Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Zaati Mehroomi

Zaati Mehroomi

پچھلے ہفتے ذاتی صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ بزرگوں کی دعائیں اس کٹھن زندگی کو آسان بناتی اور تاریکیوں میں امید کی کرن جگاتی ہیں۔ ان دعائوں سے محرومی ایسا بڑا صدمہ ہے جس کا متبادل نہیں۔ زندگی کا سفر کچھ ایسا ہے کہ جذباتی دھچکے، صدمے اٹھا کر پھر سے چلنا شروع کردیتے ہیں، وہ گھائو مگر مندمل نہیں ہوتے۔ ہر اہم موقعہ پرقلب وجاں سے پھر لہو رسنے لگتا ہے۔ پچھلے سال دو جون کو والدہ محترمہ ستائیس رمضان کی صبح دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئیں، اسی شام احمد پورشرقیہ کے ہمارے آبائی قبرستان میں تدفین بھی ہوگئی۔ ایسا لگا جیسے وجود کا بڑا حصہ کٹ کر ساتھ ہی چلا گیا۔ چھ ماہ گزر گئے، ابھی تک یہ خواب ہے۔ ان لمحوں کو سوچنے کی ابھی تک ہمت نہیں ہوسکی۔ جیسے ہی خیال آیا، دم گھٹنے لگتا ہے۔ ذہن کو کسی اور سمت بھٹکانا پڑ گیا۔ ممکن ہے رب کریم کبھی ہمت دے کہ اس جذباتی سانحے پر کچھ لکھا جا سکے۔ چھ ماہ، سات دن بعد نو جنوری 2020 کو بڑی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔ والد محترم کی پہلی شادی ان سے ہوئی تھی، ہم انہیں بڑی امی کہتے تھے۔ ہم دو بھائی چھوٹی والدہ جبکہ دونوں بہنیں بڑی والدہ سے تھیں، مگر اس بات سے لاعلم کوئی بھی شخص برسوں کے تعلق کے باوجود یہ نہیں جان پاتا۔ الحمداللہ ہمارے گھر میں کبھی اس حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہوئی۔ بڑوں نے یہی تربیت دی تھی۔ بڑی امی طبعاً نہایت سادہ، محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ ہر ایک کے لئے سراپا دعا۔ طویل عرصے سے شب وروز عبادت میں گزرتے۔ ہزار دانوں والی تسیبح ہمیشہ ان کے ہاتھ میں دیکھی، ہمہ وقت درود شریف اور دیگراوراد پڑھتی رہتیں۔ ایک بار مجھے بتایا کہ ہر روز تمام اہل خانہ کے لئے الگ الگ سلامتی کے نوافل پڑھنے کے ساتھ کل مسلم امہ، کل دنیا کی سلامتی کے لئے بھی نوافل پڑھاکرتی ہوں۔

