Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Roshan Shamain

Roshan Shamain

یہ کوئی پندرہ سولہ برس پرانی بات ہے، ایک دن ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے ملنے کے لئے اردو ڈائجسٹ کے دفتر جانا ہوا۔ اردو ڈائجسٹ کا ادارہ لاہور کے بہت سے صحافیوں کے لئے ایک تربیتی ادارے کا کام کرتا رہا ہے۔ جناب مجیب الرحمن شامی، ضیا شاہد، ہارون الرشید، سجاد میر، سیدارشاد احمد عارف، شریف کیانی، خالدہمایوں، رئوف طاہر اور کئی دیگر سینئر صحافی اردو ڈائجسٹ اور زندگی کا کسی نہ کسی سطح پر حصہ بن چکے ہیں۔

ہمارے جیسے عامی بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے ناتجربہ کاری کی عمر میں اسی ادارے سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ جو تھوڑا بہت قلم گھسیٹنا آیا، اسی ادارے سے سیکھا۔ اردو ڈائجسٹ کا دفتر کئی عشروں تک سمن آباد کے پہلے گول چکر کے قریب رہا۔ یہ ڈاکٹر اعجازقریشی صاحب کا گھر تھا، اوپر کی منزل پرڈاکٹر اعجاز قریشی صاحب کے اہل خانہ مقیم تھے، نیچے ڈائجسٹ کا دفتر تھا۔ تین چار سال کام کرنے کے بعدمیں ڈائجسٹ چھو ڑ کرپہلے جنگ، پھر ایکسپریس کا حصہ بن گیا، مگر اپنے پرانے دفتر سے ایک خاص قسم کی کشش اور وابستگی محسوس ہوتی تھی۔

جب کبھی وقت ملا، چکر لگایا، ڈاکٹر اعجاز قریشی صاحب سے چائے پی، ان کا موٹی ویشنل لیکچر سنا، وزن کم کرنے کے دو چار نسخے نہایت دلچسپی اور یکسوئی سے سن کر نوٹ کئے اور یوں "بیٹری"چارج کرانے کے بعد واپس آ گیا۔ الا ماشااللہ کبھی ہمارا وزن کم ہوا نہ ڈاکٹر صاحب کے تیر بہدف، آزمودہ نسخوں کی فراہمی میں کمی آئی۔ خیر مجھے یاد پڑتا ہے کہ2002ء کے آواخر میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک طالبہ کی کہانی سنائی، میرٹ بنانے کے باوجود وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ نہ لے پائی کہ فیسوں کے پیسے نہیں تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے خبر پڑھی تو اس بچی کا مسئلہ حل کردیا، مگر پھر انہیں خیال آیا کہ ملک بھر میں نجانے کتنے اعلیٰ صلاحیت والے، مگر نادار بچے، بچیاں وسائل نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کر پائیں گے۔ اسی سوچ نے انہیں " کاروان علم" بنانے کی ترغیب دی۔ ایک ایسا ادارہ جو ملک بھر کے بے وسیلہ طلبہ وطالبات کی مدد کر سکے۔ ڈاکٹر اعجازصاحب سے ان دنوں جب کبھی ملاقات ہوئی، وہ کاروان علم کی باتیں کرتے رہتے۔

اپنی بیماریوں اور پیرانہ سالی کے باوجود وہ نہایت پرجوش تھے کہ نادار طلبہ کے لئے ایسا ادارہ بنایا جائے جومشکلات میں کمی لے آئے۔ تب کاروان علم فائونڈیشن قائم ہوئی۔ یہ سفر پچھلے چودہ پندرہ برسوں میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ ہمارے دوست خالدارشاد صوفی" کاروان علم" سے انہی دنوں میں وابستہ ہوئے اورحق تو یہ ہے کہ انہوں نے اس ادارے کو اٹھا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آج کاروان علم فائونڈیشن چیریٹی کے کام کے حوالے سے ایک برانڈ اورقابل اعتمادنام ہے۔

