گزشتہ روز ماں بولی کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ عالمی دن منانے کا بھی عجب قصہ ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی چیز کا عالمی دن آ جاتا ہے۔ آٹھ دس سال پہلے کی ایک بات ہے، ان دنوں ایک اور اخبار میں کام کرر ہا تھا، میں لاہور کا میگزین انچارج تھا جبکہ ہمارے سینئر میگزین ایڈیٹر کا تعلق کراچی سے تھا۔ ایک روز انہوں نے طویل فہرست بھجوائی کہ یہ مختلف عالمی ایام کی تفصیل ہے، ان کے حوالے سے صفحات تیار کرا لیجئے گا۔ فہرست میں انوکھے انوکھے دنوں کا تذکرہ تھا، بعض دلچسپ اور کچھ مفید مگر عام قاری کے نقطہ نظر سے بور اورغیر دلچسپ تھے۔ میں نے اس پر احتجاج کیا، میرا موقف تھا کہ اس طرح کے آرٹیکل رسمی نوعیت کے ہوتے ہیں، انہیں کوئی نہیں پڑھتا اور میگزین میں دینے کا مقصد وہ صفحہ ضائع کرنا ہے۔ ہم نے تو اس فہرست کو نظرانداز کر دیا، کراچی میگزین میں البتہ کبھی کبھار کچھ نہ کچھ شائع ہوجاتا۔ میرا آج بھی یہی خیال ہے کہ اہل مغرب کے ایجاد کردہ ان دنوں کی ممکن ہے کچھ اہمیت ہو، مگر ہمیں اپنے طرز زندگی اور طرز فکر کو اس کا اسیر نہیں بنانا چاہیے۔
ہم اپنے ماں، باپ سے محبت اور اس کے اظہار کے لئے کسی مدرز ڈے یا فادرز ڈے کے محتاج کیوں بنیں؟ میرے بچے آج کل کے رواج کے مطابق فادرز ڈے پر مجھے کارڈز وغیرہ بنا کر دیتے رہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ کبھی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔ انہیں ہمیشہ یہی سمجھاتا ہوں کہ اس دن کی مناسبت سے رسمی کارڈ دینے کے بجائے سال بھر میں جب کبھی زیادہ دل چاہے، باپ کی محبت جوش پکڑے تو اسی کیفیت میں چاہے سادہ کاغذ پر دو چار سطریں لکھ کر دو، وہ زیادہ اہم اور قابل توجہ ہوگا۔ ہم لوگوں نے محبت کو بھی ویلنٹائن ڈے کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، وہ بھی خاص قسم کے رومانوی انداز میں، پھول اور چاکلیٹ میں لپٹی ہوئی سرخ رنگ کی محبت۔ پیار کا کسی خاص دن سے کیا تعلق؟ کسی بھی رشتے کے ساتھ محبت کے جذبے میں جب شدت آئے، کسی بھی وجہ سے جذبات کا وفور ہو، تب ظاہر ہے اظہار بھی ہوجائے گا۔ اس کا اصل حسن وہ بے ساختگی اور خالص پن ہے۔ رسمی، مصنوعی طور طریقوں سے بالاتر اظہار۔ چاہے وہ سادگی کے سفید ورق میں لپٹا ہو، اس کی کشش تمام رنگوں پر غالب آ جائے گی۔ ویسے ویلنٹائن ڈے کے کھلے، بے حجاب انداز کے بارے میں ہمارے شدید تحفظات ہیں۔ ہم محبت کے جذبے کو بے لگام چھوڑ دینے کے بجائے اسے پاکیزگی اور احترام کی چھتر چھائوں میں رکھنے کے قائل ہیں۔ محبت تعلق کو دل میں بسانے اور پلکوں پر بٹھانے کا نام ہے، اسے رسوا کرنے کا نہیں۔ افلاطونی محبت کی بات نہیں کر رہا، صرف اخلاقیات کو ترجیحات میں رکھنے اور اظہار کو شائستگی اور سلیقے کا پابند بنانے کی شرط رکھی ہے۔
