پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز ہار گئی۔ تنقید کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ ناکام رہنے والے کرکٹرز پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ اتوار کو کھیلے جانے والے فیصلہ کن میچ میں کرائوڈ نے بھی بعض کھلاڑیوں پر بری کارکردگی کی وجہ سے بہت تنقید کی اور ہوٹنگ بھی کی۔ خوش دل شاہ ٹیم کے معروف کھلاڑی ہیں، اس سیریز میں بری طرح ناکام ہوئے، اس سے پہلے ایشیا کپ میں بھی کارکردگی مایوس کن رہی۔
خوش دل شاہ کے آئوٹ ہونے پر باقاعدہ سٹیڈیم میں تالیاں بجائی گئیں اور یوں خوشی منائی گئی جیسے مخالف ٹیم کا کھلاڑی آئوٹ ہوا ہو، تماشائی پرچی پرچی کے نعرے لگا رہے تھے۔ سینئر کرکٹ وہاب ریاض نے جو آج کل کرکٹ کمنٹری بھی کر رہے ہیں، اس پر احتجاج کیا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بعض دیگر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی ایسی بری نہیں رہی کہ اس پر بے رحمانہ تنقید ہوئی۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سابق کرکٹر رمیز راجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ کرکٹ ٹیم پر تنقید میں ہاتھ نرم رکھا جائے کہ اسی ٹیم نے قوم کو متحد کیا اور بہت سی خوشیاں بھی دی ہیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، کوئی ایک میچ یا سیریز ہارنے پر سخت اور بے لحاظ تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ کھلاڑی ہمیشہ ہر میچ نہیں جتوا سکتے، ہر ٹیم کھیلنے آتی ہے۔ یہ سب کامن سینس کی باتیں ہیں اور کرکٹ سے محبت کرنے والے یہ جانتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہر ہار پر ایسا ہی شور مچایا جاتا ہے۔ پچھلے سال ہونے والے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان آسٹریلیا سے ہار گیا۔ قومی ٹیم پر کسی نے تنقید نہیں کی، بلکہ ہر ایک نے سراہا۔ اس بار زیادہ تنقید اس لئے ہوئی کہ آخری میچ میں ٹیم نے جیتنے کے لئے زور لگایا ہی نہیں، شکست خوردہ مائنڈ سیٹ سے کھیلے اورلڑے بغیر ہی ہار گئے۔ یہ تکلیف دہ تھا۔
قومی کرکٹ ٹیم پر دوتین وجوہات کے باعث تنقید ہو رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس ٹیم میں بعض کھلاڑی مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، مگر سلیکشن کمیٹی، ٹیم مینجمنٹ اور کپتان انہیں بار بار کھلا رہے ہیں۔ ہماری مڈل آرڈر(نمبر تین سے نمبر چھ تک بیٹنگ کرنے والے)کے مسائل خاصے عرصے سے چل رہے ہیں۔ پچھلے ورلڈ کپ میں بھی یہ ایشو تھا۔ تب عوامی دبائو پر آخری وقت میں تبدیلیاں کی گئیں اور شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔ اس کا فائدہ ہوا۔ اس بار زیادہ برے حالات ہیں کیونکہ محمد حفیظ ریٹائر ہوچکے ہیں جبکہ شعیب ملک کو پچھلے ایک سال سے کوئی میچ نہیں کھلایاگیا۔
سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ نے مڈل آرڈر کے لئے خوش دل شاہ، محمد افتخار، حیدر علی، شان مسعود اور محمد آصف کو مواقع دئیے ہیں۔ خوش دل شاہ، افتخار اور آصف کو تو مسلسل کھلایا جاتا رہا ہے اور یہ تینوں ہی بری طرح ناکام ہوئے۔ محمد آصف چلیں دس میں سے ایک میچ میں دو چھکے لگا دیتا ہے اور جیت میں حصہ ڈال دیتا ہے، تاہم نو میچز میں وہ ایک ہی طرح آئوٹ ہو کر مایوس کرتا ہے۔ خوش دل شاہ سے تو یہ بھی نہیں ہو پا رہا۔ ظاہر ہے جب یہ اہم پوزیشنوں پر کھیلنے والے کھلاڑی کچھ نہیں کر پائیں گے، ٹیم ہارے تو پاکستانی شائقین کو غصہ اور صدمہ پہنچے گا ہی۔
