میری لائبریری میں موجود کتابوں کا خاصا بڑا حصہ پرانی کتابوں کے سٹال اور فٹ پاتھ پر کتابیں بیچنے والوں سے خریدا گیا ہے۔ پرانی کتابیں خریدنا بھی ایک فن ہی ہے۔ لاہور میں نئی انارکلی کے باہر سے اچھا خاصا بڑا فٹ پاتھ بازار ہے، پرانی انگریزی، اردو کی کتابیں اور رسالے وہاں بکھرے ہوتے ہیں۔ وہاں پر بعض لوگوں نے ریڑھی پر نئی کتابیں یا اچھی حالت میں موجود کتابیں بھی رکھی ہوتی ہیں۔ فٹ پاتھ پر رکھی کتابوں اور رسالوں کی خریداری میں آپ کو بڑی سمجھداری کا مظاہر ہ کرنا پڑتا ہے۔ کسی خاص کتاب میں آپ کی دلچسپی کی بھنک دکاندار کو پڑ گئی تو ساتھ ہی وہ اس کے ریٹ بڑھا دے گا۔ ہاسٹل میں رہائش کے دنوں میں بہت چکر لگتے تھے۔ خاصے عرصے سے چکر نہیں لگا، وجہ یہ بھی ہے کہ اب گھر میں کتابیں رکھنے کی جگہ نہیں بچی۔ ہماری اہلیہ محترمہ خوش قسمتی سے سخن فہم اور مطالعہ کی شائق ہیں، جس دن نئی کتاب آئے تو گھر میں جشن کا سا سماں ہوتا ہے، ورنہ حال یہ ہے ایک صاحب مطالعہ دوست کے بقول گھر میں آن لائن خریدی ہوئی کتابوں کا بنڈل آئے تو بیگم یوں خونخوار نظروں سے دیکھتی ہیں جیسے یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کتاب رکھی جائے یا کتاب منگوانے والے کو۔
انارکلی کے باہر ان کتابوں کے سٹال سے میں نے ایک بار ماریا پوزو کے ناول گاڈ فادر کا پیپر بیک ایڈیشن لیا تھا۔ یہیں پر ایک بار سڈنی شیلڈن اور پائولو کوہیلو کے الکیمسٹ سمیت کئی مشہور ناولوں کے پیپر بیک مل گئے۔ ردی کاغذ، بری چھپائی مگرقیمت کم ہونے کے باعث خرید لئے۔ ایک بار چیئرنگ کراس، مال پر موجود مشہور کتابوں کی دکان میں آگ لگی تو بہت سی کتابیں انارکلی کے فٹ پاتھ پر پہنچیں۔ ان میں احسان دانش کی آپ بیتی جہان دانش کا دوسرا حصہ"جہاں دگر" بھی مجھے مل گیا۔ قسمت یاوری کرے تو کبھی ایسی کتاب بھی فٹ پاتھ سے مل جاتی ہے جسے مصنف نے اپنے دستخط کے ساتھ کسی دوست کو پیش کیا تھا۔ ان صاحب کے انتقال کے بعد اہل خانہ نے کتب خانہ کو باہر کی راہ دکھائی تووہ فٹ پاتھ دکانوں تک پہنچیں۔ ہمارے صحافی دوست محمود الحسن جنہیں کتابیں جمع کرنے میں بہت دلچسپی ہے، ہزاروں کتب پر مشتمل ذاتی لائبریری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اپنے بعد کتابیں کسی لائبریری کو دینے کے بجائے ان کتابوں کو فٹ پاتھ پر جانے دینا چاہیے تاکہ وہ کسی باذوق قاری تک پہنچ سکیں۔ محمود اس حوالے سے ممتاز ادیب اور سویرا کے مدیر جناب سلیم الرحمن کا قول دہراتا ہے، جن کے خیال میں کتابیں لائبریروں کے بجائے عام قاری تک پہنچنا زیادہ اہم ہے۔
لاہور میں پرانی کتابوں کا ایک اور مرکز نسبت روڈ پر گوالمنڈی چوک سے کچھ آگے، لنڈا بازار کے باہر ہے۔ وہاں تین دکانیں ایک ساتھ موجود ہیں۔ ایک زمانے میں پرانے سب رنگ وہیں سے ملا کرتے تھے۔ سب رنگ کے پرانے شمارے اکٹھے کرنے کے لئے خاکسار نے بڑی خاک چھانی۔ ریگل سینما کے اندر ایک مشہور ٹیلر کی دکان ہے، پندرہ بیس سال پہلے اسی سینما میں پرانی کتابوں کی ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ جو صاحب وہاں براجمان رہتے، ہم انہیں انکل کہتے تھے، ان کے کلے میں ہر وقت پان کی گلوری دبی ہوتی۔ غضب کے کتاب شناس تھے، انہیں معلوم تھا کہ کس چیز کی کیا ویلیو ہے اور انہیں گاہک سے وصول کرنا خوب آتا تھا۔ اب برسوں سے وہ دکان ختم ہوچکی، معلوم نہیں انکل کہاں گئے؟ بہاولپور میں فرید گیٹ کے اندر بازار میں گندی گلی کے نام سے ایک خاصی صاف ستھری گلی ہے، وہاں پرانی کتابوں، رسالوں کی دکان سے بہت خریداری کی۔
