Saneha Mastoong
Amir Khakwani107
بعض مناظر اور تصاویر دل میں ایسی ترازو ہوجاتی ہیں کہ برسوں بعد بھی ان کا لگایا زخم مندمل نہیں ہوپاتا۔ بھولی بسری یادوں اورزندگی کے پرانے واقعات کویاد کرنااصطلاح میں ناسٹلجیا کہلاتا ہے۔ اپنے ناسٹلجیا کے اس دکھی، نہ بھول سکنے والے حصے کو تازہ کروں تو کئی تصاویر لاشعور، تحت الشعور سے اچھل کر ذہن میں آ جاتی ہیں۔ زلزلے کے دلگداز کہانیاں یاد آتی ہیں جس نے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے کئی علاقوں کو تہہ وبالا کر دیا تھا۔ زلزلے کے چند دن بعد ان علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لینے گیا۔ ایسے ایسے روح فرسا واقعات سنے کہ دل بند ہونے لگتا۔ مجھے یاد ہے کہ بالاکوٹ میں ایک تباہ شدہ جگہ پر کچھ لوگوں سے بات ہو رہی تھی، ایک پچیس چھبیس سالہ شخص عجیب سے انداز میں مسکرانے لگتا۔ حیرت ہوئی کہ اموات کا سن کر یہ مسکرا رہا ہے، کچھ دیر بعد کسی نے بتایا کہ اس کے خاندان کے آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں، والدین، بھائی، بہنوں میں سے کوئی بچا ہی نہیں۔ تب اس کی زخمی مسکراہٹ سمجھ میں آئی۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروڈیوسر کی پوسٹنگ ان دنوں مظفر آباد تھی، صبح جب زلزلہ آیا وہ باتھ روم میں شیو کر رہے تھے، گھبرا کر نکلے، ساتھ والے کمر ے کی چھت گر گئی، وہاں ان کے تینوں بچے سو رہے تھے۔ چند لمحات میں ان کی دنیا ہی لٹ گئی۔ ریڈیو کے جریدے آہنگ میں اس کی روداد شائع ہوئی، سرخی تھی، " جس کی امانت تھی، اسے لوٹا دی"۔ برسوں بعد میں ان صاحب سے ملاقات ہوئی، کسی نے اس واقعے کا تذکرہ چھیڑا اور وہی سرخی دہرائی، دل گرفتہ والد کے چہرے پر جو تاثر ابھرا، اسے کبھی بھلا نہیں سکتا۔ 2010ء کے سیلاب کے بھی بڑے ہولناک قصے ہیں، ایک ہی دن میں بہت سے گھرانے سڑک پر آ گئے۔ دکھ اپنی مکمل ننگی اور بے رحم شکل میں ایسی جگہوں پر عیاں ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان میں ہزاروں لوگوں کو نشانہ بنایا ہے، ہم نے تو کئی طرح کی دہشتگردی بھگتی۔ پاکستانی طالبان کی دہشت گردی زیادہ نمایاں رہی، ان سے نقصان بھی بہت ہوا۔ کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کا نشانہ بنانے والے نہتے عوام بھی کم نہیں تھے، خاص کر کوئٹہ میں مظلوم ہزارہ آبادی کا بہت خون بہا۔ دہشت گردی کی ایک تیسری شکل بلوچستان میں شدت پسند قوم پرست بلوچ تنظیموں کی صورت میں آئی۔ اللہ نذر کی بی ایل ایف، حیربیار مری کی بی ایل اے اور براہمداغ بگٹی کی بی آر اے۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نے خاص طور سے نان بلوچی سیٹلرز کو نشانہ بنایا۔ ہزاروں پنجابی، اردو سپیکنگ اور سرائیکی مزدور، حجام، محنت کش نشانہ بنے۔ ایک فیز میں تو پشتون اور سندھی مزدوروں کو بھی مارا گیا۔ اہم بلوچ شخصیات پر بھی حملے ہوئے، مقصد یہ تھا کہ کوئی ان کے خلاف کھڑا نہ ہو۔ مستونگ کے سانحہ میں شہید ہوجانے والے بھی اسی دہشت گردی کا ہدف بنے۔ رئیسانی قبیلے کے نواب زادے سراج رئیسانی پر یہ حملہ ہوا۔ بدقسمتی سے میں اس سانحے سے پہلے سراج رئیسانی سے واقف نہیں تھا۔ اب ان کی کچھ تصاویر سامنے آئیں، مقامی صحافیوں سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ پاکستان نے ایک انمول ہیرا کھو دیا۔ محترم اوریا مقبول جان سے فون پر بات ہوئی، وہ مستونگ کے ڈی سی رہے ہیں، انہوں نے بہت سی دلچسپ باتیں سنائیں۔ سراج رئیسانی نہایت دلیر، بے خوف اور نڈر انسان تھے۔ شدت پسند دہشت گردوں کے خلاف وہ سر اٹھا کر کھڑے رہے اور آخری سانسوں تک مزاحمت کی۔ معلوم ہوا کہ چند سال پہلے مستونگ سٹیڈیم میں دہشت گرد حملے کے نتیجے میں سراج کے صاحبزادے شہید ہو گئے۔ شروع میں یہ تاثر دیا گیا کہ شائد یہ حملہ ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان نے کرایا ہے۔ بلوچستان کے قبائلی سیٹ اپ میں مگر یہ باتیں چھپتی نہیں اور اصل نام سامنے آ جاتے ہیں۔ سراج رئیسانی کو جب علم ہوا کہ یہ حملہ بی ایل اے نے کرایا ہے، تو بجائے خوفزدہ ہونے کے وہ کھل کر سامنے کھڑے ہوگئے اور آخری سانس تک لڑتے رہے۔ رئیسانی خاندان ہمیشہ سے پرو پاکستان رہا ہے، سراج کے والد چیف آف ساراوان نواب غوث بخش رئیسانی پرو پاکستان عناصر میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ سراج رئیسانی نے اپنے دبنگ مزاج کے تحت چودہ اگست پر اپنی گاڑی پر قومی پرچم سجا کر گھومنا شروع کر دیا، وہ یوم پاکستان تیئس مارچ پر اپنا ویڈیو میسج جاری کرتے، بلوچستان خاص کر مستونگ کے مقامی پس منظر میں یہ غیر معمولی جرات کا مظاہرہ تھا۔ اپنی تحقیق وتفتیش کے نتیجے میں سراج پر واضح ہوگیا تھا کہ ان دہشت گرد تنظیموں کی فنانسر بھارتی خفیہ ایجنسی را ہے، اپنے جذباتی مزاج کے تحت انہوں نے بھارتی پرچم کو پیروں تلے روند کر تصاویر بنائی اور سوشل میڈیا پر نشر کر دیں، معلوم نہیں کہاں سے بھارتی جھنڈے کے رنگوں والے جوتے بنوائے اور انہیں پہن کر تصویر بنوائی۔ وہ اپنے جلسوں میں کھل کر عوام کو بتاتے کہ ان نام نہاد بلوچ قوم پرست شدت پسندوں کے پیچھے کس ملک کا سرمایہ موجود ہے۔ سراج رئیسانی پہلی بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے اور مقامی رپورٹروں کے مطابق وہ ایسی ایسی جگہوں پر کارنر میٹنگ اور جلسے کرنے گئے، جو شدت پسندوں کا گڑھ تھیں۔ اپنے قبائلی محافظوں کے ساتھ وہ ہر جگہ چلے جاتے اور دلیری سے اپنے موقف کا اظہار کرتے۔ اسی لئے انہیں ہدف بنایا گیا۔ سراج رئیسانی اور اس سانحہ میں دیگر شہدا کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ داعش کی کارروائی ہے، ایک فیک آئی ڈی والے پیج سے اس کی ذمہ داری قبول بھی کی گئی۔ یہ بات منطقی اور تجزیاتی طور پر بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ داعش، لشکر جھنگوی یا ٹی ٹی پی کا بھی سراج رئیسانی سے کیا لینا دینا؟ وہ کوئی مذہبی شخص نہیں تھے، سراج رئیسانی معروف سیاسی شخصیت بھی نہیں تھے، میڈیا اور قومی سطح پر اس سانحہ سے پہلے ان کا تعارف تک نہیں تھا۔ میڈیا نے اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی کے طور پر خبر دی، حالانکہ اسی نشست پر اسلم رئیسانی ان کے مقابلے میں لڑ رہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں اسلم رئیسانی کو ضرب لگانے کے لیے سراج رئیسانی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ داعش یا کوئی بھی ایسی مذہبی شدت پسند تنظیم ہمیشہ ہائی پروفائل ٹارگٹ ڈھونڈتی ہے، جس کے نتیجے میں لیڈ بن سکے اور میڈیا میں چرچا ہو۔ اس سانحے کو اخبارات اور چینلز میں میں لیڈکوریج تو ملی، مگر اس کی وجہ ایک بدقسمت اتفاق تھا کہ اس واقعے میں بہت زیادہ نقصان ہوگیا۔ چھوٹی سی جگہ میں کارنر میٹنگ تھی، جس وجہ سے لوگوں کو قریب قریب ہونے کا موقعہ ملا، اسی وجہ سے دھماکہ کے نتیجے میں نقصان زیادہ ہوا۔ ورنہ ہدف سراج رئیسانی ہی تھے، عوام کو نشانہ بنانا ہوتا تو کسی بازار یا پبلک مقام کا انتخاب کیا جاتا۔ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ حملہ صرف ایک پروپاکستان قبائلی سردار زادے کو ہٹانے کے لئے کیا گیا۔ بلوچستان میں کھل کر پاکستان کے لئے کھڑا ہونے والا، بھارتی لابی کی کھل کر مذمت کرنے والا ایک بے خوف، نڈر شیروں جیسا شخص گرالیا گیا۔ یہ یقینی طور پر را سپانسرڈ کارروائی ہے۔ یہ البتہ دیکھنا ہوگا کہ مقامی سطح پر کون لوگ اس کے لئے استعمال ہوئے۔ شدت پسند بلوچ تنظیمیں اس نوعیت کے فدائی حملے نہیں کرتی۔ کیا ان کے پاس اب یہ" صلاحیت "آ گئی ہے یا پھر کوئی کالعدم تنظیم اس مقصد کے لئے استعمال ہوئی؟ یہ بھی فرانزک ماہرین طے کریں گے کہ یہ خود کش حملہ تھا یا پلانٹیڈ بلاسٹ؟ اس روز میاں نواز شریف کے استقبال کے لئے مسلم لیگ ن کی ریلی کے باعث میڈیا میں مستونگ سانحہ نظراندازہوا۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ دور افتادہ علاقوں سے جنم لینے والی اہم خبریں بھی دو چار بڑے شہروں کے واقعات تلے دب جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سانحے کی تفصیل قدرے تاخیر سے ملی، جب میڈیا کو شدت کا اندازہ ہوا تو وہ اس جانب متوجہ ہوئے۔ اپنی شروع کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی معذرت البتہ کرنی چاہیے۔ اعلیٰ عسکری قیادت کو سکیورٹی کی ناکامی کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ نشانہ بننے والے مظلوم شہدا کے پسماندگان کے لئے غیر معمولی امدادی اعلان کی ضرورت ہے۔ سال ڈیڑھ پہلے احمد پورشرقیہ میں آئل ٹینکر سے مقامی لوگ جھلس کر ہلاک ہوئے تو صوبائی حکومت نے بیس بیس لاکھ کا اعلان کیا۔ رقم سے انسانی جان کی تلافی نہیں کی جا سکتی، مگر جن گھرانوں کے کفیل چلے گئے، ان کے لئے کچھ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت تو شائد نہ کر سکے، وفاقی حکومت ہی کو اس حوالے سے بڑا قدم اٹھانا چاہیے۔ مرحومین اور زخمیوں کے لئے بڑی امدادی رقم اور مفت علاج معالجہ کا اعلان ہونا چاہیے۔ وہ مظلوم جو کسی جرم کے بغیر ہی بے رحمی سے نشانہ بنائے گئے، ان کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی ہم تمام پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے۔ سراج رئیسانی پاکستان کے لئے شہید ہوئے، حق بنتا ہے کہ ان کے لئے قومی سطح پر شجاعت کے بڑے اعزاز کا اعلان کیا جائے۔ افسوس کہ ایسے شیردل شخص سے واقفیت ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوئی۔ ایک قلم کار کے پاس لفظ ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ سراج رئیسانی، ہم آپ کی دلیری، شجاعت اور پاکستانیت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اللہ آپ پر اور آپ کے ساتھ جانے والوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ آمین۔