Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shama Chootne Na Pae

Shama Chootne Na Pae

سڈنی، آسٹریلیاکا معروف اور سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے۔ اس کے ساحلی مضافاتی علاقے واٹسن بے میں ایک ایک ڈھلوان چٹان گیپ (The Gap)بڑی مشہور ہے۔ لوگ وہاں شہر کا خوبصورت نظارہ دیکھنے آتے ہیں مگر بدقسمتی سے اس کا نام خوبصورتی کے بجائے اس لئے مشہور بلکہ بدنام ہوا کہ وہاں اکثر لوگ خودکشی کرنے آتے ہیں۔ یہ ڈھلوان چٹان خودکشی کرنے والوں کے لئے طویل عرصے سے باعث کشش رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ اب تک لاتعداد لوگ وہاں سے کود کر جان دے چکے ہیں۔ جگہ جگہ خود کشی منع ہے کے بورڈ لگے ہیں، سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کرنے پڑے۔ انتظامیہ کی جانب سے ایک باڑ بھی لگائی گئی، تاہم خودکشی کرنے والے ادھر کا رخ کرتے ہی رہے۔ آج کل یہ جگہ" دی گیپ" کی حالیہ شہرت وہاں اپنی زندگی کے چار عشرے گزارنے اور سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں بچانے والے ایک انسانی فرشتہ ڈان رچی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے میگزین کے ساتھی شفیع منصوری نے اس حیران کن کردار پر ایک رپورٹ بنائی تو اسے پڑھنے کے بعد مزید جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ڈان رچی کے انٹرویوز اور کلپس نیٹ پر دستیاب ہیں، انہیں پڑھنے کے بعد خوشگوار حیرت ہوئی کہ کوئی شخص اتنا ایثار پیشہ بھی ہوسکتا ہے؟ ڈان رچی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا، بعد میں وہ انشورنس ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا۔ ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں وہ ریٹائر ہوا۔ انہی دنوں اس نے The Gap سے خود کشی کرنے والوں کی بڑھتی تعداد کے بارے میں ایک اخباری فیچر پڑھا، جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ 1964ء میں ڈان رچی اسی علاقے میں آ کر آباد ہوگیا۔ اس نے یہ عادت بنا لی کہ دن بھر پہاڑی پر ٹہلتا رہتا اور دی گیپ ڈھلوان کا رخ کرنے والوں پر نظر رکھتا۔ جس شخص کے بارے میں اسے چال ڈھال سے اندازہ ہوتا کہ یہ ڈپریس اور خود کشی کی جانب مائل ہے، وہ فورا اس سے جا کر علیک سلیک کرتا اور تھوڑی گپ شپ کے بعد نیچے آ کر اپنے گھر چائے کی دعوت دیتا۔ نیچے اس کی بیوی بھاپ اڑاتی کافی اور گھر کے بنائے لذیز کیک کے ساتھ منتظر ہوتی۔ چائے پی لینے کے بعد ڈان رچی بڑی نرمی سے نووارد کے حالات زندگی کریدتا اور جب وہ اپنا کتھارسس کرنے لگتا، تب وہ خاموشی سے پوری تفصیل سنتا اور پھر نہایت شفقت سے اسے تسلی دیتا۔ وہ اس کے مسائل کا حل تجویز کرتا، اسے ہمت نہ ہارنے کا سبق دیتا۔ خود کشی کی نیت کرنے والے کی وہ سائیکو تھراپی کرتا اور پھر جب یقین ہوجاتا کہ اس کا ذہن بدل گیا ہے تب اسے واپس اپنے گھر کی طرف لوٹا دیتا۔ لگ بھگ اڑتالیس برس تک ڈان رچی یہی کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے کئی سو لوگوں کی جانیں بچائیں۔ ڈان رچی پر بہت سے اخباری فیچر لکھے گئے، ٹی وی پروگرام ہوئے اور اسے کئی ایوارڈ بھی دئیے گئے۔ آسٹریلوی حکومت کی جانب سے میڈل آف دی آرڈر آف آسٹریلیا جیسے بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔ مقامی لوگ اسے اینجل آف گیپ کہتے تھے۔ خو دڈان رچی نے ہمیشہ نہایت ملائمت اور عاجزی سے اس بارے میں بات کی۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی آپ کے سامنے خودکشی کے لئے کودنا چاہ رہا ہو تو آپ گھر میں بیٹھے تماشا تو نہیں دیکھ سکتے، ہر شخص وہی کرتا جو میں نے کیا، مایوس شخص کو روکنے کی اپنی سی کوشش۔ یہ ڈان رچی کا انکسار تھا، ورنہ ہر شخص یہ نہیں کرتا۔ کون ہے جو اپنی زندگی کا پورا پیٹرن ہی بدل کر ایک علاقے میں صرف اس لئے آباد ہو جائے کہ وہاں سے خودکشی کے لئے کودنے والوں کو روکنے کا فریضہ انجام دے سکے؟ ایسے قیمتی لوگ معاشروں میں خال خال ہوتے ہیں۔ زندہ معاشرے البتہ ان کی قدر کرتے ہیں۔ ڈان رچی کی کہانی پڑھتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ اللہ کی مہربانی سے پاکستانی سماج بھی اس قسم کے کرداروں سے خالی نہیں۔ ہمارا بابا عبدالستار ایدھی اگر پاکستان کے بجائے کسی طاقتور، بااثر ملک میں ہوتا تو امن کا نوبیل انعام اسے لازمی ملتا۔ پاکستانی قوم اور ریاست نے بہرحال اپنی بساط کے مطابق ایدھی صاحب کی عزت افزائی اور تکریم کی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے کراچی میں گردوں کے مریضوں کے علاج کے لئے شاندارادارے بنا ڈالے، سینکڑوں، ہزاروں لوگ جن سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رضوی آج کل علیل ہیں، اللہ انہیں صحت عطا فرمائے، ایسے اصحاب کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔ بہت سے ادارے، کئی شخصیات ہیں، سب کے نام گنوانا شائد ممکن بھی نہ ہوسکے گا۔ آنجہانی ڈاکٹر روتھ فائو جنہوں نے جذام کے مریضوں کے لئے ناقابل یقین عزم وہمت سے کام کیا۔ ڈاکٹرا مجد ثاقب جنہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت اخوت کی کونپل لگائی، جو آج نہایت سرسبز، گھنا ثمر آور درخت بن چکا۔ الخدمت کے لئے کام کرنے والے جماعت اسلامی کے رفقا، الخدمت کے ذمہ داران نعمت اللہ خان اور موجودہ سربراہ عبدالشکور صاحب جیسے لوگ۔ کہتے ہیں آدمی کو پہچاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کیجئے، حالیہ سفر استنبول میں عبدالشکور صاحب کوقریب سے دیکھا اور اس سترسالہ "جوان"کی ہمت اور عزم پر رشک آیا۔ ان کا ڈسپلن اوراخلاص دیدنی تھا۔ ڈاکٹر انتظار بٹ اور ڈاکٹر آصف جاہ جیسے لوگ جو اپنے اپنے انداز میں سماجی خدمت کئے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر انتظار تو اس حوالے سے اس قدر شرمیلے اور کم گو ہیں کہ نادار مریضوں کے مفت آنکھوں کے آپریشن کرنے والے اپنے ادارے "POB"کی تفصیل بھی نہیں بتاپاتے، آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے اور خودستائی کے خوف سے کلام طویل نہیں ہو پاتا۔ یہ فہرست طویل ہے، کئی کالم لکھنے پڑیں گے۔ ڈان رچی کی زندگی کی روداد پڑھتے ہوئے مجھے بے اختیارنرم، شفیق ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے لبوں پر رقصاں سدا بہار مسکراہٹ یاد آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے قائم کردہ ادارے اخوت نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں، ان میں سے بہت سے زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ اخوت نے نرمی اور محبت سے ان کا ہاتھ تھاما اور اپنے بلاسود قرضے سے انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ اخوت ایک حیران کن، ناقابل یقین داستان ہے۔ دس ہزار روپے سے یہ سفر شروع ہوا۔ آج یہ ستر ارب تک پہنچ چکا ہے، جی ستر ارب روپے۔ نوے اضلاع میں آٹھ سو کے قریب اخوت کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ تین ملین یعنی تیس لاکھ افراد کو یہ بلا سود قرضہ دیا جا چکا ہے۔ اہم بات یہ کہ واپسی کی شرح 99.95% ہے، جاننے والے سمجھ سکتے ہیں کہ چھوٹے قرضوں میں ایسی حیران کن ریکوری کی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔ اخوت کا کام اب بہت پھیل گیا ہے، اخوت ہیلتھ کلینک، نادار لوگوں کے لئے کپڑوں کی فراہمی کانیٹ ورک اور پھر اخوت یونیورسٹی۔ اس کا پراجیکٹ جب مکمل ہوگا تو ان شااللہ بہت سے دنگ رہ جائیں گے۔ مجھے آج بھی یاد ہیکہ دس گیارہ سال پہلے ہمارے فورم سی این اے کی ہفتہ وار میٹنگ میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کے پورے تصور کو بیان کیا۔ بڑی نرمی اور رسان سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سرکار مدینہ ﷺ کے مواخات مدینہ کے تصور سے اخوت کی اصطلاح اخذ کی گئی۔ مواخات مدینہ، جب ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنایا گیا۔ ان دنوں توعالمی مالیاتی ادارے بلاسود قرضے کی بات سن کر طیش میں آ جاتے۔ اٹلی کی ایک کانفرنس میں ڈاکٹرا مجد نے اخوت کا تصور بیان کیا تو ٹھٹھے لگائے گئے۔ آج امریکہ کی شہرہ آفاق ہاورڈ یونیورسٹی خاص طور سے ڈاکٹرامجد ثاقب کو مدعو کر کے اس تجربے کو سند قبولیت بخشتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اخوت ماڈل کو اپنایا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اخوت کو اپنے بعض پراجیکٹس میں شریک کیا اور انکا ہر ایسا پروگرام کامیاب اور غیر متنازع رہا۔ اگلے روز ایک دوست نے کلپ بھیجا جس میں عمران خان اخوت ماڈل کی تعریف کر رہے تھے۔ میرا مشورہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے ویژن میں اخوت ماڈل سے استفادہ کرے۔ اخوت جیسے ادارے ملک وقوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، ان سے ہر حکومت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، فائدہ تو عوام ہی کو پہنچے گا۔ اس وقت دس لاکھ لوگ اخوت سے قرضہ لے کر کاروبار کے ذریعے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اخوت نے دس لاکھ ملازمتیں تخلیق کی ہیں۔ تحریک انصاف اپنے بیس لاکھ ملازمت سالانہ فراہم کرنے کے وعدے کو تب پورا کر سکتی ہے، جب اخوت جیسے بڑا سٹرکچر رکھنے والی نیک نام سماجی تنظیمیں اس کی معاون بنیں۔ اخوت کا پورانیٹ ورک موجود ہے، اس کے ذریعے آسانی سے مزید پانچ دس لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے، دلچسپ بات ہے کہ یہ تمام قرضہ ریکور ی ہو کر واپس آ جائے گا اور پھراپنے اگلے چکر میں مزید لاکھوں لوگوں کی مدد کا ذریعہ بن جائے گا۔ ریاست مدینہ کے تصور میں ویسے بھی مواخات مدینہ کی بڑی اہمیت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کا بڑا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ان میں سے بہت سے مایوس ہو کر تاریکیوں کے سمندر میں ڈوبنے جار ہے ہیں، انہیں واپس لانا، ان کے ہاتھوں میں امید کی شمع تھمانا بڑا ضروری ہے۔ یہ شمع چھوٹنے نہ پائے۔ اس میں ریاست بھی اپنا حصہ ڈالے، سماجی تنظیمیں اور نیک نام افراد بھی اپنا کردار ادا کریں، تب بات بن پائے گی۔