Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Punjab Assembly Umeed Waar, Tehreek e Insaf Ne Nazar e Sani Kyun Ki?

Punjab Assembly Umeed Waar, Tehreek e Insaf Ne Nazar e Sani Kyun Ki?

تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے لئے چند دن پہلے امیدواروں کی فہرست کا اعلان کیا تھا، دو چار حلقے البتہ پینڈنگ رکھے گئے تھے۔ تب یہ کہا گیا کہ ان فیصلوں پر اپیل کی جا سکتی ہے۔ اس وقت اندازہ تھا کہ یہ رسمی کارروئی ہی ہوگی۔ ہمارے ہاں نظرثانی کا چلن کم ہی ہے۔

تحریک انصاف نے اب اپنی نظرثانی شدہ فہرست جاری کی ہے، اکیس حلقوں میں نئے امیدوار ہیں۔ چند ایک فیصلے اگرچہ ابھی تک متنازع ہی ہیں۔ کہیں کہیں یہ بھی ہوا کہ امیدوار پارٹی کا پراناساتھی اور نظریاتی کارکن ہے، مگر معروف سیاسی حوالوں سے الیکٹ ایبل نہیں تو مقامی کارکنوں کوخدشہ ہے کہ اسے شکست نہ ہوجائے۔ یہ رسک تو خیر لینا ہی چاہیے۔ اگر اتنی اچھی سیاسی پوزیشن میں تھوڑا بہت رسک بھی نہ لیا جائے تو پھر نظریاتی کارکن اور پرانے ساتھیوں کو کبھی ٹکٹ نہیں مل سکے گا۔

پی ٹی آئی کی نئی ریویو لسٹ میں سب سے زیادہ تبدیلیاں مظفر گڑھ میں ہوئیں، وہاں چار حلقوں میں ٹکٹ تبدیل کئے گئے جبکہ ایک پینڈنگ حلقہ تھا۔ یعنی مجموعی طور پر پانچ نئے نام سامنے آئے ہیں۔ مظفر گڑھ کے حوالے سے قارئین کو بتاتا چلوں کہ یہ پنجاب کا واحد ضلع ہے جہاں 2018ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی تین سیٹیں جیتی تھیں، ورنہ اسے باقی پورے پنجاب سے صرف تین سیٹیں ملیں، وہ بھی دو مخدوم احمد محمود کی مرہون منت تھیں۔ مظفر گڑھ سے ویسے ایک بار پہلے پی پی ضلع کی پانچوں سیٹیں بھی جیت چکی ہے۔ اس بار مظفر گڑھ سے پی پی کی چوتھی رکن قومی اسمبلی حنا ربانی کھر ہیں جو مخصوص نشستوں سے منتخب ہوئیں۔

مظفر گڑھ میں زیادہ ٹکٹوں کی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہاں کے بعض ارکان صوبائی اسمبلی کا مسلسل تحریک انصاف کی قیادت کو سیاسی بلیک میل کرتے رہنا بتایا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض جہانگیر ترین گروپ کے تھے اور بار بار فارورڈ بلاک میں آتے جاتے رہے۔ مقامی صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ عمران خان کو بتایاگیا کہ پانچ ارکان اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے صوبائی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کے لئے بھی پیسے مانگے تھے۔ پیسے انہیں ملے یا نہیں، اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان پانچ ارکان اسمبلی میں خرم لغاری، عبدالحی دستی، اشرف رند، علمدار قریشی نمایاں ہیں۔ ان چاروں کو ٹکٹ دینا تو دور کی بات ہے، انٹرویو کی خاطر بھی نہیں بلایا گیا۔ پانچواں رکن اسمبلی نیاز گشگوری بتایا جاتا ہے۔ ان صاحب کو ٹکٹ مل گیا تھا، مگر اب تبدیل کرکے نادیہ کھر کر دیا گیا ہے۔ یہ غیر معروف نام ہے، مگر والدالیکشن جیتتے رہے۔

مظفر گڑھ ہی سے جمشید دستی کو بھی اس بار ٹکٹ دیا گیا تھا، مقامی انصافین نے اس پر بھی احتجاج کیا، مگر خان صاحب نے ٹکٹ برقرار رکھا۔ ایک سیٹ جو پینڈنگ تھی، وہاں پر جام یونس کو ٹکٹ ملا ہے، یہ معروف قانون دان اور پنجاب بارکونسل کے وائس چیئرمین ہیں۔ ایک حلقے سے غیر معروف اور کمزور امیدوار ڈاکٹر زرینہ کو دیا تھا، مگر اب واپس لے کر معظم جتوئی کو دیا گیا۔ یاد رہے کہ سترہ جولائی کے ضمنی الیکشن میں معظم جتوئی نے پی ٹی آئی کی جانب سے سیٹ جیتی تھی۔ معظم جتوئی سابق وزیر عبدالقیوم جتوئی کے قریبی عزیز ہیں۔ مظفر گڑھ کے تین حلقوں سے جتوئی خاندان کو سیٹیں دی گئی ہیں۔

