Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ramzan Resolution (2)

Ramzan Resolution (2)

آج کل ہر طرف سے چیختی چنگھاڑتی سیاسی خبریں آ رہی ہیں، ہر ایک کے جلو میں ہنگامہ خیز ی کے جھلک موجود ہے۔ موسم آج کل شدید گرم ہے۔ پیر کی شام دفتر میں روزہ افطار کیا، شام کو نیچے کمپائونڈ میں افطاری کیلئے گیا تو مغرب کے وقت بھی اتنا شدید حدت تھی کہ حیرت ہوئی۔ کراچی کی ہیٹ (Heat)ویووالا منظر بنا ہوا تھا، جیسے ہوا رک گئی ہو اور آدمی کسی تنور کے کنارے کھڑا اس کے شعلوں کی حدت برداشت کر رہا ہو۔

ایسی گرمی میں اگر سیاسی ٹمپریچر بڑھ گیا تو ٹکرائو کے کس قدر امکانات بڑھ جائیں گے؟ نگران وزرااعلیٰ کے لئے نام دیتے ہوئے تو باقاعدہ کامیڈی شو ہوئے، لوگ تحریک انصاف کی بوکھلاہٹ پر خوب ہنسے۔ ان پر ویسے برا وقت چل رہا ہے۔ ریحام خان کی کتاب ابھی آئی نہیں، مگر انصافین کارکنوں اور لیڈر حفظ ماتقدم کے طور پر ابھی سے مورچہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔ پہلے ہی سے غنیم پر تیر اندازی شروع کر دی۔

یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے فائدہ ریحام خان کو ہوگا۔ یہی شہرت تو اسے مقصود ہے۔ پبلسٹی کرانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، ٹھیک ٹھاک شہرت پہلے ہی مل گئی۔ خیر اس سیاسی ہنگامہ آرائی کے دنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں ان تماشوں سے کوئی غرض نہیں، ان کی تمام ترتوجہ رمضان مبارک کے مقدس لمحات کی طرف ہے، وہ زیادہ سے زیادہ اجر کمانا چاہتے ہیں، اسی مقصد کے لئے سوچ بچار کرتے رہتے ہیں۔ رمضان کے شروع کے دنوں میں " رمضان ریزولوشن" کے نام سے ایک کالم لکھا تھا۔

نئے سال کے موقعہ پر نیو ائیر ریزولوشن کے نام سے بہت سے لوگ وہ سال گزارنے کے لئے اپنے آپ سے کمٹمنٹ کرتے ہیں۔ ہر ایک کے اپنے مسائل اور وعدے ہوتے ہیں، کسی نے وزن گھٹانا، کسی نے سگریٹ نوشی یا کوئی اور علت چھوڑنی اور کسی اچھی عادت کو اپنانا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے عہد باندھے جاتے ہیں۔ خیال آیا کہ رمضان ریزولوشن کے نام سے کیوں نہ ہر رمضان میں اپنے لئے ضروری سمجھے جانے والے عہد کئے جائیں۔

رب تعالیٰ سے نصرت مانگی جائے تو یقینا رحمتوں والے مہینے کے صدقے ہمیں توفیق اور مدد نصیب ہوگی۔ اس آئیڈیے کوانٹر نیٹ کی دنیا میں کھنگالا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ان خطوط پر پہلے سے سوچ رہے ہیں۔ رمضان ریوزولوشن کے نام سے وہ کالم لکھ دیا، پھر جیساکہ ہمیشہ ہوتا ہے، تیز رفتار واقعات کے بہائو میں بہتا ہوا مختلف ایشوز کی طرف نکل گیا، ادھر مڑ کر دیکھ ہی نہ پایا۔ قارئین کا وہ حلقہ جسے اس خیال میں کشش محسوس ہوئی، اس نے اپنی توجہ ادھر مرکوز کی اور نہ صرف مختلف قسم کے رمضان ریزولوشن طے کئے بلکہ کئی مختلف آئیڈیاز بھی شیئر کئے اور اپنے فیڈ بیک کے ذریعے خاکسار کو بھی آگاہ کیا کہ میاں تم اِدھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہو، اس تصور کا دوبارہ احاطہ کرو۔