سلیکشن کمیٹی کے لئے ایک مشکل یہ ہے کہ ہمارے ڈومیسٹک سرکٹ میں جو کھلاڑی مڈل آرڈر میں بطور ہارڈ ہٹر یا بطور پاور ہٹر پرفارم کرتے ہیں، ان میں خوشدل شاہ، آصف، افتخار، حیدرعلی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ شان مسعود بھی ڈومیسٹک میں بہت اچھا پرفارم کر کے ٹیم میں واپس آیا ہے۔ شان مسعود اور حیدرعلی کو ٹیم میں شامل کرنے کا مطالبہ خود تجزیہ کار، صحافی اور کرکٹ لورز کرتے رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمار ے پاس جو لاٹ ہے وہ لوکل کرکٹ میں تو رنز بنا لیتے ہیں، انٹرنیشنل کرکٹ میں رہ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈومیسٹک سرکٹ میں مقابلہ سخت نہیں، پچیں زیادہ فرینڈلی اور بائولنگ اتنی اچھی نہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خوش دل، آصف، حیدر علی وغیرہ اپنی تکنیک بہتر نہیں کر پا رہے۔ یہ ایک ہی انداز سے شاٹ کھیلتے اور وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ جو کھلاڑی آن سائیڈ پر کھیلتا ہے، اس نے آف سائیڈ پر کھیلنے میں مہارت حاصل نہیں کی، یہی معاملہ آف سائیڈ والے کا ہے، جو شارٹ پچ گیندوں پر کمزور ہے، قومی اور انٹرنیشنل سطح پر چار پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی وہ اس مسئلے کو دور نہیں کر سکا، حیدر علی اگر کھڑے کھڑے اندھا دھند بلا گھما دیتا تھا تو آج بھی اسی انداز میں آئوٹ ہو رہا ہے۔ یہی بات دیکھنے والوں کو تکلیف دیتی ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ان چلے ہوئے کارتوسوں میں دم نہیں تو انہیں باہر کرو، کسی اور کو موقعہ دو۔ کسی ینگسٹر کو ڈویلپ کرو کہ کبھی تو وہ اچھا ہٹر بن جائے۔ جب ایسا نہیں کیا جائے گا تو تنقید ہونا لازم ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ٹیم دس پندرہ سال پرانی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ کرکٹ کا یہ فارمیٹ بہت جدید ہوچکا۔ بے شمار نئے تجربے ہوئے، بلے بازوں نے بہت سے غیر روایتی شاٹس اپنا کر تباہی مچا دی ہے۔ ہمارے کھلاڑی آج بھی وہی روایتی انداز کے شاٹس کھیلنے کی کوشش میں وکٹیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ٹیم کے ساتھ کوئی ماڈرن سینس رکھنے والا ٹی ٹوئنٹی کوچ ہے ہی نہیں۔ اس وقت ٹیم کے ساتھ ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف ہیں۔ ٹیسٹ اور ون ڈے کے لئے یہ انتخاب برا نہیں، خاص کر محمد یوسف کا۔ وہ اپنے زمانے کے ورلڈ کلاس بلے باز تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنی زندگی میں کبھی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلی ہی نہیں۔ ثقلین تو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ شروع ہونے سے پہلے ریٹائر ہوگئے، یوسف کے آخری دنوں میں یہ کرکٹ شروع ہو گئی تھی، مگر ان کی اس فارمیٹ میں جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ انہوں نے کسی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کوچنگ تک نہیں کی۔ یوسف واحدنامور سابق کرکٹر ہیں جنہیں کسی پی ایس ایل ٹیم نے کوچنگ کے لئے شامل نہیں کیا۔
یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کی تکنیک بہتر کرنے کا کام نیشنل کرکٹ اکیڈمی (ہائی پرفارمنس سنٹر)کا ہے، وہاں یہ پوزیشن ہے کہ دوڈھائی سال پہلے ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کو انتہائی اہم ذمہ داریاں دی گئیں تھیں۔ ایک سال سے یہ دونوں ہائی پرفارمنس سنٹر چھوڑ کر قومی ٹیم کے ہیڈ اور بیٹنگ کوچ بنے بیٹھے ہیں۔ ہائی پرفارمنس سنٹر میں ان کی جگہ کس کو لگایا گیا، کوئی نہیں جانتا۔ اکیڈمی میں بائولنگ کوچ کے طور پر محمد زاہد کو لگایا گیا، مگر انہوں نے کسی وجہ سے انکار کر دیا، ان کی جگہ کسی کو یہ ذمہ داری نہیں دی گئی۔
ثقلین مشتاق اپنے دور کے بہترین آف سپنر تھے۔ کوئی جواب دے سکتا ہے کہ ثقلین نے ہائی پرفارمنس سنٹر میں کس نئے سپنر کو تیار کیا؟ پاکستان کے پاس سعید اجمل کی جگہ پر کوئی اچھا آف سپنر نہیں آیا۔ شاداب خان ان فٹ ہو جائیں تو اچھا لیگ سپنر نہیں ملتا۔ عثمان قادر کو مجبوراً کھلانا پڑتا ہے۔ ٹیسٹ میچز میں ڈھنگ کا لیگ سپنر نہیں۔ یاسر شاہ کو سال ڈیڑھ باہر بٹھا کر مجبوراً واپس لانا پڑا۔ ثقلین اور یوسف سے اصل کام ہائی پرفارمنس سنٹر میں لینا چاہیے جہاں ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کے لئے لڑکے بھی تیار کرنے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی کے لئے مگر وہاں بھی اس فارمیٹ کے سپیشلسٹ کوچ لانے چاہئیں۔
اب یہ چیزیں ہم جیسے عام لوگوں کو سمجھ آتی ہیں، کرکٹ بورڈ، سلیکشن کمیٹی کے دماغ کیوں بند ہیں؟ محمد وسیم چیف سلیکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شعیب ملک ہمارے پلان کا حصہ نہیں تھا۔ آخر کیوں نہیں تھا؟ شعیب ملک اگر ریٹائر نہیں ہوا اور فٹ ہے، پرفارم کر رہا ہے تو اسے کھلائیں۔ ایشیا کپ میں شعیب ملک کو لے کر جانا چاہیے تھا، وہ سپنر کو بہت اچھا کھیلتا ہے۔ اسی طرح اگر مڈل آرڈر فلاپ ہو رہی ہے تو پلان بی کے طور پر متبادل لڑکوں کو کیوں نہیں ڈھونڈا گیا؟ بہتر تکنیک اور غیر روایتی شاٹس سے لیس ہارڈ ہٹرز کیوں نہیں لائے جاتے؟
کرکٹ بورڈ سے پوچھنا چاہیے کہ پچھلے پی ایس ایل میں تین چارنوجوان فاسٹ بائولرز ابھر کر سامنے آئے۔ زمان خان، سلمان ارشاد، زیشان ضمیر۔ انہیں گروم کرنے کے لئے کیا کوشش کی گئی؟ زمان خان نے قلندر کو کئی میچز جتوائے، آخری اوور بھی کراتا رہا، اسے قومی ٹیم کے لئے بیک اپ پول میں کیوں نہیں لایا گیا؟ رمیز راجہ نے ایک سال پہلے یہ خبر سنائی تھی کہ ہم پاور ہٹر کوچ کی خدمات لیں گے، کہاں ہے وہ پاور ہٹر کوچ؟
قومی کرکٹ ٹیم پر تنقید درست ہو رہی ہے، ٹیم مینجمنٹ، سلیکشن کمیٹی اور کرکٹ بورڈ پر اس سے بھی زیادہ سخت تنقید ہونی چاہیے۔ انہوں نے پچھلے ایک سال کے دوران ٹیم کی کمزوریاں دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بظاہر ہم نے بس مس کر دی ہے، اب قدرت ہی مہربانی کرے۔ وقت بچا نہیں، یہی ٹیم ورلڈ کپ جائے گی اور ایک بار پھر ہم دو تین کھلاڑی کی غیر معمولی کارکردگی اور دعائوں کے زور پر اچھا کھیلنے کی کوشش کریں گے۔ ایسا مگر کب تک ہوتا رہے گا؟