روایت ہے کہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒ کے پاس ایک بزرگ تشریف لائے، گفتگو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ دلاوری کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ انسان اپنی تمام ذمہ داریاں (فرائض) ادا کرے اور اپنے حصے کے حقوق سے دستبردار ہوجائے۔ حضرت بغدادی سن کر مسرور ہوئے، آپ پیرانہ سالی کے باوجود کھڑے ہوئے اور شاگردوں سے کہا، "شیخ کا اکرام کرو، انہوں نے وہ بات کہی ہے کہ زمین اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔"ہم نے اپنی والدہ مرحومہ اور بڑی والدہ صاحبہ دونوں میں اسی طرز عمل کی جھلک دیکھی۔ دنیا سے کبھی کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں، اہل خانہ یا کسی اور سے کسی قسم کا شکوہ نہیں۔ زبان پر ہر وقت شکر کے کلمات، طویل بیماری نے بھی تلخ نہیں کیا۔ بڑی والدہ صاحبہ آخری دو ڈھائی سال فالج کی وجہ سے بستر تک محدود رہیں۔ ادویات کی وجہ سے یاداشت بھی کچھ متاثر ہوئی، مگر وہی تسبیحات، دعائیں زندگی کا اوڑھنا بچھونا رہیں۔ ہر ایک کو مسکرا کر جواب دینا۔ میرے بھانجے محمد علی خاکوانی سے انہیں بہت پیار تھا، وہ آج کل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل رحیم یار خان ہے۔ بڑی امی کی طبیعت بگڑ گئی، اہل خانہ پریشان ہوکر سورہ یاسین کا ورد کرنے لگے۔ بھانجا محمد علی پتہ چلنے پر احمد پور پہنچا، اسے دیکھا تو خوشی کی چمک آنکھوں میں لہرائی، چند لمحوں کے بعدنواسے کی باہوں ہی میں دم دے دیا۔ قصے کہانیوں میں ایسی دلی محبت کی بات پڑھتے تھے، عملی طور پر بھی دیکھ لیا۔ تعزیت کے لئے آنے والی خواتین ایک ہی بات کہتی رہیں کہ ہم نے ان میں خیر کے سوا کچھ اور نہیں دیکھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اپنے اگلی نسل کے لئے ایسی دمکتی، جگمگاتی مثال قائم کی، جس کی پیروی آسان نہیں۔ رب کریم جو دلوں کے حال جانتا اور نالائقوں، پست حوصلہ، کمزوروں کا بھرم رکھنے والا ہے، ہمیں بھی خیر کی طرف متوجہ کرے اور بھرم قائم رکھے، آمین۔