پچھلے چند برسوں کے دوران چھ ہزار کے قریب طلبہ، طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے لئے چودہ کروڑ کے قریب وظائف تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ ان میں پونے چودہ سو کے قریب میڈیکل کے طلبہ، ساڑھے چودہ سو انجینئرنگ اور باقی ایم ایس سی، ایم بی اے، ایف ایس سی، بی ایس سی وغیرہ کے طالب علم ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کو دئیے گئے عطیات کی رقوم پر حکومت پاکستان کی طرف سے ٹیکس استثنا دیاگیا ہے۔ www.kif.com.pkسے مزید معلومات لی جا سکتی ہیں۔

کاروان علم فائونڈیشن کی طرح کئی ایسے ادارے ہیں جو مختلف شعبوں میں دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے ادارے، تنظیمیں مجھے ایسی روشن شمعیں لگتی ہیں جنہیں دیکھ کر مایوسی ختم ہوتی اور امید جاگ اٹھتی ہے۔ معروف آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار حسین بٹ اورپی اوبی (Prevention of Blindness)کو دیکھ کر ایسا ہی خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انتظار سیالکوٹ کے خواجہ صفدر میڈیکل کالج میں آئی کے پروفیسر ہیں، انہوں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر زاہد لطیف کے ساتھ مل کر پی اوبی کی بنیاد ڈالی۔

پچھلے چند برسوں سے اس پلیٹ فارم کے تحت پاکستان بھر میں سینکڑوں فری آئی کیمپ لگائے جا چکے ہیں، جن میں پچاس ہزار کے قریب سفید موتیے کے مفت آپریشن کئے گئے۔ پی او بی کے ڈاکٹروں کے بعض کیمپس میں جانے کا اتفاق ہوااور ہر بار دل شاد ہوا۔ ایسے آئی سرجن جو اگر ایک دن نجی پریکٹس کریں تو ہزاروں، لاکھوں کما سکتے ہیں، وہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر سینکڑوں میل دور فری آئی کیمپس میں شرکت کرتے اورایک دن میں درجنوں، بیسیوں آپریشن کر ڈالتے۔ ڈاکٹر انتظار کے ساتھ میں نے نائجیریا کا سفر کیا ہے۔

فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (FINA)مشہور عالمی تنظیم ہے، ا سکے آئی کیئر ویژن پروگرام کے تحت دنیا کے کئی ممالک میں فری آئی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ پسماندہ افریقی ممالک کو ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ وہاں ہزاروں، لاکھوں آنکھوں کے مریض ہیں اور ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر۔ سوڈان، صومالیہ، نائیجریا، مالی، برکینا فاسو، چاڈ وغیرہ میں بے شمار کیمپ ہوچکے ہیں۔ مجھے نائجیریا کی دو ریاستوں میں لگائے گئے فری آئی کیمپ دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ ایسا چشم کشا تجربہ تھا، جسے کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔

پاکستانی ڈاکٹرز کے علاوہ، سعودی عرب، اردن وغیرہ سے بھی ڈاکٹر آئے تھے۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے ایک ایک دن میں سو سو آپریشن کر ڈالے۔ غریب افریقی مریض سفید موتیے کے آپریشن کے بعد جس ممنونیت سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اور دعائیں دیتے، وہ منظر ناقابل فراموش تھا۔ ڈاکٹر انتظار بٹ سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی، پی او بی کے مختلف پروگراموں کے لئے وہ ہمیشہ کی طرح پرجوش تھے۔ بتایا کہ اس سال پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA)نے بھی پی اوبی کے لئے چیریٹی پروگرام کرنے کا اعلان کیا ہے، رمضان میں مختلف چیریٹی پروگرام ہو رہے ہیں۔

پی اوبی ٹرسٹ نے عطیات دینے والوں سے اپیل کی ہے کہ ایک مریض کو اڈاپٹ کر لیں، یعنی اس کے سفید موتیے کے مفت آپریشن کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھائیں۔ یہ پانچ ہزار روپے بنتے ہیں۔ اخوت تو آج چیریٹی تنظیموں میں بہت بڑا نام بن چکا ہے۔ اس کے بارے کچھ مزید کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے ساتھیوں ڈاکٹر اظہار ہاشمی، پروفیسر ہمایوں احسان، ڈاکٹر کامران شمس وغیرہ نے غیرمعمولی کام کر دکھایا۔

