہنما رہے۔ ڈاکٹر نعیم کلاسرا پر رب تعالیٰ اپنی خاص رحمت فرمائے، مرحوم پڑھے لکھے طلبہ میں بہت مقبول تھے۔ خود بھی لکھنے پڑھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے گارشیا مارکیز کے مشہور ناول" تنہائی کے سو سال" کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے، فکشن ہائو س نے اسے چھاپا ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ سرائیکی کے منفرد شاعر ڈاکٹر اشو لال نے لکھا۔ یہ ناول جس نے نہیں پڑھا، ایک شاندار ذائقے سے وہ محروم رہا۔
ہمارے شہر احمد پورشرقیہ اور بعض دیگر علاقوں میں سرائیکی قوم پرست طلبہ تنظیم ایس ایس ایف(سرائیکی سٹوڈنٹ فیڈریشن)خاصی فعال تھی۔ کالج کا الیکشن ایم ایس ایف اور سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے درمیان ہوا، وہاں جمعیت کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس الیکشن میں خوب مزا رہا، ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ سرائیکی ہونے کے باوجود ایم ایس ایف کو سپورٹ کیا کہ لسانی سیاست سے متنفر تھے۔ حالانکہ میرا بچپن کا دوست عبدالباسط شکرانی سرائیکی سٹوڈنٹ کی جانب سے صدر کا امیدوار تھا، آج کل تو وہ پی ٹی آئی کا پرجوش انصافین ہے، پچھلے الیکشن میں عمران خان نے اسے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دیا، مگرجیت نہ سکا۔
بات لمبی ہوگئی، کہنے کا مطلب یہ تھا کہ طلبہ سیاست کے دنوں میں لڑکے زیادہ توجہ مقصد کے حصول پر مرکوز رکھتے، خود پیچھے رہ کر بھی اپنی تنظیم کو جتواتے۔ جیسے جیسے یہ لڑکے عملی زندگی میں گئے، زمانے کے رنگ دیکھے، ان میں سے بہت سے سیانے ہو گئے۔ اس نسل کو اب سیاسی جماعتوں میں دیکھیں تو کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ دینی جماعتوں کا حصہ بننے والے البتہ استثنا ہیں۔ دینی جماعتوں، خاص کر جماعت اسلامی جیسی پارٹیوں میں ایسے اختلاف اور احتجاج کا تناسب بہت کم ہے، بڑی جماعتوں سے شائد سو گنا کم۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں لوگ فی سبیل اللہ مالی اعانت کرتے اور اپنا وقت دیتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس محنت کا صلہ رب تعالیٰ دے گا۔ پھر دینی شعور رکھنے والے لوگ امیدواری کو امتحان اور آزمائش بھی سمجھتے ہیں۔ یہ جماعت اسلامی ہی میں ممکن ہے کہ کوئی امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد دھاڑیں مار کر روئے اور ذمہ داری کے بوجھ کا احساس کر کے کام کرے۔ اس بار تو ویسے اسلام آباد اور دیر میں جماعت کے اندر سے بھی بعض لوگوں نے ہلکے پن کا مظاہرہ کیا اور تماشہ بنایا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں تو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد لڑنے کی دھمکی دینا عام معمول ہے۔
اب پی ٹی آئی بھی ان بڑی جماعتوں میں شامل بلکہ سرفہرست آ گئی ہے۔ سچی بات ہے کہ مجھے ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاج کرنے والوں سے کچھ زیادہ ہمدردی محسوس نہیں ہوتی۔ سیاست کی اس میلی، گندی، بدبودار گنگا میں کوئی پاک صاف، پوتر نہیں۔ ہر ایک کی اپنی کہانیاں، اپنا کچا چٹھا ہے۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ پارٹیاں اپنے کارکنوں اور رہنمائوں کو اعتماد میں لیں۔ ایسا مگر ہر جگہ ہونہیں پاتا۔ الیکشن لڑنے کے خواہش مند اپنا مفاد(ممبری، علاقہ میں نمایاں ہونا وغیرہ) چاہتے ہیں تو پارٹی لیڈر بھی اپنے مفادات مقدم رکھتے ہیں۔ جس لیڈر کو اسمبلی میں سادہ اکثریت درکار ہو، وہ تو ہر حال میں جیتنے والے گھوڑے ہی منتخب کرے گا۔ سیاست بڑا سفاک پیشہ ہے۔ اس کی آنکھ میں حیاہوتی ہے نہ سینے میں دل۔
کالم لکھتے ہوئے ٹی وی پر زعیم قادری کی دھواں دھار پریس کانفرنس کے ٹکرز چل رہے ہیں۔ کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ٹی وی چینلز پر کمال دیدہ دلیری(لفظ تو کوئی اور استعمال کرنا چاہتا تھا، مگر وہ پارلیمانی نہیں لگا)سے میاں نواز شریف اور آل شریف کا دفاع کرنے والا زعیم قادری اچانک یوں پھٹ پڑے گا؟ ایسا ہوچکا ہے۔
مستقبل کی خدا جانے، جمعرات کی شام تک زعیم قادری شریف خاندان، خاص کر آل شہباز شریف پر خود کش حملہ کر چکے ہیں۔ جس انداز میں زعیم قادری پانامہ سکینڈل میں اپنے لیڈر کا دفاع کرتے رہے، وہ کبھی اچھا نہیں لگا۔ اس لئے کچھ زیادہ حسن ظن ان سے نہیں، مگر بہرحال جس جرات اور یکسوئی اسے انہوں نے اختلاف کیا، وہ اچھا لگا۔ زعیم قادری اگر ایسا ن لیگ کے دور اقتدار میں کرتے تو ان کی تحسین زیادہ ہوتی، آج ان کی بغاوت کو ٹکٹ نہ ملنے کے زمرے میں لیا جائے گا۔ اس کے باوجود یہ ایک پریس کانفرنس چودھری نثار علی خان کی پچھلے ایک سال کی کنفیوز، بزدلانہ، کمزور، منافقت آمیز پریس کانفرنسوں پر بھاری ہے۔
ہمارے بعض محترم ساتھی پوٹھوہار کے چودھری نثار کو سراہتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں خوبیاں ہوں، ہمیں تو لاہور کا یہ اوسط درجے کا سیاستدان، پوٹھاری عبقری سیاستدان پر بھاری لگا۔ امتحانات میں خوش خطی کے پانچ نمبر ہوتے تھے۔ زندگی کے پرچہ میں جرات کے پچیس اضافی نمبر تو بنتے ہیں۔