احمد پورشرقیہ دو تین دن قیام رہا۔ اس دوران احمد پور کے اہل علم میں سے ایک منصور خان علیزئی سے ملاقات ہوئی۔ برادر کبیر منصور خان نامور عالم دین اور صوفی بزرگ مفتی ولی حسن ٹونکی مرحوم کے مرید ہیں، دوران ملازمت کراچی قیام کے دوران مولانا یوسف بنوریؒ اور دیگر جید علما دین کی صحبت میں رہے۔ اصل بات تو اخذ کرنا ہے، کوئی برسوں میں نہیں کرپاتا، بعض چند ملاقاتوں میں بہت کچھ پا لیتے ہیں۔ ہمارے محترم بھائی نے اہل علم سے اپنا پیمانہ خوب بھرا۔ شہر میں میرے جیسے طلبہ کے لئے ان کا وجود غنیمت ہے۔ ان سے ملاقات میں بڑا نفع اس بار یہ پہنچا کہ احمد پورشرقیہ کے مشہور عالم دین اور مدرس علامہ محمد عبداللہ صاحب کی تصنیفات کا مجموعہ مل گیا۔ عبداللہ صاحب صرف نام کے علامہ نہیں بلکہ اپنے علم وفضل کی بنا پریہ لفظ ان کو خوب زیب دیتا تھا، تاہم انہوں نے باقاعدہ طور پر جامعہ عباسیہ بہاولپور سے علامہ کی ڈگری لے رکھی تھی۔ بہاولپور میں نواب بہاولپور نے 1925میں ایک بڑی علمی، دینی درسگاہ جامعہ عباسیہ کے نام سے قائم کی۔ اس کی سب سے اعلیٰ ڈگری علامہ کہلاتی تھی۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی اس کے پہلے شیخ الجامعہ تھے۔ بڑے بڑے اہل علم اس درسگاہ میں پڑھاتے رہے۔ 1963میں وفاقی حکومت نے جامعہ عباسیہ کا نام بدل کر جامعہ اسلامیہ رکھ دیا تھا، بعد میں بھٹو صاحب کے دور میں اسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا نام دیا گیا، مگر اب اس کا دینی تعلیم سے کوئی تعلق باقی نہ رہا۔ سابق دور میں غزالی دوراں سید احمدسعید کاظمی ؒ اس کے شیخ الحدیث، علامہ شمس افغانی جیسے عالم دین شیخ التفسیر رہےتھے۔ مولانا عبداللہ صاحب نے مولانا گھوٹوی کے علاوہ مولانا صادق بہاولپوری سے بھی استفادہ کیا۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کی ااور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ؒ سے درس تفسیر لیتے رہے۔ انگریزی کے امتحانات بھی پاس کئے اور پھر طویل عرصہ تک احمد پور کے فاضل عربی سکول میں پڑھاتے رہے، بعد میں سکول کا نام گورنمنٹ عربی سکول ہوگیا۔ کسی وجہ سے برسوں ان کی تنخواہ اور پھر بعد میں پنشن بند رہی۔ رشوت دیتے تو فوراً کام ہوجاتا۔ مولانا نے سفید پوشی میں نہایت قناعت اور خودداری سے زندگی گزار دی اور تنخواہ کی بندش کی پروا نہ کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مولانا عبداللہ احمد پورشرقیہ ہی مقیم رہے اور علمی سرگرمی میں مشغول رہے۔ انہوں نے کئی کتابیں اور مقالے لکھے، جن میں سے ایک اہم کتاب" صحابہ کرام اور ان پر تنقید " ہے۔ یہ مولانا مودودی کی مشہور کتاب خلافت اور ملوکیت کا علمی جائزہ ہے۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ خلافت اور ملوکیت پر تنقید میں بہت کچھ لکھا گیا، علامہ عبداللہ صاحب کی کتاب مگر شائستہ علمی تنقید اور مدلل اسلوب کا ایک نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ انہوں نے ذاتیات پر جائے بغیر ایک مدلل جوابی بیانیہ تشکیل دیا۔ خلافت اور ملوکیت اپنے کالج کے زمانے میں پڑھی اور سچ تو یہ ہے کہ اس نے ہلا کر رکھ دیا۔ بعد میں برسوں کے سوچ بچار کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اس کتاب سے سید مودودی کے بطور داعی کردار کو نقصان پہنچا۔ علامہ عبداللہ کی کتاب پڑھنے کے بعد مزید یکسوئی ہوئی کہ اس کام سے اگر مولانا بچ سکتے تو انہیں اور ان کے علمی مشن کو زیادہ فائدہ پہنچتا۔ قادیانیت کے خلاف بھی علامہ عبداللہ کی دو کتابیں ہیں، وہی شائستہ علمی اسلوب ان میں پایا جاتا ہے۔ مقالات میں سے ایک دلچسپ اور اہم ڈاکٹر حمیداللہ کے مشہور خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کا میں دیرینہ مداح ہوں، انکے خطبات بہاولپور بھی ایک سے زائد بار پڑھے اور نفع پایا۔ مولانا عبداللہ صاحب کامقالہ مگر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ علمی گرفت کیا ہوتی ہے اور دین کے لئے خالص محبت کے پیش نظر کسی بڑے اور ممدوح اہل علم کی غلطیوں کا کس طرح محاسبہ کیا جا سکتا ہے؟

علامہ عبداللہ کی تصنیفات کے مجموعہ کے علاوہ ان پر لکھی گئی کتاب بھی پڑھنے کوملی۔ اس میں ان کے کچھ ملفوظات بھی موجود ہیں۔ کالم میں گنجائش موجود نہیں، ورنہ ان میں سے چند ایک نقل کرتا۔ علامہ صاحب کی تحریریں پڑھنے کے بعد شدید محرومی کا احساس ہوا کہ اتنا بڑا عالم دین ہمارے شہر میں موجود تھا، مگر لاہور میں ملازمت اور بعض دیگر مجبوریوں کی بنا پر ان سے استفادہ نہ کر پائے۔ اہل علم کا فیض مگر ان کے جانے کے بعد بھی تصنیفات کے ذریعے جاری رہتا ہے۔ اس کاوش میں شریک احباب خاص کر حکیم طارق محمود چغتائی عبقری کو اللہ اجر دے، جنہوں نے حضرت علامہ کے علمی ذخیرے کو اکٹھا کر شائع کیا۔