اب مجھے یہ یاد نہیں کہ بہاولپور، کراچی یا لاہورکہاں سے مجھے وہ کتاب ملی جس نے میری زندگی بدل دی۔ اتنا بہرحال یاد ہے کہ یہ کم از کم پچیس تیس برس پرانا قصہ ہے۔ پرانی کتابوں کی دکان سے" دنیا کی سو عظیم کتابیں " نامی یہ شاہکار خرید کر گھر لے گیا۔ معروف مترجم، ادیب ستار طاہر اس کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب ممکنہ طور پر کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہوگی، مگر ستار طاہر نے اس میں بہت اضافے کئے اور حیران کن خوبصورتی کے ساتھ اسے یوں مقامی رنگ دیا کہ یہ اب طبع زاد ہی کہلائے گی۔ دنیا کی عظیم کتابوں کے نام سے ایک کتاب مولانا غلام رسو ل مہر نے بھی ترجمہ کی ہے، اچھی کتاب ہے، مگر ستار طاہر کی کتاب سے کوئی موازنہ نہیں۔
دنیا کی سو عظیم کتابیں پچھلے پندرہ بیس برسوں سے آئوٹ آف پرنٹ تھی۔ یہ کتاب بے شمار نوجوانوں کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میرے نزدیک یہ علم کا خزانہ ہے۔ جس کسی نے یہ کتاب اچھے طریقے سے پڑھ لی، اس کی زندگی، فکر، شعور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس کی فہرست پر نظر ڈالتے ہی آدمی دم بخود رہ جاتا ہے۔ آغاز دنیا کی عظیم ترین کتاب القرآن الحکیم سے ہوتا ہے۔ دوسرا مضمون حدیث کی مشہور کتاب صییح بخاری پر ہے۔ تیسرا مضمون عہد نامہ عتیق (Old Testament)پر ہے، ایک طرح سے یہ یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات کی تحریف شدہ شکل سمجھ لیں۔ چوتھا مضمون عہد نامہ جدید یعنی انجیل مقدس پر ہے۔ پانچواں مضمون ہندوئوں کی مقدس کتاب بھگوت گیتاجبکہ چھٹے مضمون میں چینی مفکر اور مذہبی رہنما کنفیوشس کے اقوال کا احاطہ کیا گیا، ساتوان مہاتما بدھ کی تعلیمات پر مبنی کتاب دھماپد اور آٹھوں مضمون سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب پر ہے۔ پچاس باون صفحات پر مشتمل یہ سات مضامین پڑھنے سے آپ اسلام، یہودیت، عیسائیت، ہندوازم، کنفیوشس ازم، بدھ ازم اور سکھ مت کی بنیادی تعلیمات اور مقدس کتابوں کی تفصیل سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے بعد چند مضامین چند شاہکار کلاسیکل ادب پاروں پر ہیں۔ ان میں یونانی شاعر ہومر کی کتاب ایلیڈ جس پر چند سال پہلے مشہور فلم ٹرائے بنی، ورجل کا شاہکاراینیڈ، کلیلہ دمنہ کی کہانیاں، ایسوپ کی حکایتیں، داستان الف لیلہ، انگریز شاعر چاسر کی کنٹربری ٹیلز، قبل مسیح دور کے دو یونانی ڈرامہ نگارسفوکلیز کا" ایڈی پس" اور یوری پیڈیز کا" الیکٹرا"، قدیم ہندی شاعرکالی داس کا "شکنتلا "شامل ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطبات اور خطوط پر مشتمل مشہور کتاب نہج البلاغہ، تصوف کے شیخ کبیر ابن العربی کی فصو ص الحکم، سیدنا عثمان علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی کتاب کشف المحجوب، فردوسی کا شاہکارشاہنامہ، مولانا روم کی مثنوی، عمر خیام کی رباعیات، شیخ سعدی کی گلستان، حافظ شیرازی کا دیوان حافظ، روسی انقلابی شاعر پشکن کی نظمیں، بودیلیئر کی بدی کے پھول، ایزرا پائونڈ کے کینٹوز، علامہ اقبال کا جاوید نامہ، وارت شاہ کی ہیر پر جامع مضامین شامل ہیں۔ تاریخ کی چار شاندار کتابوں " تواریخ" از ہیروڈوٹس، ابن خلدون کی" مقدمہ"، گبن کی" انحطاط وزوال سلطنت روما" اور ٹائن بی کی" اے سٹڈی آف ہسٹری" شامل ہیں۔ مشہور ڈراموں میں شیکسپیئر کا "ہیملٹ"، گوئٹے کا فائوسٹ، ابسن کا اے ڈالز ہائوس شامل ہیں۔ ہیملٹ پر مضمون میں شیکسپیئر کی شخصیت اور اس کے دیگر مشہور ڈراموں کا بھی احاطہ کیا گیا۔
ناولوں میں تاریخ انسانی کے چند عظیم ترین شاہکاروں کا ذکر ملتا ہے۔ ٹالسٹائی کا حیران کن ناول جنگ اور امن، دوستئو فسکی کا "کرامازوف برادران"، وکٹر ہیوگو کا" لامزرابیلز"، ترگنیف کا "فادر اینڈ سنز"، کافکا کا "دی ٹرائل(مقدمہ)"، فلابیئر کا "مادام بوواری"، میکسم گورگی کا "ماں "، ڈکنز کا "ڈیوڈ کاپر فیلڈ"، میلول کا "موبی ڈِک"، کامیو کا "دی فال"بالزاک کا "ڈیوائن کامیڈی"، سر وانٹیز کا "ڈان کیخوٹے"، گوگول کا "ڈیڈسولز"، لرمنتوف کا "ہیروآف آور ٹائم"، ستاں دال کا "سرخ وسیاہ"، پرووست کا "مانوں لاکائو"جیمز جوائس کا"یولیسز"ہیریت سٹووو کا" انکل ٹامز کیبن"، مارسل پروست کا "ری ممبرنس آف تھنگز پاسٹ "، ایملی برونٹے کا" ودرنگ ہائیٹس"جوناتھن سوئفٹ کا گلیورز ٹریولز، ڈینیئل ڈیفو کا رابنسن کروسو، وغیرہ شامل ہیں۔ چیخوف کی" چھوٹی بڑی کہانیاں "، موپساں کی "کہانیاں "، اینڈرسن کی" فیئری ٹیلز " پر بھی جامع مضامین ہیں۔
فلسفہ اور فکری کتب کے حوالے سے اعلیٰ درجے کے مضامین لکھے گئے۔ افلاطوں کی "ریاست"، ارسطو کی "سیاسیات"کانٹ کی "تنقید عقل محض"، والٹئیر کی "فلاسفیکل ڈکشنری، " میکاویلی کی "پرنس"، روسو کی "معاہدہ عمرانی "، شوپنہار کی "دی ورلڈ ایز وِ ل اینڈ آئیڈیا"، سارتر کی "بینگ اینڈ نتھنگ نس"، سپنسر کی "پرنسپلز آف سوشیالوجی"، نطشے کا شاہکار "اور زرتشت نے کہا"، ہیگل کی" لاجک "، کارل مارکس کی مشہورزمانہ کتاب" داس کیپیٹل"، کروچے کی ایستھٹک، ڈیکارٹ کی میڈی ٹیشنز، برگساں کی "کرئیٹوایوولوشن "ہیولاک ایلس کی سٹڈیز ان دی سائیکالوجی آف سیکس، مالتھس کے ایسے آن دی پرنسپل آف پاپولیشن، مونٹین کی ایسز جبکہ نفسیات کے موضوع پر سگمنڈ فرائیڈ کی مشہور ترین کتاب"سائیکو اینالائسز"ثونگ کی "میموریز، ڈریمز، ری فلیکشنز"شامل ہیں۔
یہ سب کتابیں اتنی بڑی اور شاندار ہیں کہ انسانی عقل ودانش ان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ستار طاہر نے ان شاہکار سو کتابوں کو اپنی اس ایک کتاب میں سمو دیا ہے۔ ساڑھے چھ سو صفحات کی یہ شاندار کتاب اب بک کارنر، جہلم نے شائع کی ہے۔ اس ایڈیشن میں بہت سی نئی معلومات بھی شامل کی گئی ہیں جو کتابیں اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کی تفصیل ملتی ہے جبکہ بعض جگہوں پر معلوماتی اضافے کئے گئے۔ کرامازوف برادران ناول کے مضمون میں شاہد حمیدکے مضمون کے کچھ ٹکڑے شامل کر کے اسے بھرپور بنا دیا گیا۔ کتاب نہایت خوبصورت ہے، اس کی پیش کش پر بک کارنر کے امر شاہد، گگن شاہد نے خاص توجہ دی ہے۔ میں ہر کسی کو یہ کتاب پڑھنے، اپنی لائبریری کا حصہ بنانے اور اسے اپنی Bed Bookبنانے کی سفارش کرتا ہوں۔ اس کتاب کو پڑھیں اور پھر اس سے انسپائریشن لیتے ہوئے ان ادب، تاریخ، فلسفہ کی عظیم کتابوں کو پڑھیں۔