پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خاکسار کسی پر غداری کا لیبل لگانے کے قطعی حق میں نہیں۔ یہ ہمارا کا م نہیں۔ حب الوطنی یا غیر محب الوطن کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا اخبارنویسوں کامعاملہ ہرگز نہیں۔ اس کے لئے ادارے موجود ہیں، عدالتیں آزاد اور نہایت فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ کسی پر الزام ہے تو قوانین موجود ہیں، ان کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے، عدالت ہی الزامات کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتی ہیں۔ صحافیوں کو اس بلیم گیم کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ہاں ایشوز پر اپنانکتہ نظر بیان کرنا چاہیے۔
یہ چند سطری تمہید میاں نواز شریف کے انگریزی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو کے تناظر میں آئی۔ پچھلے دو دن صدمے میں گزرے۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ شخص جسے مملکت خداداد پاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کا اعزاز ملا ہو، جس کا خاندان ابھی تک اقتدار میں ہو، پینتیس سال جس کے سیاست میں گزرے ہوں، وہ اس قدر غیر ذمہ داری کیسے برت سکتا ہے؟ ایسا مگر ہوا۔ غیر جانبداری سے ہم ایشو کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو چند سوالات سامنے آتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ بیان یا انٹرویو حقیقت میں دیا گیا یا اسے مبالغہ آمیزی کے ساتھ توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ پھر یہ کہ نیت کیا تھی؟ جوبات کہی گئی وہ درست ہے یا غلط؟ ہدف کیا تھا؟ مضمرات کیا نکلیں گے؟ کیا اس ایشو میں صرف بات کہنے والا مجرم ہے یا اور بھی کردار ہیں؟ ان تمام پر اختصار سے بات کرتے ہیں۔ یہ تو اب ہر ایک پرواضح ہوچکا کہ میاں نواز شریف نے وہ انٹرویوانگریزی اخبار کے رپورٹر کو دیا تھا۔ جب یہ صحافتی دھماکہ ہوا تو ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے فوری طور پر اس سے فاصلہ کرتے ہوئے سہ جہتی تردید جاری کی۔ ملا نصیر الدین کا مشہور لطیفہ ہے، ایک ہمسایے سے انہوں نے قیمتی پلیٹ عاریتاً لی اور اسے توڑ ڈالا۔
ہمسایے نے محلے داروں سے شکایت کی تو ملا نصیر نے ایک بیان جاری کیا، یہ پلیٹ ہمسایے نے دی ہی نہیں تھی، پلیٹ لی تو تھی مگر واپس کر دی اور پلیٹ تو پہلے ہی سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ میاں شہباز شریف نے بھی وہی تکنیک آزمائی اور فرمایا، میاں نواز شریف ایسا بیان دے ہی نہیں سکتے، یہ بیان تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، ن لیگ اس بیان کے حوالے سے تمام براہ راست یا بالواسطہ دعوئوں کو مسترد کرتی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں ایسے رویہ کو منافقت ہی کہا جا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف نے ایک انٹرویو دیا، اپنے پسندیدہ اخبار اور رپورٹر کو اس کام کے لئے زحمت دی گئی، شہباز شریف کو شک ہے تو وہ نواز شریف صاحب سے موبائل پرایک منٹ میں بات کر سکتے ہیں۔ خبر کنفرم ہوجائے گی یا اگر نہیں تو اس کی فوری تردید میاں نواز شریف جاری کر دیتے، پھر ذمہ داری اخبار اور رپورٹر پر آجاتی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور ایک گھسا پٹا، نیم مردہ سا جملہ بولا گیا کہ بیان تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، یہی بات وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کی۔ ان کا رویہ نہایت مایوس کن تھا۔ یہ بات بھی کرسٹل کلیئر ہے کہ میاں نواز شریف نے وہ بیان دانستہ، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیا۔
سیرل المائیڈہ کو اس انٹرویو کے لئے خاص طور سے بلوایا گیا۔ ان کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ سوال ان کا کچھ اور تھا، مگرنواز شریف صاحب دانستہ طور پر بات کو گھما کر ممبئی حملوں کی طرف لے گئے۔ سوشل میڈیا پر سیرل المائیڈہ کا ایک ٹویٹ گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اتفاق سے ملتان میں تھے اور یہ انٹرویو ایک صحافتی خوش قسمتی تھی۔ اسی ٹویٹ کے نیچے ہی لوگوں نے اس نوٹیفکیشن کا سکرین شاٹ لگا دیا جس کے مطابق سیرل المائیڈہ کو ائیرپورٹ پر خصوصی پروٹوکول دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ثابت ہوگیا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ جو بات میاں صاحب نے کہی، وہ حقیقت میں درست نہیں۔ یہ کوئی ایسا عالمگیر سچ نہیں، جسے ہر کوئی تسلیم کر لے گا۔
ممبئی حملے ہوئے، یہ ایک امر واقعہ ہے۔ اس حملے کے حوالے سے مگربہت کچھ ابھی سامنے نہیں آیا۔ کئی پراسرارپہلوتشنہ ہیں۔ کئی تھیوریز اس پر موجود ہیں۔ اجمل قصاب کے بارے میں بہت کچھ چھپایا گیا۔ خود بھارت، جہاں ہندو شدت پسندی عروج پر ہے، ممبئی حملوں کے خلاف بات کہنا آسان بھی نہیں، اس کے باوجود کئی کتابیں اور درجنوں مضامین ان حملوں کے حوالے سے شائع ہوئے۔ لکھنے والوں میں بھارت کے اعلیٰ ترین سابق پولیس، انٹیلی جنس افسران اور وزیراعلیٰ کی سطح کے سیاستدان شامل ہیں۔ انہیں شبہ ہے کہ ممبئی حملے خود بھارت نے کرائے، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان میں انوالو ہیں۔