مظفر گڑھ ہی کے ایک حلقے سے اقبال پتافی سے ٹکٹ لے کر عمران دنوتار کو دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ان کے قریبی عزیز ڈاکٹر کامران دنوتار(دنوتر)پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، وہ جرمنی سے پاکستان تحریک انصاف کے لئے آئے اور برسوں سے پارٹی کے لئے کام کر رہے ہیں، خاص کر سوشل میڈیا کے حوالے سے۔ مقامی سطح پر خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے عمران کو ٹکٹ ملا ہے۔

ساہی وال میں ایک تبدیلی تو خوش آئند ہے۔ جولائی کے ضمنی الیکشن میں میجر ریٹائر سرور نے نعمان لنگڑیال جیسے مضبوط امیدوار کو ہرایا تھا۔ میجر صاحب کا تعلق ماضی میں جماعت اسلامی سے رہا ہے، شریف آدمی ہیں، پچھلے کئی برسوں سے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں اور پارٹی کے لئے خاصی خدمات ہیں، ان پر ناجائز پرچے بھی ہوتے رہے۔ اس سیٹ پر اس بار عادل سعید گجر کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹکٹ رائے حسن نواز نے دلوایا۔ گجر برادری کا اٹھارہ بیس ہزار ووٹ وہاں ہے، رائے صاحب کی دلچسپی تھی کہ یہ ووٹ قومی اسمبلی میں ان کے امیدوار کو مل جائے گا، رہی صوبائی سیٹ تو وہ عادل گجر کا مقدر۔ خیر مقامی کارکنوں اور تنظیم کے ساتھ ساتھ میجر سرور کے احتجاج پر یہ ٹکٹ تبدیل ہوگیا ہے۔

ساہی وال کے ایک حلقے پر رانا آفتاب کی جگہ شکیل نیازی کو ٹکٹ ملا، مگر ان کی بدقسمتی کہ وہ اپنا کاغذات واپس لے چکے تھے تو ریٹرننگ آفیسر نے ان کا ٹکٹ رد کر دیا اور اب وہاں سے رانا آفتاب ہی تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔ اسے شکیل نیازی کے ساتھ ستم ظریفی سمجھ لیں۔ ساہی وال کے ایک اور حلقے پی پی 198سے ارشاد حسن کاٹھیا کی جگہ محمد یار دمرہ کو ٹکٹ ملا ہے۔ مقامی صحافتی حلقوں کو اس فیصلے کی منطق سمجھ نہیں ا ٓرہی۔ کاٹھیا برادری کا بھی اچھا خاصا ووٹ ہے، رائے حسن نواز نے یہ ٹکٹ دلوایا تھا تاکہ قومی میں ان کے پینل کو فائدہ پہنچے۔ اب دمرہ صاحب کو ٹکٹ ملا، وہ کمزور امیدوار بتائے جارہے ہیں۔ اسی طرح پاکپتن سے خان امیر حمزہ راٹھ کی جگہ سلمان صفدر کو ٹکٹ ملا۔ مقامی کارکنوں کے مطابق یہ کمزور امیدوار ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے شائدمنظور وٹو فیملی کو فائدہ پہنچے گا۔

پنڈی سے ایک اہم فیصلہ پی پی دس سے طیبہ ابراہیم کا ٹکٹ واپس لینا ہے۔ یہ چودھری نثار کا حلقہ ہے اور یہاں سے کمزور غیر معروف امیدوار کو ٹکٹ دینا ناقابل فہم تھا۔ اب طیبہ بی بی سے ٹکٹ لے کر کرنل اجمل صابر کو دیا گیا ہے۔ پنڈی کی ایک اور سیٹ سے کرنل شبیر کی جگہ طارق مرتضی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