یہ کالم اسی فرمائش کا نتیجہ، بلکہ یہ سمجھ لیجئے کہ باعمل لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی سعی ہے، جنہوں نے ایک دھندلے تصور میں عمل کے رنگ بھرے۔ رمضان ریزولوشن کے فیڈ بیک میں آنے والے اکثر میسج اور ای میلز عبادات کے حوالے سے تھے۔ کئی لوگوں نے عہد کیا کہ وہ پنجگانہ نماز میں باقاعدگی لائیں گے، مسجد جا کر باجماعت عبادت میں شریک ہوں گے یا پھر اپنے روز مرہ کے معمولات میں تسبیحات شامل کریں گے۔

ایک دوست نے سیدنا علی ؓ سے سے مروی رات سونے کے معمولات بھیجے جس میں کئی ہزار دینا ر صدقہ، حج، قرآن پڑھنے کے ثواب والی تفصیل مذکور ہے۔ ویسے جدید تعلیم اور تشکیک آمیز زندگی نے ہم سے وہ سادگی اورخلوص چھین لیا ہے، جس کے پیش نظر خاموشی سے ان روایات پر عمل کر کے نیک اعمال بڑھائے جاتے تھے۔ آجکل معمولی ایشوز پر طویل فکری بحثیں ہوں گی، طرح طرح کے دلائل، کج بحثی مگر آخر میں معلوم ہوگا کہ سب کچھ خیال وخواب تھا، عمل صفر ہی رہا۔

بابا اشفاق احمد اسی لئے ایسے پڑھے لکھوں پر ان پڑھ مگر باعمل لوگوں کو ترجیح دیتے تھے۔ مجھے ایسے لوگوں پر ہمیشہ ترس آتا ہے جو محض اس لئے ہاتھ میں تسبیح نہیں لیتے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کہا یا فیس بک پر شیئر کیا کہ جب وقت ملے، سبحان اللہ، الحمداللہ یا درود شریف پڑھتا ہوں، تو لوگ ہنسیں گے۔ جن کلمات کی جناب رسول اکرم ﷺ نے تربیت دی اور تلقین کی کہ انہیں پڑھتے رہو، ان کے پڑھنے اور یہ بات بتاتے ہوئے احساس کمتری کا شکار ہوجانے والوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ ان لوگوں کے فیڈ بیک پر دلی خوشی ہوئی، جنہوں نے قرآن پاک ترجمہ سے پڑھنے کا ارادہ کیا۔

میرا پختہ یقین ہے کہ جس شخص نے کھلے دل ودماغ کے ساتھ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیا، اس کی زندگی بدل جائے گی۔ پھر کبھی وہ پہلے جیسی بے فکری اور بے عملی میں نہیں رہے گا۔ قرآن پاک مفہوم کے ساتھ پڑھنا اور سیرت طیبہ کا مطالعہ، زندگی تبدیل کرنے کا اس سے بہتر نسخہ موجود نہیں۔ ہمارے محترم صوفی سکالر سرفراز شاہ صاحب تو ہر اس شخص کو یہی نصیحت کرتے ہیں۔ جو روحانیت سیکھنے کا طلب گار ہو، اسے وہ بتاتے ہیں کہ سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کرو اور اس اپنی زندگی میں کاپی کرنے کی جتنی کوشش ہوسکتی ہے، کر گزرو، بتدریج زندگی بدلتی جائے گی۔ دو تین پیغامات چونکا دینے والے تھے، جنہوں نے خوشگوار حیرت سے دوچار کیا۔

ایک صاحب نے اپنے رمضان ریزولوشن میں عہد کیا کہ میں آئندہ سے تاحیات اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ ضرورت مندوں کی خدمت پر صرف کروں گا۔ یہ دس فیصد والی بات خوب ہے، بلکہ یہ ایک طرح کا فارمولا ہے، جدید سائنسی تحقیق کرنے والے بھی جس کے قائل ہیں، اس پرمزید گفتگو کو کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، آج رمضان ریزولوشن ہی کو نمٹاتے ہیں۔ دو ڈھائی سال پہلے ایک جاننے والے دوست کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ ہر گرمی کے موسم میں اپنے پس انداز کئے پیسوں سے کسی مستحق رشتے دار یا محلے دار کو یوپی ایس لگوا دیتے ہیں تاکہ لوڈ شیڈنگ کا مداوا ہوسکے۔