ممبئی حملوں میں بھارت کے مشہور افسر ہمینت کرکرے مارے گئے، ان کی موت کے حوالے سے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ حال ہی میں ایک یورپی صحافی اور ریسرچر نے بھی ممبئی حملوں پر کتاب لکھی اور اس کی حقیقتاً دھجیاں اڑا دیں۔ اگر کالم میں گنجائش ہوتی تو بے شمار حوالے دئیے جا سکتے تھے۔ ایسا نہیں کہ میاں نواز شریف ان سب سے واقف نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے ممبئی حملوں کا تعلق پاکستان سے جوڑا اور واضح طور پر یہ تاثر دیا کہ پاکستانی ریاست یعنی ریاستی اداروں نے حملہ آوروں کو ممبئی حملوں کے لئے بھیجا اور اسی لئے ملزموں کے خلاف کیس ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا۔
میاں صاحب یہ بات جانتے ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس جسے بھارتی شدت پسند ہندو گروہ نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا، وہ بھی ابھی تک چل رہا ہے بلکہ اب اس کے مرکزی ملزم رہا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ابھی تک تو نائن الیون کے حملہ آوروں کے خلاف کیس سترہ برس گزر جانے کے باوجود امریکی عدالتوں میں چل رہا ہے۔ میاں نواز شریف کا ہدف واضح ہے۔ وہ ریاستی اداروں بلکہ صاف الفاظ میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں غصہ ہے کہ پانامہ سکینڈل سے بچانے میں عسکری قیادت نے کردار ادا نہیں کیا۔
پانامہ سکینڈل حالانکہ عالمی سکینڈل تھا، اس میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہو سکتا تھا؟ میاں نواز شریف اگر منی ٹریل دینے میں کامیاب ہوجاتے تو سپریم کورٹ جے آئی ٹی نہ بناتی اور شریف خاندان بچ نکلتا۔ یہ جے آئی ٹی کا بننا تھا، جس کے بعد اقامہ کا ایشو سامنے آیا اور میاں نواز شریف نااہل ہوئے اور اب قوی امکان ہے کہاحتساب عدالتوں سے انہیں سزاہوجائے۔ اس میں غلطی یا قصور میاں نواز شریف ہی کا ہے، زیادہ سے زیادہ انہیں عمران خان پر غصہ آنا چاہیے تھا۔ ریاستی اداروں سے وہ ناخوش ہوسکتے ہیں کہ انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ممکن ہے انہیں غصہ شدید ہو، زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے تو یہ کہہ لیں گے کہ ان کے شکوے بجا ہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ پاکستان کے وجود ہی کو نشانہ بنا ڈالیں۔
میاں صاحب نے یہ دھماکہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب بھی مشکل نہیں۔ پاک فوج آج کل چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ امریکہ پاکستان پر شدید دبائو ڈال رہا ہے۔ ایک طرف بھارت کنٹرول لائن پرمسلسل دبائو بڑھا رہا ہے، دوسری طرف افغانستان کی جانب سے بھی مسائل پیدا کئے جارہے ہیں، بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں نے یلغار کر رکھی ہے، عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا جارہا ہے، صرف نو دنوں بعد اس حوالے سے رپورٹ آنی ہے۔
نواز شریف صاحب کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اس نازک موقعہ پر ایسی بات کہنا پاکستان کے لئے ایک نیا فتنہ، دہکتی آگ کا ایک نیا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ لگتا یہی ہے کہ نواز شریف صاحب چاہتے ہیں کہ اس قدر گرد اٹھے، ریاستی ادارے اتنے کمزور ہوجائیں کہ ان کے خلاف جاری قانونی عمل معطل ہوجائے اور پھر عالمی قوتوں کے دبائو سے وہ اقتدار میں دوبارہ آ جائیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ بیان جس اخبار نے شائع کیا، جس رپورٹر نے یہ" کارنامہ "انجام دیا، وہ مجرم نہیں ہے؟ کیا ایک اخبار کو حق حاصل ہے کہ وہ قومی مفادات دائو پر لگا دے۔ جو جی میں آ ئے کر گزرے، صرف اس لئے کہ اشرافیہ اسے پڑھتی ہے اور کسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔
اگر ڈان لیکس کے ہنگامے میں اخبار اور رپورٹر کے خلاف کارروائی ہوتی تو یہ تازہ واقعہ نہ ہوپاتا۔ ہمارے اداروں نے اس وقت جس نرمی کا مظاہرہ کیا، اس کی بھاری قیمت ملک کو ادا کرنا پڑی ہے۔ میرابنیادی نکتہ یہ نہیں کہ نواز شریف صاحب نے اپنے انٹرویو میں کیا کہا، میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ ان کی سطح کے سیاستدان اور لیڈر کو ایسا کرنا چاہیے تھا؟ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ممکن ہے کہ قومی سطح کا رہنما، سابق وزیراعظم ایسا غیر ذمہ دارانہ اور غیر محتاط بیان دے اور پھر اس پر سٹینڈ بھی لے؟ مجھے حیرت ن لیگی حامیوں پر ہے جو تعصب میں اندھے ہو کر سوشل میڈیا پر نواز شریف کا دفاع کرتے رہے۔
کیا سیاسی تعصبات حب الوطنی اور اپنے ملک کی محبت پر بھی غالب آ جاتے ہیں؟ افسوس کہ نوازشریف صاحب کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے اندھے مقلد تاریخ کے ترازو میں تولے گئے اور ہلکے ثابت ہوئے۔