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ان عالمی ایام کی بات ہو رہی تھی۔ کچھ نہ کچھ نفسیاتی اہمیت ان کی بہرحال ہے۔ ماں بولی کے عالمی دن کے موقعہ پر اس بارفیس بک کی دنیا میں کچھ ارتعاش سا محسوس ہوا۔ بے شمار پوسٹیں اس حوالے سے لکھی گئیں۔ اہل پنجاب اس میں پیش پیش تھے۔ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ پنجاب میں بسنے والی دونوں بڑی قوموں یعنی پنجابیوں اور سرائیکیوں نے اپنی ماں بولی (پنجاب اور سرائیکی)کو نظرانداز کررکھا ہے۔ ان دونوں قوموں کے اہل دانش اور قلم کار اپنے ابلاغ کے لئے عام طور پر اردو زبان ہی کو ذریعہ بناتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ان کے اندر یہ خلش یا گلٹ موجود رہتا ہے۔ فیس بک کے جس حلقے میں خاکسار موجود ہے، وہاں بہت سی پنجابی پوسٹیں پڑھنے کو ملیں، ان تمام میں یہی قلق تھا کہ ہم پنجابی میں کیوں نہیں لکھتے۔ سرائیکی حلقے میں بھی کچھ ایسا ہی اضطراب موجود ہے، ایک فرق کے ساتھ کہ سرائیکی قوم پرست اس مظہر کو بھی تخت لاہور کے ظلم وستم کا شاخسانہ گردانتے ہیں۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ چونکہ سرکار پرائمری تک تعلیم مادری زبان میں نہیں دے رہی، اس لئے سرائیکی پرائمری سطح تک اپنی زبان میں علم نہیں حاصل کر پاتے اور ان کے لئے سرائیکی سکرپٹ پڑھنا آسان نہیں رہتا۔ پنجابی قوم پرست چونکہ تخت لاہور سے شکوہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان پر کسی اور زبان بولنے والی قوم کی اشرافیہ مسلط ہے، اس لئے ان کا تمام تر زور داخلی احتساب پر ہوتا ہے۔ یہ سب بحثیں مثبت ہیں۔ جب تک اس میں نفرت کا رنگ نہ آئے اور کسی دوسری زبان کے لوگوں کو ہدف نہ بنایا جائے۔
اگلے روز بعض دوستوں کے ہمراہ لاہور کی دو ممتاز علمی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سہہ پہر کو جناب احمد جاوید جیسے جینوئن دانشور، صوفی اور ادیب سے دو گھنٹے تک ملاقات رہی جبکہ مغرب کے بعد ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے ممتاز محقق، سکالر، شاعر سے ملنے کا موقعہ ملا۔ یہ بات ایک بار پھر سمجھ آئی کہ اہل علم سے ایک ملاقات کتاب کے سینکڑوں صفحات پڑھنے سے زیادہ افضل کیوں بتائی جاتی ہے۔ احمد جاوید صاحب کا تعلق بنیادی طور پر کراچی سے ہے، وہ سلیم احمد جیسی دیوقامت علمی شخصیت کے قریبی حلقہ سے ہیں، مولانا ایوب دہلوی اور بعض دیگر اہل علم سے بھی استفادہ کیا۔ احمد جاوید صاحب پچھلے پینتیس چالیس برسوں سے لاہور میں مقیم ہیں، اقبال اکیڈمی سے طویل عرصہ منسلک رہے، اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ اہل لاہور کا بڑی محبت سے ذکر کیا، کہنے لگے کہ یہاں کے لوگوں میں تین وصف بڑے نمایاں ہیں۔ دوستی کی قدر قیمت پہچانتے ہیں، ان میں بے تعصبی کمال کی ہے باہر سے آنے والوں سے قطعی تعصب نہیں برتتے اور تیسرا یہ کہ بڑوں کی عزت کی روایت مستحکم ہے۔ کسی نے لقمہ دیا کہ لاہور شہر کا منظر نامہ اب تو بالکل بدل چکا ہے، یہ وہ لاہور نہیں جو پہلے کبھی تھا۔ اس سے اتفاق کرتے ہوئے احمد جاویدصاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ماحول بدلا ہے، لوگ نہیں بدلے، ان کا مزاج پہلے جیسا ہی ہے۔ کہنے لگے کہ لاہوریوں اور اہل پنجاب کی عمومی بے تعصبی کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ ان میں لسانی اعتبار سے اپنی زبان کی حساسیت باقی نہیں رہی۔ بتانے لگے کہ میں لاہور میں اتنے عرصے سے رہنے کے باوجود پنجابی روانی سے نہیں بول سکتا، وجہ صرف یہ ہے کہ میں جس پنجابی دوست سے پنجابی بولنے کی کوشش کروں، وہ جواب میں اردو بولنے لگتا ہے، یوں میری پنجابی رواں نہیں ہوپاتی۔ کہنے لگے کہ پنجابیوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت برصغیر کی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے، وہ زبان Accent کی حد تک جذب کر لیتے ہیں، کراچی میں ایسے بہت سے نجیب الطرفین پنجابی گھرانے دیکھے جن کی اردو دیکھ کر معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اہل زباں نہیں۔ احمد جاوید صاحب نے زور دے کر ایک بات کہی کہ پرائمری تک تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے کہ بچے اس میں علم زیادہ اچھے طریقے سے حاصل کر پاتے ہیں اور وہ ذہن کے اہم گوشوں تک رسائی پاتا ہے۔ اسی طرح اردو زبان کے حوالے سے کہنے لگے کہ جب تک اس میں اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع نہیں ہوگا، تب تک اس زبان میں اعلیٰ فکری مباحث نہیں ہوسکتے۔ فلسفہ کے بیشتر مسائل اردو میں بیان ہی نہیں ہوسکتے، انگریزی میں ان پر گفتگو ہوسکتی ہے، وجہ صرف یہ کہ اردو کو اعلیٰ تعلیمی زبان بنایا ہی نہیں گیا تو اس میں وہ فریم ورک ہی نہیں بن سکاجس میں اعلیٰ ترین فکری خیالات پنپ سکیں۔
ایک اور نکتہ جس پر دلچسپ گفتگو ہوئی، وہ اردو زبان وادب میں اہل پنجاب کا کردار ہے۔ دو تین لوگوں نے یہ نکتہ اٹھایا اور بہت سے نامور اہل قلم کے نام گنوائے۔ احمد جاوید صاحب نے اعتراف کیا کہ اردو ادب کے اسی فیصد بڑے نام اہل پنجاب سے ہیں، منٹو، بیدی، کرشن چندر، مجید امجد، میرا جی وغیرہ۔ کہنے لگے کہ مثال کے طور پر اقبال جیسے دیوقامت شاعر کے ساتھ کس کا موازنہ ہوسکتا ہے؟ ایک باریک نکتہ پھر انہوں نے بیان کیا۔ کہنے لگے: "اہل زباں کے ہاں زبان روزمرہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے، وہ زبان پر تحقیقی، تخلیقی گرفت نہیں رکھتے۔ یہ ان کی قدرت اظہار چیزوں کے ساتھ ان کے تعلق کو رکھتی ہے۔ چیزوں کے نام زیادہ آتے ہیں، لہجہ درست ہوتا ہے، اظہار محبت، اظہار عداوت وہ بے تکلفی، روانی سے اپنی زبان میں کرتے ہیں۔ اس سے ایک Horizontality پیدا ہوجاتی ہے، وہ بس چیزوں کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے، لفظ علامتیں نہیں بنتے، یوں اہل زباں میں ایک مجبوری داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس کوئی غیر زبان والا، جیسے پنجابی اگر اردو سیکھے گا تو وہ اس کا کلچر اختیار کر کے سیکھے گا، وہ زیادہ محنت کرے گا اور یوں روزمرہ کی سطح سے زیادہ گہرے تخلیقی جوہر تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ہاں زباں صرف چیزوں کا نام نہیں بن جاتی بلکہ آپ کے اندر پیدا ہونے والے تصورات کا عنوان ہوجاتی ہے۔ اہل زباں کے لئے زباں فعل (VERB) کی حیثیت جبکہ غیر اہل زبان کے لئے وہ زباں اسم کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ جو فرق اسم اور فعل میں ہوتا ہے، اہل زباں اور غیر اہل زباں میں وہی فرق آجاتا ہے۔"انہوں نے یہ البتہ واضح کر دیا کہ میں اہل زباں بطور گروہ کی بات کر رہا ہوں، ورنہ کئی نمایاں استثنائی مثالیں موجود ہیں۔