Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Wo Din Aa Hi Gaya

Wo Din Aa Hi Gaya

خدا خدا کر کے الیکشن کا دن آ ہی گیا۔ ہمارے ہاں ہر بار عام انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ جاتا ہے، بے یقینی اور شکوک آخر وقت تک چھائے رہتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات لہورنگ تھے، اس بار بھی انتخابی عمل کے دوران بڑا خون بہا۔ کئی افسوسناک واقعات ہوئے۔ کے پی کے اور بلوچستان اس کا ہدف بنے، شائد وہاں دہشت گردوں کی کچھ جڑیں ابھی باقی ہیں یا پھر افغانستان سے آ کر تخریب کاری کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب جیسے صاحب کشف بزرگ الیکشن کے بارے میں تشویش کا شکار تھے، وہ دعا اور استغفار کا کہتے، خدشہ تھا کہ کہیں خونیں واقعات کی وجہ سے سب کچھ تلپٹ نہ رہ جائے۔ مایوسی اور بے یقینی بڑھ جانے کے خدشہ سے میرے جیسے لوگ یہ بات اپنے کالموں میں لکھنے سے بھی گریز کرتے رہے کہ انتخابات کا وقت پر ہونا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو جتنے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اس کے لئے ایک مضبوط سول حکومت اور سیاسی استحکام درکار ہے۔ کل انتخابات ہیں، اللہ کے فضل وکرم سے یہ دن بھی خیر وعافیت سے گزر جائے گا۔ اس الیکشن میں کئی نئے کام ہوئے، کچھ اچھے، بعض برے ٹرینڈز سامنے آئے۔ ووٹروں نے سوال پوچھنے شروع کر دئیے۔ ایسے منہ زور، اکڑی گردن والے سرداروں، وڈیروں سے عام آدمیوں نے بھرے مجمع میں تند وتیز سوال پوچھے اور پھر بے باکی سے ویڈیو کلپس بنا کر نیٹ پر ڈال دئیے۔ یہ ہمارے ہاں پہلی بار ہوا، لگتا ہے آنے والے برسوں میں یہ ٹرینڈ بہت زیادہ بڑھے گا۔ دوسری طرف سیاست میں الیکٹ ایبلز کا زور بھی بڑھا۔ تحریک انصاف جو بڑے پیمانے پر عوامی سپورٹ کی دعوے دار ہے، اس نے بھی اس بار مضبوط امیدواروں پر انحصار کیا۔ انصافین نوجوان البتہ بڑے اتھرے اور پرجوش ہیں۔ انہوں نے کمپین چلا کر کئی ٹکٹ واپس کرائے اورسکندر بوسن جیسے بعض دراندازوں کو پسپا ہونے مجبور کر دیا۔ ایک مایوس کن رویہ انتخابی مہم کا اہم عوامی ایشوز پر فوکس نہ ہونا تھا۔ لوگوں کا اپنے امیدواروں اور سابق ارکان اسمبلی سے سوال پوچھنا تو اچھی شروعات ہے، لیکن زیادہ تر باتیں گلی، سڑک، سیوریج تک ہی محدود تھیں۔ امیدواروں کے وعدے بھی کونسلر کی سطح کے تھے۔۔ عمران خان نے معیشت کی تباہی پر بات کی، مگرعمران خان زراعت کے حوالے سے عام آدمی کے جذبات نہیں سمجھ سکے۔ دیہی علاقوں، خاص کر جنوبی پنجاب کے عوام کا دل جیتنے کے لئے تین چار باتیں کہنی ضروری تھیں، شوگر ملز خواہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی ہوں، گنے کی سرکاری ریٹ پر خریداری یقینی بنائی جائے گی، گندم کے لئے باردانہ کی فراہمی آسان اور میرٹ پرہوگی، ٹیل والی زمینوں تک پانی کی رسائی یقینی، کھاد سستی اور سپرے کی جعلی ادویات کا خاتمہ جبکہ جنوبی پنجاب کے طلبہ کے سوہان روح بنے انٹری ٹیسٹ کا خاتمہ ہوگا۔ اس انٹری ٹیسٹ کی وجہ سے سرائیکی وسیب کے دورافتادہ علاقوں کے غریب طلبہ اعلیٰ نمبر لینے کے باوجود انٹری ٹیسٹ کے لئے اکیڈمیوں کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے میڈیکل، انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ سے رہ جاتے ہیں۔ افسوس کہ عمران خان ان سادہ بنیادی باتوں کوسمجھنے کے بجائے وہ موٹی موٹی باتیں کرتے رہے جو عام آدمی نہیں سمجھ پاتا۔ خیر الیکشن کمپین تو جیسے تیسے گزر ہی گئی۔ عمران خان جو بڑے جلسے کرنے میں مشہور ہیں، جھنگ، جہلم وغیرہ میں ان کے جلسے ہلکے گئے تو سوشل میڈیا پر ن لیگی سیلز نے طوفان اٹھا دیا۔ پی ٹی آئی کی اپنی وضاحتیں تھیں کہ عمران کا دورہ طوفانی تھا، بعض جلسے حلقہ وائز ہوئے، کہیں پر جلسہ کی ٹائمنگ درست نہیں تھی، گرمی اپنی جگہ فیکٹر تھا، مقامی تنظیم نے بھی سستی دکھائی ہوگی۔ سیاسی جنگ میں بہرحال یہ تو ہوتا ہے، کسی نے لوز گیند کرائی تو مخالف شاٹ لگائے گا۔ یہ البتہ دلچسپ بات ہوئی کہ جب بہاولپوراور ملتان میں اچھے خاصے جلسے ہوئے اور خیبر پختون خوا میں بنوں، کرک میں بڑے اجتماعات کئے، کراچی کا جلسہ کامیاب رہا، تب وہی ن لیگی خاموش ہونے کے بجائے یہ جواز پیش کرنے لگے کہ جلسوں سے کیا ہوتا ہے، عمران کے جلسوں میں تو لوگ پچھلی بار بھی گئے تھے، الیکشن جیتے تب مانیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ ن لیگ کی کمپین" لیڈر لیس" تھی۔ نواز شریف صاحب اپنی شعلہ بیان بیٹی کے ہمراہ جیل میں ہیں، شہباز شریف سے انتخابی مہم سنبھالی نہیں جا رہی۔ ن لیگ کو البتہ ایزی نہیں لیا جا سکتا کہ ان کے پاس بیشتر حلقوں میں اچھے اور مضبوط امیدوار موجود ہیں۔ پنجاب کے بہت سے حلقوں میں خاصا سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ ایم ایم اے پنجاب میں کوئی تاثر نہ چھوڑ پائی، خیبر پختون خوا میں بعض حلقوں پر اس کی پوزیشن اچھی ہے، کہا جا رہا ہے کہ صوبہ میں پی ٹی آئی کے بعد ایم ایم اے دوسرے نمبر پرآ سکتی ہے، اگرچہ مولانا فضل الرحمن کو خلاف توقع ڈی آئی خان میں اپنے دونوں حلقوں پرسخت مقابلہ درپیش ہے، جس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اے این پی کے ایک اہم لیڈر شہید ہوئے، اس کی وجہ سے ہمدردی کی لہر ہے، دو چار حلقوں میں اس کا فائدہ ہوگا، ورنہ یہ قوم پرست جماعت بھی جمود کا شکار رہی۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر کم بیک کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاول بھٹو قومی سیاست میں خوشگوار اضافہ ہیں۔ سلیقے سے انہوں نے تقریریں اور گفتگو کی، سنجیدہ، معتدل حلقے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ زرداری صاحب نے پنجاب میں پیپلزپارٹی تباہ تو کر ڈالی، مگر اب اسے جوڑنے کے لئے خود آنے کے بجائے برخوردار کو آگے کر دیا۔ اگر وہ الیکشن کے بعد دوبارہ سے آگے آئے اور بلاول کوکارنر کر دیا تو زیادتی ہوگی۔ اسے پھر"شو بوائے آف پی پی پی" سمجھا جائے گا۔ بلاول کو اب فرنٹ پر کھیلنا چاہیے، تب جا کر ان کی قومی سیاست میں اہمیت اور مرکزی جگہ بن پائے گی۔ ملک کی کئی زمینی سیاسی حقیقتیں بدل گئی ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی کراچی میں آئی ہے۔ اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ متحدہ آٹھ سے دس نشستیں، پیپلزپارٹی چار، مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی دو، تحریک انصاف تین سے چار اور ایم ایم اے بھی ایک سے دو نشستیں نکال سکتی ہے۔ کراچی کا ٹرن آئوٹ بہت اہم ہے۔ اگر پنتالیس پچاس فیصد یا اس سے تھوڑا زیادہ ٹرن آئوٹ ہوا تو اس کا مطلب ہے نوجوان ووٹر باہر نکل آیا ہے۔ یہ نیا ووٹر پی ٹی آئی کی طرف جا سکتا ہے اور اس کی نشستیں بڑھ جائیں گی، ورنہ روایتی مہاجر ووٹر باہر آیا تو وہ کسی حد تک پتنگ کے نشان کے ساتھ پرانی وابستگی دکھائے گا۔ تحریک لبیک نے بھی اس بار پنجاب کے ساتھ کراچی میں بھی ہلچل مچا رکھی ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ وہ کس کے ووٹ کاٹے گی اور اس کا فائدہ کسے پہنچے گا۔ پنجاب میں حقیقی مقابلہ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے، رحیم یار خان میں مخدوم احمد محمود کے بیٹوں اور ملتان میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادوں کے سوا پی پی پی کے پاس کچھ نہیں۔ کوئی امیدوار ضمانت بچا گیا تو وہ خوش نصیب ہوگا۔ لاہور ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، پچھلی بار تیرہ میں سے بارہ نشستیں انہیں مل گئیں۔ اس بار لاہور کی چودہ نشستوں میں سے نصف پر پی ٹی آئی سخت مقابلہ کر رہی ہے اور بعید نہیں کہ وہ چار چھ نشستیں جیت لے۔ عمران خان، علیم خان، شفقت محمودکی نشستیں مل جائیں گی، ڈاکٹر یاسمین راشداور بیرسٹرحماد اظہراپ سیٹ کر سکتے ہیں جبکہ کھوکھروں والے حلقوں میں ایک نشست نکالی جا سکتی ہے، تین چار دیگر حلقوں میں بھی اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ لاہور کا یہ نیاسیاسی منظرنامہ ہے۔ اسی طرح فیصل آباد ن لیگ کا گڑھ تھا، مگر اس بارصرف عابد شیر علی کی سیٹ ہی محفوظ سمجھی جا رہی ہے، پی ٹی آئی وہاں پانچ سے چھ، سات سیٹیں تک جیت سکتی ہے۔ گوجرانوالہ کی شہری نشستوں چھوڑ کر ضلع کی باقی نشستوں پر ن لیگ کی اجارہ داری خطرے میں ہے۔ جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کو واضح برتری حاصل ہے، بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان، راجن پور، لیہ، میانوالی وغیرہ میں اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے، سرگودھا کی دو تہائی نشستیں تک جیت سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ن لیگ ختم ہوگئی۔ پنجاب میں اس کی جڑیں کمزور نہیں ہیں۔ وہ بساط الٹ بھی سکتی ہے۔ اگر وہ ستر، اسی نشستیں جیت گئی تو پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے ساتھ مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں ستر سے اسی نشستیں پی ٹی آئی جیت سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر خیبر پختون خوا میں پندرہ سے بیس، اسلام آباد کی دو یا تین، سندھ سے چھ سات اور بلوچستان کی ایک آدھ نشست کے ساتھ وہ ہنڈرڈ پلس کے جادوئی ہندسے کو چھو سکتی ہے۔ حکومت بنانے کے لئے پی ٹی آئی کو ایک سو پانچ سے ایک سو پندرہ بیس تک سیٹیں ضرور لینی چاہئیں، ورنہ وہ دوسری جماعتوں کی بلیک میلنگ کا شکار رہے گی۔ اگر خاموش اور ابھی تک فیصلہ نہ کر نے والے ووٹر کا رخ پی ٹی آئی کی طرف گیا تو یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت میں اگر پی ٹی آئی پنجاب میں ساٹھ اور مجموعی طور پر اسی نوے تک محدود رہی تو پھر معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ پاکستان کے لئے یہی بہتر ہے کہ مضبوط حکومت بنے، تاہم اصل فیصلہ پاکستانی ووٹرز نے کرنا ہے۔ وہ دن آ ہی گیا