Safar Turkey Ke Mushahidat
Amir Khakwani113
ترکی کا سفر پہلے بھی کر چکا ہوں، چھ سات سال پہلے لاہور کے چند صحافیوں کا وفد استنبول کے ایک ہفتے کے دورے پر گیا تھا۔ محترم مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی صاحب، عبدالرئوف صاحب (پچاس منٹ فیم)اور برادرم رئوف طاہر کے ساتھ مجھے بھی جانے کا موقعہ ملا۔ ترک میزبانوں نے استنبول کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو دکھانے کی سعی کی۔ اس بار وقت کم اور سفر تیز تر رہا۔ استنبول میں دو تین دن رہے اور پھر غازی انتب اور شانلا عرفہ جیسے شامی سرحد کے قریب واقع شہروں میں بھی جانا پڑا۔ چیریٹی تنظیم الخدمت کے وفد کے ساتھ گئے، مقصد شامی مہاجرین کیمپوں میں امدادی سامان کی تقسیم اور غازی انتب میں شامی یتیم بچوں کے لئے بنائے گئے یتیم خانہ" آغوش "کا افتتا ح تھا، دو تین بڑی چیریٹی تنظیموں کے دفاتر کا دورہ اورذمہ داران سے ملاقاتیں کیں۔ چند دنوں میں کسی بھی شہر کے بارے میں کیا جانا، سمجھا جا سکتا ہے؟ ایک جھلک سی دیکھی اور دکھائی جا سکتی ہے، اسی کی کوشش کروں گا۔ ترکی میں تین چار چیزیں بڑی نمایاں اور واضح ہیں، وہاں جانے والے پاکستانی کو فوراً محسوس ہوجاتی ہیں۔ پہلی بات ترکوں کی خوش ذوقی اور صفائی پسندی ہے۔ استنبول بین الاقوامی شہر ہے، وہاں ہر سال کئی ملین غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ غازی انتب اور شان العرفہ نسبتاً چھوٹے ہیں اور مرکز سے کئی سو کلومیٹر واقع ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے دورافتادہ شہروں میں کہلائے جا سکتے ہیں۔ ہر جگہ مگرانتہائی درجے کی صفائی، نفاست اور خوش سلیقگی نظر آئی۔ اسے ترک قوم کی نفاست اور صفائی پسندی کہا جا سکتا ہے اور ان کے حکمرانوں کی اچھی پلاننگ اور اپنے شہروں کو خوبصورت بنانے کا شوق بھی قرار دے سکتے ہیں۔ استنبول کی میٹرو کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں کاپی کیا اور پھر پنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں اس تجربے کو دہرایا۔ فلائی اوور اور انڈرپاسز استنبول میں بھی خاصے ہیں، مگر وہاں سبزے کی کثرت نظر آئی۔ انہوں نے کہیں پر مٹی رہنے نہیں دی۔ ہر جگہ پختہ فٹ پاتھ یا پھر خوبصورت لش گرین سبزے کے پلاٹ۔ اگر انڈر پاس ہے تو اس کی بیرونی بلند دیوار پر اوپر تک سبزہ۔ لاہور میں ایک آدھ جگہ پر ایسا کرنے کی کوشش کی، مگربات بنی نہیں۔ دراصل یہ ترک اور پاکستانی حکمران کے ذوق کا فرق تھا۔ جس حکمران کو درختوں، سبزے سے دلچسپی نہ ہو، کنکریٹ کے پل، سڑکیں، فلائی اوورز اہم ہوں، اس کی ترجیح میں کس طرح یہ درخت، پودے، سبزہ آ سکتے ہیں؟ دوسری اہم بات ترکوں کی پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے محبت اور گرم جوشی ہے۔ یہ بات بہت بار سنی، پچھلی بار گئے تو محسوس بھی ہوئی، اس بار اس کا خاص طور سے مشاہدہ کیا۔ ترکی میں مقیم کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی، جو روانی سے ترکی زبان بول سکتے اور وہاں کئی برسوں سے مقیم تھے۔ ان سے کرید کرید کر پوچھتا رہا۔ معروف ترک چیریٹی تنظیم" حیرات" کے ساتھ کام کرنے والے تصور عباس سے تفصیل سے اس پر گپ شپ ہوتی رہی، الخدمت کے ترکی میں نمائندے عمر فاروق مختلف مسلم چیریٹی تنظیموں کے نیٹ ورک یونیف کے ساتھ منسلک ہیں، عمر فاروق اچھی ترکی بولتا ہے، اس حوالے سے ڈسکس ہوتا رہا۔ انقرہ کی معروف انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم صبیح نے بھی ہمارے ساتھ دو تین دن گزارے، اس کے والد شاہد صاحب وفد کا حصہ تھے۔ ہنس مکھ صبیح سے ترک طالب علموں کا مزاج اور یونیورسٹی کا ماحول سمجھنے میں مدد ملی۔ انگریزی سمجھنے والے ترک میزبانوں سے بھی استفسار کرتے رہے۔ سب اس پر متفق تھے کہ ترک عوام پاکستان اور پاکستانیوں کی دل سے محبت کرتے ہیں اور یہ صرف سنی سنائی بات یا بیانیہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب ترکوں پر افتاد آ پڑی اور ترک فوجیوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی، اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دینے کی نیت سے تحریک خلافت چلائی، بے شمار مسلمان خواتین نے اپنے زیور عطیہ میں دئیے کہ یہ رقم ترک فوجیوں کو بھجوائی جائے تاکہ وہ اسلحہ وغیرہ لے سکیں۔ اس کا اثر اتنا گہرا اور دوررس پڑا کہ آج ایک صدی گزر جانے کے باوجود ترک قوم کے حافظے اور دل سے وہ یادیں محو نہیں ہوسکیں۔ ایک ترک میزبان سے میں نے حیرت سے پوچھا کہ تین چار نسلیں گزر گئیں، ابھی تک آپ کو وہ بات یاد ہے؟ مسکرا کر وہ بولے کہ ترک اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بازاروں میں گھومتے، خریداری کرتے جس کسی کو پتہ چلتا کہ پاکستانی ہیں تو وہ محبت سے گلے لگا لیتا، برملا کہتا کہ پاکستان ہمارا دوسر اگھر ہے۔ خریداری میں رعایت کر دیتے اور چھوٹا موٹا گفٹ ویسے بھی دینے پر تیار ہوجاتے۔ الخدمت کے وفد کا تذکرہ ہو رہا ہے تو بتاتا چلوں کہ ہمارے ساتھ کراچی سے الخدمت کے صوبائی جنرل سیکرٹری راشدقریشی، نعمت اللہ خان کے دور میں جماعت اسلامی کی جانب سے سابق ٹائون ناظم محمدشاہد صاحب، میمن برادری سے تعلق رکھنے والے الخدمت کمیونٹی سنٹرز کے ذمہ دار عبدالرحمن صاحب، سینئر پروگرام منیجرسفیان احمد خان، پشاور سے تعلق رکھنے والے آغوش مراکز کے ڈائریکٹر شاکر اللہ صدیقی، الخدمت کے صوبائی ذمہ دار وقاص خالد، لاہور سے میڈیا کے ذمہ دار علی زیشان، فارن ڈیسک کے احمد طور، ڈاکٹر خبیب شاہد، الخدمت کے دیرینہ ڈونر بشیر احمد مغل صاحب مع اہلیہ محترمہ شریک تھے، کراچی سے محترمہ منوراخلاص صاحبہ اور دیگرخواتین بھی وفد میں شامل تھیں۔ وفد کے سربراہ کا پہلے بتا چکا ہوں کہ عبدالشکور صاحب تھے۔ ترکوں کی نمایاں خصوصیات کی بات ہو رہی تھی، تیسری اہم چیز ترکوں کا نیشنل ازم کا جذبہ ہے۔ وطن پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہمیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ آق پارٹی کے دفتر کا دورہ کیا، اندلونہ نیوز ایجنسی بھی گئے، اخوان المسلموں سے متاثرہ عربوں کی تنظیم عطا کے دفتر بھی گئے، مشہور ترک صوفی سکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے شاگردوں سے ملے، اور لوگ بھی ملتے رہے۔ دو تین حوالے سے لوگ یکسو لگے۔ ترکی کے حوالے سے ہر کوئی پرامید، خوش گمان اور کبھی تو یہ لگا کہ ایک طرح کی رومانوی نرگسیت کی جھلک بھی ہے۔ عثمانیہ سلطنت پر تفاخر شائد ترکوں کے لاشعور کا حصہ بن چکا ہے۔ کمالسٹوں نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت آخری عثمانی خلفا کے خلاف پروپیگنڈہ کیا، مگر وقت کے ساتھ وہ دم توڑ چکا ہے۔ نیشنل ازم ترکوں کو سیاسی اختلافات کے باوجود ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ طیب اردوان اس وقت ترکی کے مقبول ترین لیڈر ہیں، خیر یہ تو الیکشن نے بھی ثابت کردیا۔ طیب اردوان سے اختلاف کرنے والے بھی اپنی مخالفت کو اس حد تک نہیں بڑھانا چاہتے کہ ملک کو نقصان پہنچے۔ یہ وہ فرق ہے جو مڈل ایسٹ کے کئی عرب ممالک میں نہیں روا رکھا گیا، اس کے مضمرات بھی انہیں بھگتنے پڑے۔ نوجوان طالب علم صبیح نے بتایا کہ یونیورسٹیوں میں بعض طلبہ طیب اردوان کے مخالف ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ جیسا بھی ہے، ترکی کو آگے تو لے کر جا رہا ہے، اچھے کام تو کر رہا ہے۔ سید فتح اللہ گولن اور ان کی حذمت فائونڈیشن کا مستقبل اللہ ہی بہتر جانتا ہے؟ ہمیں تو جو بھی ملا، وہ ان کے خلاف بولتا نظر آیا۔ اس تنظیم کو ترکی میں فیٹو کہتے ہیں، کیا سیکولر، کیا اسلامسٹ، طالب علم، صوفی اور حتیٰ کہ خود بدیع الزماں سعید نورسی کے اپنے شاگرد تک گولن موومنٹ کے مخالف اور سخت نقاد ملے۔ یاد رہے کہ خودفتح اللہ گولن بھی نورسی صاحب کے شاگردوں میں سے ایک ہیں، گولن نے سعید نورسی پر کتاب بھی لکھی ہے۔ شانلہ عرفہ کے ایک خوبصورت ہوٹل میں ترک لسی کے ساتھ کباب اڑاتے ہوئے ہم نے نورسی صاحب کے ایک محترم شاگرد سے طویل داستان سنی، جس کانچوڑ ایک جملے میں یہی تھا کہ دنیا میں چنگیر خان، ہلاکو اور ہٹلر وغیرہ کے بعد جو سب سے زیادہ خطرناک، سازشی اور فتنہ پرور شخص وارد ہوا، اس کا نام فتح اللہ گولن ہے۔ کہنے لگے کہ ہم نے طیب اردوان کو پہلے ہی مل کر خبردار کیا تھا کہ گولن سی آئی اے کا پروردہ ہے اوراسرائیل سے زیادہ خطرناک ہے، مگر اس وقت اردوان نہیں سمجھ پائے، فوجی بغاوت کے بعد البتہ ان پر حقیقت آفشا ہوئی اور اب انہوں نے اس خفیہ تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ ان کی اس طولانی تقریر پر بعض سوالات تو ذہن میں پیدا ہوئے کہ ماضی میں ہم بھی گولن موومنٹ پر کالم نگاری فرماتے رہے ہیں، مگر پھرخاکسار نے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ پہلے کچے قیمے کی ٹکیاں یعنی "چی کوفتہ" دیدہ زیب فریش سلاد کے ساتھ نوش کیا، پھر ترک پیزا نما روٹی لحماچوں کھائی اور پھر تلے ہوئے بینگن کے ٹکڑوں، ابلے ٹماٹر اور چار انچ طویل سبز مرچ کو دور سے سلام کرتے، مٹن، بیف اور چکن باربی کیو کی سیخیں اڑاتے ہوئے یخ لسی کی ایک بوتل حلق میں انڈیلی، دوسری کا آرڈر دیا اورطمانیت بخش ڈکار لیتے ہوئے دل میں سوچا، بھیا جی، ترک اپنے حالات اور معاملات بہتر جانتے ہیں، ہم کیوں پرائی آگ میں ہاتھ جلائیں، ویسے بھی پرانا محاورہ ہے، ماں سے زیادہ چاہے، پھاپھا کٹنی کہلائے۔ ترک قوم جانے اور گولن مع اپنی تنظیم فیٹو جانے۔ ہماری محبتیں اور خلوص ترکوں کے لئے غیر مشروط ہے۔ باتیں ابھی باقی ہیں، چلیں اگلی نشست کے لئے انہیں اٹھا رکھتے ہیں۔ سفر ترکی کے مشاہدات