پی پی 118 گوجرہ سے بلال وڑائچ کے ٹکٹ پر خاصا تنازع چلتا رہا۔ وڑائچ صاحب بار بار پارٹیاں اور پوزیشن بدلنے کے لئے بدنام ہیں۔ البتہ انہوں نے چودھری پرویز الٰہی صاحب کا اعتماد کا ووٹ دلوانے کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی بنا پر انہیں ٹکٹ دینے کا دبائو تھا۔ مقامی تنظیم اور کارکن البتہ شدید مخالف تھے۔ عمران خان نے دبائوکسی حد تک برداشت کرتے ہوئے یہ حلقہ اوپن کر دیا ہے۔ اب یہاں پر ٹکٹ کسی کے پاس نہیں۔

سرگودھا سے دو ٹکٹیں واپس لی گئی ہیں اور ایسامقامی ضلعی تنظیم کی تحریری سفارش پرہوا۔ پی پی73 سے خالق دار پڑھیار کی جگہ سہیل گجر کو ملا۔ کہا جاتا ہے کہ نیا امیدوار پارٹی کے لئے زیادہ عرصے سے کام کر رہا تھا۔ ایک تبدیلی پی پی 79 سے ہوئی، یہاں سے چیمہ خاندان کے قریبی عزیز فیصل گھمن کو ٹکٹ ملا تھا۔ اب واپس لے کر نذیر صوبی کو دیا گیا۔ نذیر صاحب دو ہزار تیرہ سے پارٹی کے ساتھ ہیں، وہ الیکشن لڑا اور دو ہزار اٹھارہ میں ٹکٹ نہ ملنے کے بعد بھی پارٹی کے ساتھ رہے، خاصی قربانیاں ہیں۔ اب انہیں صلہ مل گیا۔

لاہور کا ایک حلقہ پینڈنگ تھا، وہاں سے ظہیر کھوکھر کی جگہ فیاض بھٹی کو ٹکٹ ملا ہے۔ بہاولپور کا ایک حلقہ پینڈنگ تھا وہاں سے ملک احمد یار کو ٹکٹ ملا ہے۔ وہاڑی کے حلقہ pp234سے زاہد اقبال کو دیا گیا ہے، یہ بھی زیرغور تھا۔ شیخوپورہ سے ملک اقبال کی جگہ پی پی 137 سے ابوزر چڈھا کو دیا گیا، بعض حلقوں کے مطابق یہ کمزور فیصلہ ہے۔ قصور کے بھی دو امیدواروں کو تبدیل کیا گیا ہے، اشفاق کمبوہ کی جگہ مقامی تنظیم کے پرانے ساتھی مہر سلیم کو ٹکٹ ملا ہے۔ ساتھ والاحلقہ177 زیرغور تھا، وہاں سے بیرسٹر شاہد مسعود کو ملا۔

گوجرانوالہ کے تین حلقوں میں نئے امیدوار آئے ہیں۔ پی پی اکسٹھ زیرغور تھا، وہاں سے رانا نذیر احمد خان کو ٹکٹ ملا ہے۔ اس پر مقامی رہنمائوں نے احتجاج کیا ہے کہ یہ ان کا حلقہ ہی نہیں جبکہ یہاں سے مقامی سطح پر بہتر پارٹی امیدوار موجود تھے۔ پی پی باسٹھ سے طارق گجر کی جگہ محمد علی کو ٹکٹ ملا۔ فیصل آباد سے بھی دو حلقوں میں تبدیلی ہوئی ہے۔ اوکاڑہ کے ایک حلقے سے خاتون چاند بی بی کو ٹکٹ ملا ہے، پہلے یہ فیاض قاسم وٹو کے پاس تھا۔ مقامی حلقے اس فیصلے پر حیران ہیں۔

پی ٹی آئی کے پچھلے فیصلوں اور نظرثانی سے اتفاق اختلاف کی گنجائش ہے۔ اچھی بات یہ کہ مقامی تنظیم کو اکثر جگہوں پر اہمیت ملی ہے۔ کہیں نظریاتی کارکن بھی کھپ گئے۔ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لئے سب سے زیادہ سنجیدگی دکھائی ہے۔ اس کے بعد پی پی کا نام آتا ہے، جس نے بہت سے حلقوں سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو یہ فائدہ ہوا کہ مظفر گڑھ اور بعض دیگر جگہوں سے جنہیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہیں ملا، وہ پی پی میں چلے گئے، کیونکہ ن لیگ تو میدان میں ہے ہی نہیں۔ ن لیگ نے ابھی تک ایک بھی ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ یوں لگ رہا ہے کہ انہیں الیکشن نہ ہونے کا یقین ہے یا پھر وہ الیکشن ہونے کی صورت میں بائیکاٹ کا سوچ رہے ہیں۔