Monday, 04 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Talaba Siasat, Chand Nakhushgawar Mushahidat

Talaba Siasat, Chand Nakhushgawar Mushahidat

یہ نومبر1995ء کا واقعہ ہے۔ لاہور پہلی بار آنا ہوا تھا۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج اپنے ایک دوست سے ملنے گیا۔ ڈاکٹرہاسٹل کے فرسٹ فلورپر جانا تھا۔ ابھی کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ نیچے سے فائرنگ کی آواز آئی۔ سب لڑکے نیچے بھاگے، دیکھا کہ سیڑھیوں کے نیچے جہاں موٹر سائیکل ٹھیرانے کی جگہ تھی، وہاں ایک بائیک پر نوجوان اوندھے منہ گرا پڑا ہے، سر کی پچھلی طرف سے خون بہہ رہا تھا۔ پتہ چلا کہ دو نوجوان اسے گولیاں مار کر موٹرسائیکل بھگاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کوئی سٹوڈنٹ لیڈر ہے، شائد کسی دوست سے ملنے آیا، مخالف خاموشی سے تعاقب کر رہے تھے۔ غریب موٹرسائیکل سٹینڈ پر لگانے لگا کہ انہوں نے پیچھے سے جا کر سر میں گولیاں ماریں اور چلتے بنے۔ کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کس نے قتل کیا۔

طلبہ سیاست کی سفاکی کو قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ دو تین ماہ بعد لاہور ملازمت کے لئے آ گیا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق ہمارے جیسے آئوٹ سائیڈر جن کے پاس ٹھکانہ ہوتا اور نہ مالی وسائل، وہ مختلف ہاسٹلز میں اپنے شہر کے لڑکوں کے ساتھ رہتے۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں کچھ عرصہ مجھے بھی رہنے کا موقعہ ملا۔ اس کیمپس کی بڑی خوبصورت یادیں دل میں محفوظ ہیں۔ خوش قسمتی سے ان دنوں میڈیکل کالج کا ماحول پرامن تھا، مگرہمارے دوستوں کا کہنا تھا کہ صرف سال ڈیڑھ پہلے تک حالات بڑے خراب تھے۔ مختلف طلبہ گروپوں کے مابین تصادم، ہنگامے، فائرنگ کے واقعات عام تھے۔ ہر گروپ کی کسی نہ کسی ہاسٹل پر اجارہ داری تھی، وہ اپنے تمام لڑکوں کی الاٹمنٹ اسی ہاسٹل میں کراتے۔ ایک گروپ کا لڑکامخالف گروپ کے ہاسٹل میں نہیں جا سکتا تھا۔ اگر غلطی سے چلا جاتا تو پھر کم سے کم سزا ٹانگیں تڑوانا ہوتیں۔ انہی ہنگامہ آرائی میں ایک سٹوڈنٹ ڈاکٹر ورک قتل ہوگیا، پرانی بات ہے اگر یاداشت درست کا م کر رہی ہے تو شائد منشور ورک نام تھا۔ کہتے ہیں کہ بڑا ٹیلنٹیڈ اور مقبول طالب علم تھا۔ اسے مخالف گروپ کے لڑکوں نے قتل کیا۔ جس نے گولی ماری، وہ کچھ ہی دنوں میں روس بھجوا دیا گیا۔ ان دنوں کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ڈاکٹروں کی تنظیم پی ایم اے کے ایک دھڑے کا ہاتھ تھا، اس دھڑے کے سربراہ ن لیگ سے سیاست کرتے رہے اور صوبائی وزیر بھی رہے۔ واللہ اعلم۔ پنجاب یونیورسٹی میں ان دنوں اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا۔ دور دور تک کوئی تنظیم مقابلے میں نہیں تھی، کوئی سر اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی انہیں سخت سزا بھگتنا پڑتی۔ ہاسٹلز کے اسی زمانے میں معلوم ہوا تھا کہ میرے قیام سے کچھ عرصہ پہلے آئی ایس او نے پنجاب یونیورسٹی میں قدم جما لئے تھے، پھر ایک لہور نگ ہنگامے میں آئی ایس او کے بعض گینگسٹر ٹائپ لڑکوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس سے جمعیت کا ایک ناظم ہلاک ہوگیا، چند ایک زخمی ہوئے، اس کے بعد آئی ایس او کا صفایا ہوگیا۔ اس ناظم کی بھی لوگ تعریف کرتے تھے کہ بڑا بھلا مانس مگر غیر ضروری حد تک دلیر نوجوان تھا۔ بتاتے تھے کہ وہ اس دن اپنے بیگ اٹھا کر گھر ملنے جا رہا تھا، کیمپس پل پر اسے پتا چلا کہ آئی ایس او کے خلاف احتجاج کرنا ہے، وہ جوش میں بیگ کسی لڑکے کو پکڑا کر واپس آیا اور نعرے بازی کرنے لگا، جواب میں فائرنگ ہوئی تو گولیاں سیدھی چھاتی میں لگیں اور ہسپتال جانے سے پہلے چل بسا۔

