آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل پر دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے جو طرز عمل اپنایا، اس سے ان کے پرجوش کارکنوں اور نظریاتی حامیوں کو دھچکا لگا ہے۔ پیپلزپارٹی سے حسن ظن رکھنے والے بھی اب کچھ شرمائے شرمائے، آنکھیں جھکائے پھر تے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل یا تاویل نہیں بچی۔ دو چار نے بلاول بھٹو کی اس دلیل کی آڑ لینے کی کوشش کی کہ ہم نے بل پارلیمانی قاعدے کے مطابق منظور کرانے پر زور دیا ہے اور صرف اسی صورت میں حمایت کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس انقلابی دلیل کے مطابق اگر حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل اگر قائمہ کمیٹی میں منظوری کے بعد اسمبلی میں آئے تو پھر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اس دلیل میں کتنا ایک وزن ہوسکتا ہے، ہر کسی کو اندازہ ہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہی بلاول بھٹو اٹھارویں ترمیم میں معمولی سی تبدیلی کی کوشش کے بھی خلاف ہیں، خواہ وہ بل قائمہ کمیٹی میں منظوری کے بعد تمام تر پارلیمانی قواعد کے مطابق اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ ایسی کسی بھی ممکنہ کوشش کے وہ شدید مخالف ہیں۔ البتہ جہاں انہیں اپنا مفاد نظر آ رہا ہے یا کسی قسم کی پس پردہ ڈیل ہوچکی ہیں، وہاں پر معمولی سا اعتراض کرنے کی کوشش بھی نہیں ہو رہی۔ اگلے روز ایک صاحب نے ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ جناب رضا ربانی کیا ایک بار پھر ڈبڈبائی آنکھوں سے، آنسو ٹپکاتے ہوئے اس بل پر دستخط کریں گے؟ اس سوال کو فیس بک پر ڈالا تو سوشل میڈیا کے گستاخ ناقدین رضاربانی پر برس پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس شخص کو جناب زرداری اور ان کے ساتھیوں کی لوٹ مار نظر نہیں آرہی، اس کے آنسو بھی مصنوعی اور تاسف بھی ناقابل اعتبار۔ پیپلزپارٹی کی خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ جیالوں کی بڑی تعداد دلبرداشتہ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئی۔ اس لئے اب پارٹی جو مرضی کرے، کوئی احتجاج کرنے والا موجود نہیں۔
مسلم لیگ ن کا معاملہ زیادہ دلچسپ ہے۔ پانامہ کیس میں عدالت کے فیصلے کے بعد سے اچانک ہی میاں نواز شریف نے بڑا انقلابی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سٹینڈ لیا۔ اسلام آباد سے لاہور موٹر وے کے ذریعے واپسی کے بجائے انہوں نے جی ٹی روڈ کے ذریعے آنے کا فیصلہ کیا، مقصد یہی تھا کہ جگہ جگہ جلسوں سے پرجوش خطاب کر کے ماحول گرمایا جائے۔ انہوں نے "مجھے کیوں نکالا؟ "کا نعرہ لگایا اور ججوں پر حملوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی تیر برساتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد میاں صاحب نے جس رپورٹر نے ڈان لیکس شائع کی تھی، اسی کو بلوا کر ایک انکشاف خیز انٹرویو دے ڈالا، تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکنے والے لیڈر نے ڈان لیکس کی باتوں کی کم وبیش تصدیق کر ڈالی۔ اس کا مقصد بھی" پنڈی "والوں پر دبائو ڈالنا تھا۔ میاں صاحب نے نااہل ہونے کے بعد جو سیاسی موقف اختیار کیا، اسے ایک باقاعدہ سیاسی بیانیہ بنانے میں ہمارے میڈیا کے بعض دوستوں کا اہم کردار ہے۔ چند کالم نگاروں، اینکرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے اپنی طلاقت لسانی کے زور سے میاں نواز شریف کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بنا کر پیش کیا۔ انہیں لگا کہ میاں صاحب اپنے ماضی کو بھول کر آگے بڑھ چکے ہیں، خیر کی طرف ان کا سفر جاری ہے اور وہ عوام کی آواز بنے ہیں۔ میاں صاحب کی امیج بلڈنگ کی جاتی رہی۔ سویلین سپرمیسی کی جنگ میں انہیں حق کی راہ پر کھڑے لشکر کا سالار بتایا گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کسی مفاد کے تحت ہوا۔ میاں نوازشریف کی حمایت کرنے والے کئی لوگ ایسے تھے جن کی دیانت پر شبہ نہیں۔ اپنی دانست میں وہ پورے خلوص سے اپنے لیڈر کو سپورٹ کر رہے تھے۔ افسوس کہ ان کا تمام تر زورِکلام، استدلال اور بیانیہ میاں نواز شریف کو حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر نہ بنا سکا۔ یہ سیاسی رومان اپنے فطری انجام پر پہنچا۔ میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر نے آزمائش کے مرحلے پر اپنے سب حامیوں کو مایوس کیا۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ پچھلے دو برسوں سے ن لیگ کا کیس لڑتے رہے۔ وہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کا دفاع کرتے اور ان کے حق میں استدلال کی ایک عمارت کھڑی کر دیتے تھے۔ پچھلے دو تین دنوں سے ٹوٹے سپنوں کی کرچیاں ہر ایک کے آنکھوں میں کھبی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ بہت سے خاموش ہیں، بعض دلبرداشتہ اور چند ایک کمزور سی آواز میں وہ کہہ رہے ہیں جو شائد انہیں بھی سمجھ نہیں آ رہا۔ دراصل ان کا سیاسی رومان تھا ہی یک طرفہ۔ ون سائیڈڈ عشق ہمیشہ یہی نتیجہ لاتا ہے۔ میاں صاحب کے حامیوں نے دو اہم غلطیاں کیں اور ایک بڑی حقیقت نظرانداز کر دی۔
انہیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جمہوریت ایک مکمل پیکیج ہے۔ انقلاب ایک ایسی ڈش ہے جس کی ترکیب (Recipe) پیچیدہ ہے۔ جب تک اس میں تمام مسالہ جات ڈال کر دھیمی آنچ پر پکایا نہ جائے تب تک درست نتیجہ نہیں نکل پاتا۔ عجلت میں، جو مسالہ ہاتھ آئے ڈال کر پکا ئو تو پھر کچا پکا نتیجہ ہی نکلے گا۔ میرے جیسے لوگ میاں نواز شریف کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا طرز عمل غیر جمہوری اور آمریت کی جانب جھکا ہوا تھا۔ وہ سیاسی جماعت کو وراثتی جائیداد سمجھتے تھے جس کی قیادت ان کی اولاد کا حق ہے جبکہ طرز حکومت ہمیشہ شخصی حکمرانی جیسا تھا۔ انہوں نے جمہوری اصولوں کو اپنے اوپر لاگو کیا نہ کبھی اپنی جماعت کو حقیقی معنوں میں سیاسی جماعت بنایا۔ کبھی الیکشن کرائے نہ ہی کارکنوں کو توقیر دی گئی۔ میاں صاحب کی سیاسی لغت میں کارکن ہمیشہ شطرنج کی بساط پر گرے پیادوں کی طرح تھے۔ جب اور جہاں چاہا، انہیں قربان کر دیا۔ جمہوریت کا علمبردار وہی شخص ہوسکتا ہے جو سب سے پہلے اپنے اوپر جمہوریت لاگو کرے، جو پارٹی کو گراس روٹ لیول پر منظم کرے، جو قربانیاں دینے والے کارکنوں، لیڈروں کو اوپر لے آئے نہ کہ اپنی نکمی اولاد، بھانجوں، بھتیجوں کو مسلط کرے۔ عوام کی ترجمانی اور ان کی روح کے ساتھ وہی ناتا جوڑ سکتا ہے جو عام آدمی کے مسائل سمجھ سکے، انہیں دور کرنے کی سعی کرے۔ جس کی تمام تر سیاست کا مرکز عوام کی فلاح ہو۔ جو اقتدار کے خواہش مند ہوں، جو سیاسی جماعت کو الیکٹ ایبلز کا پلیٹ فارم بنا کر الیکشن جیتنا چاہیں، جن کی سیاست میں اصول سرے سے ناپید ہوں، ان سے انقلاب کی امید لگانا دانشمندی نہیں۔ ہمارے بیشتر سیاستدان جمہوریت کا نام اس لئے لیتے ہیں کہ ملک میں اقتدار حاصل کرنے کا یہی طریقہ کار ہے۔ ورنہ ان میں سے بیشتر کو مخالفوں کے گلے کاٹ کر تلوار کی قوت سے حکمران بننے میں کوئی عار نہیں۔
میاں نواز شریف اور ان کا نو تخلیق کردہ بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا۔ تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو عمران خان نے مایوس کیا، بعض کو بھٹو خاندان کے وارث زراری بلوچ نے جبکہ عوامی انقلاب لانے کے خواہش مندوں کو میاں نواز شریف نے دھوکا دیا۔ اچھا ہوا کہ ہمارے دانشور، تجزیہ کار اور لکھاری بھی اپنے رومان سے باہر نکل آئے۔ نئی سحر کاخواب ضرور دیکھنا چاہیے، مگر اس بار اپنی توجہ کا مرکز شخصیات کے بجائے سماج اور عوام کو بنانا چاہیے۔ یک طرفہ رومان کے بجائے عوام کے ساتھ دو طرفہ محبت کے رشتے میں جڑنا چاہیے۔ نتائج آنے میں ممکن ہے کچھ دیر لگے، مگر یہ فصل پہلے سے مختلف اور شاندار ہوگی۔