اخوت سے ان دنوں متعارف ہوا، جب ابھی چند لاکھ کا کام ہوا تھا، آج اخوت لاکھوں گھرانوں کی تقدیر بدل چکی ہے۔ اخوت جیسے اداروں کو مضبوط بنانا قوم اور ملک کو مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر اس فہرست میں الخدمت، مسلم ہینڈز اور غزالی ٹرسٹ سکول جیسے اداروں کا نام نہ لیا تو یہ کالم ادھورا رہ جائے گا۔ الخدمت بھی اخوت اور ایدھی کی طرح کا ایک بہت بڑا اورنہایت قابل اعتماد نام بن چکا ہے۔

الخدمت کے سربراہ عبدالشکور بھائی اور دیگر وابستگان نے دن رات ایک کر کے ملک کے ہر کونے میں الخدمت کا نیٹ ورک بچھا دیا ہے۔ تھر پارکر کے ستم رسیدہ لوگ ہوں، بلوچستان کے متاثرین آفات ہوں، جنوبی پنجاب کے سوختہ ساماں عوام یا خیبر پختون خوا کے دور افتادہ علاقوں کے پریشان حال، گلگت بلتستان کے برفباری میں گھرے مکین، الخدمت کے جانثار کارکن ہر ایک کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ اسی طرح غزالی ٹرسٹ سکولز کا ادارہ ہے۔ دو عشرے پہلے ایک کلاس، ایک کمرہ کے تصور کے تحت غریب بچوں کے لئے یہ سکول بنائے گئے۔ ضروریات کے مطابق یہ پراجیکٹ پھیلتا گیا، ایک کمرے کی جگہ پورے سکول نے لے لی۔

ایک سے آج سینکڑوں سکول بن گئے، دورافتادہ علاقے جہاں دور دور تک کوئی سکول موجود نہیں، وہاں غزالی ٹرسٹ سکول انہیں معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ غزالی کے چیف ایگزیکٹو عامر محمود صاحب اعلیٰ ترین تعلیم کے باوجود اپنا کیرئر تج کرخدمت کے جذبے کے ساتھ اس لائن میں آئے۔ وہ اور اس تنظیم کے دیگر وابستگان دینی جذبہ رکھنے والے لوگ ہیں، اس لئے اچھی تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔

مجھے غزالی سکولز کی بعض کتب دیکھنے کا اتفاق ہوا، خوشگوار حیرت ہوئی کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کے لئے خاص طور سے بہت سی مشقیں اور سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ دیگرروایتی مذہبی لوگوں کے برعکس غزالی ٹرسٹ سکولز نے غیر مسلم بچوں کے لئے بھی سکول شروع کئے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں غریب غیر مسلم رہتے ہیں اور وسائل نہ ہونے کے باعث وہ اپنے بچے پڑھنے نہیں بھیج سکتے، غزالی ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو نے ایک بار تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ہم اقلیتی کمیونٹی کے ان بچوں کی مدد کر رہے ہیں کہ بطور مسلمان ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان غیر مسلم بچوں کو علم سے دور نہ ہونے دیں۔

مسلم ہینڈز کا دائرہ کار یورپ، ایشیاء اور افریقہ تک وسیع ہے اور پاکستان میں بلوچستان، تھر، جنوبی پنجاب اور دیگر پسماندہ علاقے خصوصی ہدف ہیں۔ سید لخت حسنین اور ضیاء النور کی ہمت قابل داد ہے۔ ادارے ہمارے ہاں اور بھی بہت سے کام کر رہے ہیں، ایک کالم میں سب کے نام گنوانا ممکن نہیں، جن چند اداروں سے قریبی تعلق رہا اور ان کے کام سے اچھی طر ح مطمئن ہوں، انہی کا حوالہ دیا۔ انفرادی چیریٹی میں پاکستانی عوام کا دنیا بھر میں ممتاز درجہ ہے، اچھے اداروں کو مضبوط بنانے پر زور دینا چاہیے کہ اس طرح زیادہ منظم طریقے سے اچھا کام ہوسکتا ہے۔

یہ سب روشن شمعیں، جگمگاتی مشعلیں ہیں، انہیں بجھنے نہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ رمضان تو خاص طور سے عطیات اور صدقہ، خیرات کا مہینہ ہے، مگر ایسے اداروں کو ہمیں سال بھر یاد رکھنا چاہیے۔