میرے دو تین دوست انجینئرنگ یونیورسٹی (UET) پڑھتے تھے، ان سے ملنے اکثر ویک اینڈ پر چلے جاتے۔ یوای ٹی ان دنوں بدترین طلبہ فسادات کا شکار تھی۔ تین بڑی طلبہ تنظیمیں جمعیت، ایم ایس ایف، پی ایس ایف کی باہمی لڑائیوں، ہنگاموں، مارکٹائی اور مخالف لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بنانا عام تھا۔ دیانت داری سے کہا جائے تو اس میں کوئی استثنا نہیں تھا۔ ممکن ہے جمعیت کا حصہ کچھ کم ہو، مگر بہرحال ہاسٹلز پر قبضے انہوں نے بھی کر رکھے تھے اور ہاتھ آ جانے پرمخالف تنظیموں کے لڑکوں کی مارکٹائی وہ بھی بے دریغ کیا کرتے۔ ان دنوں لیاقت ہال، نیو ہال وغیرہ مختلف ہاسٹلز کے نام تھے۔ ایک پر ایم ایس ایف(مسلم لیگی طلبہ)کا قبضہ تھا تو دوسرے پر پی ایس ایف(پیپلزپارٹی کے طلبہ)قابض ہوتی تو تیسرے پر جمعیت کی گرفت مضبوط تھی۔ اس سے چند سال پہلے طلبہ سیاست میں چند ایک کردار مشہور ہوئے تھے۔ ارشد امین چودھری، عاطف چودھری وغیرہ۔ یہ سب بعد میں باقاعدہ گینگسٹر بنے، ڈاکے مارتے رہے، قبضہ گروپوں کا حصہ بنے اور کوئی پولیس مقابلے میں مارا گیا، کسی کی موت گینگ وار میں ہوئی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں طلبہ سیاست کا ایک بدنام کردار اکرم گجر موجود تھا۔ واحد سٹوڈنٹ لیڈر جو تمام تر پنگوں، ہنگاموں، لڑائیوں کے باوجود بچ نکلا اور پھر اپنی سیاست کا رخ تبدیل کر کے ایم پی اے بھی بنا۔ یو ای ٹی میں اکرم گجر کے بہت قصے کہانیاں مشہور تھیں۔ کیسے اس نے پی ایس ایف کے مخالفین کو نشانہ بنایا، کس طرح اس پر کئی بار ڈائریکٹ فائرنگ ہوئی، مگر وہ بال بال بچ نکلا۔ ایک سٹوڈنٹ نے مجھے اس دن کا قصہ سنایا جب وہ صبح تولیہ کاندھے پر ڈالے غسل خانوں کی طرف گیا تو دیکھا کہ کئی لڑکے کھڑے ہوئے ہیں، کسی کو اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بعد میں ایک لڑکی غسل خانے سے نکلی اور خراماں خراماں اکرم گجر کے کمرے میں چلی گئی، کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ پوچھ سکے کہ بوائز ہاسٹل میں سخت ترین پابندی کے باوجود کوئی لڑکی کیسے شب بسری کے لئے لائی گئی۔ یہ سب پنجاب کی بہترین پروفیشنل انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہور ہا تھا۔ ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جمعیت کی مورل پولیسنگ کے تماشے بھی دیکھے۔ لڑکے ویک اینڈ پر وی سی آر کرایے پر لے کر آتے کہ فلم دیکھ سکیں۔ ادھر جمعیت کے شکرے شکار ڈھونڈ رہے ہوتے۔ جس کمرے پر شبہ ہوتا، وہاں یلغا ر ہوجاتی۔ وی سی آر ضبط اور اکثر لڑکوں کو تھپڑ بھی پڑ جاتے۔ اس رویہ سے شاکی لڑکے جمعیت والوں کو گالیاں دیتے کہ یہ کہاں سے خدائی فوجدار بنے ہیں، د وسری طرف جمعیت کے لڑکے اسے اپنا کمال سمجھتے کہ ہم ہاسٹلز میں فحاشی نہیں پھیلنے دے رہے۔