گزشتہ روز ایک خاتون نے بھی اپنے رمضان ریزولوشن میں وہی عہد دہرایا کہ وہ آئندہ سے ہر موسم سرما میں ایک خاندان کو یوپی ایس لگوا دیں گی۔ ایک صاحب نے لمبی چوڑی ای میل کر کے اپنے بچپن کے واقعات سنائے، جب فریج نہ ہونے کے باعث وہ پریشان ہوتے اور ہمسایوں کے گھر ٹھنڈا پانی پینے جاتے۔ انہوں نے اپنے رمضان ریزولوشن میں ہر موسم گرما میں کم از کم ایک گھر کے لئے ایسی مشکل رفع کرنے کا عہد کیا۔ بڑے شہروں میں تو عام طور سے ہر ایک گھر میں فریج مل جاتا ہے، گھروں میں کام کرنے والی ملازم خواتین میں سے بہت سی البتہ اس سے محروم ہوتی ہیں، چھوٹے شہروں اور قصبات، گائوں میں ایسے بہت گھر مل جاتے ہیں۔ اسی طرح بچوں، بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے کئی لوگوں نے خود سے کمٹمنٹ کی۔ طریقہ سادہ ہے کہ اپنے خاندان، گلی، محلے، دفتر میں دیکھیں کہ کسی نادار گھرانے کے بچوں کو تعلیم کی غرض سے مدد کی ضرورت ہے تو خاموشی سے اپنے وسائل کے مطابق ان کی مدد کردیں اورمستقل بنیادوں پر کرتے رہیں۔

ایسے سفید پوش لوگ ہمارے آس پاس بہتیرے ہیں، جن کے وسائل محدود ہیں، مشکلات زیادہ، مگر خاندانی شرافت اور خود داری کی وجہ سے وہ ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، مدد بھی قبول نہیں کرتے۔ ان کے لئے مختلف طریقے سوچیں، اس حکمت اور دانشمندی سے مدد کریں کہ ان کی عزت نفس بھی برقرار رہے اور آپ کا سر بھی تکبر سے بلند نہ ہو۔ یہ مشکل ٹاسک نہیں، آدمی اپنے آپ کو اس جگہ رکھ کر سوچے تو حل نکل آتا ہے۔ مدد کی جائے، اس طریقے سے کہ لینے والا شرمائے ناں۔

قرض حسنہ ایک بہت اچھی آپشن ہے، جس میں آپ قرض دیتے ہو، مگر لینے والے پر وقت کی قید نہیں لگاتے۔ اسے سہولت دے دیتے ہیں کہ جب ہو جائیں، تب دے دے۔ اگر اس نے دے دیے تو بہت خوب، نہ دئیے تو آپ واپس لینے یا یاد کرانے کا نہ سوچیں۔ اخوت کے سربراہ، محترم ومکرم ڈاکٹر امجد ثاقب قرض حسنہ کے حوالے سے ہمیشہ وہ حدیث یاد دلاتے ہیں کہ اس کا اجر صدقہ سے دوگنا ہے۔ ایک اہم بات یاد رکھیں کہ رب تعالیٰ کو انسان کے جذبے اور خلوص سے سروکار ہے، نوٹوں کی بوریاں اس کے لئے بیکار ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق کریں، کچھ ایثار کرتے ہوئے کر گزریں تو مزید اجر ہوگا، لیکن اپنے آپ کومصیبت میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔

ایک رمضان کمٹمنٹ بھلی لگی، ایک صاحب نے لکھا کہ انہوں نے اپنے ڈرائیور سے صرف آٹھ گھنٹے کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ جتنا سرکاری وقت ہے صرف اتنا کام لیا جائے اور جتنی کم از کم سرکاری تنخواہ ہے، اس سے زیادہ دینے کاعہد۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنے ملازمین کو غلام سمجھتے ہیں، حالانکہ خود جہاں ملازمت کرتے ہیں، وہاں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام لینے کو ظلم سمجھتے ہیں، تو اپنے ملازمین کے لئے بھی وہی اصول استعمال کیا جائے۔ بہت خوب، اللہ ان کے ارادے میں برکت عطا فرمائے۔

رمضان ریزولوشن میں آخری عشرے کے اعمال کے حوالے سے بہت سی کمٹمنٹس کا اظہار کیاگیا۔ دیکھیں، رب تعالیٰ سب کو اتنی ہمت اور توفیق دے۔