یہ مورل پولیسنگ پنجاب یونیورسٹی میں نکتہ عروج پر تھی اور کسی حد تک اب بھی ہے۔ کسی بھی پبلک پلیس پر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ دو جملے بول لیتا تو اس کی شامت آ جاتی۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی سکے، چاہے وہ اس کی بہن ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لڑکوں کی بلا دریغ پٹائی ہوتی اور یہ حشر دیکھنے والے دوسرے بھی توبہ کرتے، ایسی غلطی نہ کرتے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک اور مذہبی نظریات رکھنے والی تنظیم انجمن طلبہ اسلام (اے ٹی آئی)کا قبضہ تھا۔ جو کام جمعیت پنجاب یونیورسٹی میں کر رہی تھی، ان سے دو ہاتھ آگے اے ٹی آئی والے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں کر رہے تھے۔ کلاس فیلو لڑکی سے بات کرنے پرلڑکوں کی پٹائی، مخالف تنظیم کے طلبہ پر خوفناک تشدد۔ میرے ایک سکول کے زمانے کے کلاس فیلو اور دوست طارق فاروق بھٹی جو بہاولپور ڈویژن اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا، اس پر اے ٹی آئی کے لڑکوں نے اتنا تشدد کیا کہ مرتے مرتے بچا۔ ان تمام تنظیموں میں ایک اصول مشترک تھا کہ جہاں کہیں کسی طلبہ تنظیم کی قوت تھی، وہ مخالف کو کام نہ کرنے دیتی۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے علاوہ کوئی اور تنظیم اپنا دعوتی کام کر سکے۔ یہی اسلامیہ یونیورسٹی میں اے ٹی آئی مخالف تنظیموں کے لڑکوں سے کرتی۔ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں انقلابی زرعی کونسل والے یہی کام جمعیت کو نشانہ بنا کر کرتے۔ لاہور میں دیال سنگھ کالج اور ایم اے او کالج ایم ایس ایف کے گینگسٹروں کا مرکز تھا۔ یہ گینگسٹر ویگنوں والوں سے بھتہ لیتے، دیگر وارداتیں کرتے اور ہاسٹلز کو اپنی پناہ گاہ کے لئے استعمال کرتے۔ اسلامی جمعیت طلبہ واحد تنظیم تھی جس کا دعوتی کام بھی خاصا تھا۔ سٹڈی سرکل ہوتے، درس قرآن، مطالعہ کی ترغیب دی جاتی۔ بہت اچھے، مذہبی سوچ رکھنے والے لڑکے اس سے نکلے۔ میں اپنی زندگی میں جن چند بہترین لوگوں کو جانتا ہوں، وہ سب ایک زمانے میں جمعیت کا حصہ رہے اوراپنی فکری تشکیل کا کریڈٹ جمعیت کو دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود طلبہ سیاست، کیمپس میں الیکشن جیتنے کا جذبہ، ہاسٹلز پر قبضوں کی ہوس وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ایسی اچھی، نظریاتی طلبہ تنظیم میں بھی مارکٹائی کرنے والے لڑکے گھس آتے ہیں، انہیں مصلحتاً برداشت کرنا پڑتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لئے ان ٹیرر ز کی ضرورت پڑتی، مخالف تنظیموں کے لڑکوں کے حملوں کو روکنے کے لئے بھی ڈانگ سوٹا چلانے والے جنگجو درکارہوتے۔

یہ وہ چیز ہے جو میرے جیسے لوگوں کو طلبہ یونین کی بحالی کا مخالف بناتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یونین الیکشن ہوتے رہے تو پھر یہ سب کچھ ہوگا۔ ان روایتی طلبہ تنظیموں سے کیمپس کو پاک رکھنا ممکن نہیں۔ پھر ہاسٹلوں میں سر پھٹول ہوگا، کیمپس میں نوجوان لاشے گریں گے، گولیاں چلیں گی، پولیس آئے گی، آئے روز کی لڑائیاں اور نتیجے میں کئی کئی ماہ یونیورسٹیاں بند ہوجائیں گی۔ پہلے ایسا ہی ہوتا رہا۔ بڑی مشکل سے اس سب کا خاتمہ ہوا۔ خدارا یہ شیطانی کھیل پھر سے شروع نہ کریں۔