یہ عجب انداز کی محفل تھی۔ بظاہر تولاہور کے ایک مشہور روایتی کھابے کے مرکز پر کھانے کے لئے سب اکٹھے ہوئے تھے۔ ایک ہٹا کٹا دیسی مرغ منتخب کر کے اپنے سامنے ذبح کرایا اور ٹکڑے کرائے، کڑاہی گوشت بننے کا عمل شروع ہو گیا۔ عام طور پر جب ایسا کھانے کا آرڈر دیا جائے تب کھانا آنے تک کے انتظار کو گپ شپ کے ذریعے گزارا جاتا ہے۔ تجربہ مگر یہی ہے کہ ایسی گفتگو بے جان اور بے ربط رہتی ہے کہ سب کے تصور میں دیسی مرغ کا مکھن میں تیار کردہ گوشت، بھنے تکے اوردل، گردہ، مغز کا کٹاکٹ گھوم رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں گفتگو کا یارا کسے؟ اچانک میزبان نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ آج کی محفل میں شریک تمام لوگ غیر معمولی ہیں اور سماج کی بہتری کے لئے غیر معمولی کنٹری بیوشن کر رہے ہیں، اکھٹا کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق جڑے تاکہ زیادہ بہتر کام کیا جا سکے۔
اس کے بعد میزبان نے تمام احباب کا تعارف کرانا شروع کیا۔ ابتدائی جملے سننے کے بعد میرا تاثر یہی تھا کہ رسمی تعریف کی گئی۔ چند لمحوں کے بعد یہ رائے بدل گئی۔ ایک کے بعد دوسرے شریک محفل کے بارے میں کچھ ایسا سننے کو مل رہا تھا، جس سے اس کا قد وقامت مزید بلند ہوجاتا۔ ایک صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ پنجاب حکومت کے ایک ٹریننگ پروگرام سے وابستہ ہے، یہ ٹیوٹا کی طرز کا ادارہ ہے، مگر یہ صرف ووکیشنل پروگرام کراتا ہے۔ وہ صاحب وہاں اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مختلف کورسز کے سٹوڈنٹس کی ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ اب تک پانچ لاکھ سے زائد سٹوڈنٹس کی تربیت کر چکے ہیں، ان میں سے ہزاروں لوگ مختلف شعبوں میں ملازمت کر رہے ہیں یا انہوں نے اپنے کام شروع کر دئیے۔ یہ ضلع وہاڑی کے ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والے ندیم اکرم تھے۔
اسی طرح ایک صاحب کے بارے میں علم ہوا کہ بیس سال پہلے وہ آئی ٹی کے شعبے کی طرف متوجہ ہوئے۔ عزم یہ تھا کہ آئی ٹی کے ذریعے لوگوں تک علم اور معلومات کا ذخیرہ پہنچانا ہے۔ ان صاحب نے برسوں کی محنت شاقہ کے بعد نصابی مواد کو ویڈیوز کی شکل میں پیش کرنے والی ملک کی سب سے بڑی فری ویب سائٹ بنا دی ہے۔ علم کی دنیا (https://www.ilmkidunya.com) ایک ایسی فری ویب سائٹ ہے جس پر میٹرک، انٹر اورگریجوایشن، پوسٹ گرایجوایشن لیول کے اہم مضامین کے ہر سبق کوچند منٹ کی ویڈیوز میں محفوظ کر دیا ہے۔ تعلیم سے متعلق ہر اہم معلومات اس پر موجود ہے۔ پچھلے برسوں کے پیپرز، انٹری ٹیسٹ، آن لائن ٹیسٹ وغیرہ سب کچھ بغیر کسی معاوضے کے دیکھا اورنفع اٹھایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ چند ماہ پہلے میرے بیٹے کے سکول میں پیرنٹس میٹنگ تھی۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب سے چند منٹ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ بچے کو کسی بھی قسم کی اکیڈمی یا ٹیوٹر کی ضرورت نہیں، صرف اسے اگلے دن جو کچھ سکول میں پڑھنا ہے، وہ نیٹ پردکھا دیں۔ حیرت سے میں نے پوچھا کہ میں کس طرح دکھائوں؟ انہوں نے مجھے موبائل پر ایک ویب سائٹ کھول کر دکھائی، اس پر ٹائپ کیا، کلاس نائنتھ، بیالوجی، چیپٹر ون۔ اگلے ہی لمحے پہلے باب کے تمام ٹاپکس پر ویڈیوزآ گئیں۔ دس بارہ منٹ کی ویڈیو میں ٹیچرڈایاگرامز کی مدد سے سب کچھ سمجھا رہا تھا۔ پرنسپل صاحب کہنے لگے کہ یہ سب مواد مفت دیکھا جا سکتا ہے، بچوں کو صرف اپنی نگرانی میں گھنٹے ڈیڑھ کے لئے موبائل، ٹیب وغیرہ چاروں سائنسی مضامین کے اگلے روز کے ٹاپکس دیکھنے دیں، کچھ ان کی سمجھ میں آ جائے گا، باقی اگلے روز سکول میں سیکھ لیں گے۔ سچی بات ہے میں اس ویب سائٹ سے متاثر ہوا۔ امریکہ میں ایک صاحب نے خان اکیڈمی کے نام سے ایسی مفت تعلیمی ویڈیوز ڈائون لوڈ کر کے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ کھانے کی اس محفل میں خان اکیڈمی کے تصور کی پیروی کرنے والے وہ صاحب شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ میرے سامنے بیٹھے تھے۔ انکسار سے انہوں نے بتایا کہ کئی ملین لوگ استفادہ کر چکے ہیں، روزانہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ طلبہ وزٹ کرتے ہیں۔ یہ علم کی دنیا کے خالق غلام علی صاحب تھے۔
ایک نوجوان ماہر نفسیات نکلا، اس نے صاف گوئی سے بتایا کہ مالی حالات اچھے نہیں تھے، پریشانیوں نے ذہنی مریض بنا دیا۔ دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل تھے۔ وہاں ایک کتاب پڑھی، اتنا جوش بھر گیا کہ سوچا اپنی زندگی کا پیٹرن بدل دینا ہے۔ ہسپتال کے روایتی طریقہ کار کے مطابق کئی مہینوں بعد اپنی شفایابی کے اعلان کا انتظار کرنا مشکل لگا تو ایک دن روشندان سے کود کر فرار ہوگئے۔ سائیکالوجسٹ بننا چاہتے تھے، آخر کار بن گئے۔ آج کل ایک سماجی تنظیم سے وابستہ ہیں جو ملک بھر کے پسماندہ علاقوں میں ذہنی امراض اور عمومی طور پر صحت کے مسائل کی آگہی کا کام کرتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر مارننگ شوز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کر چکے ہیں۔ چمکتی آنکھوں سے انہوں نے بتایا کہ وہ 92ء نیوز چینل کے مارننگ شو میں بھی کئی بار ماہر نفسیات کے طور پر شریک ہوچکے ہیں۔ اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی زندگیاں تبدیل کرنا بنا رکھا ہے۔ بتانے لگے کہ ان کی تنظیم کی کوششوں سے شادی سے پہلے میاں بیوی کی کنسلٹیشن لازمی قراردینے کا عمل چل رہا ہے، نکاح نامے میں بھی یہ شق شامل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ یہ نوجوان سائیکالوجسٹ خبیب کیانی تھے۔
ایک طویل قامت، گھنی ڈاڑھی مونچھوں والے وجیہہ نوجوان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھی موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر ہیں اور وی لاگ کے ذریعے یہ کام عمدگی سے کر رہے ہیں۔ ٹونی رابن، ٹونی بوزان اور دیگرعالمی شہرت یافتہ مویٹویشنل سپیکرز کی طرح یہ بھی مایوس لوگوں میں امید جگانا، انہیں آگے بڑھنے کا راستہ تراشنے کا ہنر سکھانا چاہتے ہیں۔ یہ انیق تھے۔ ایک اورسادہ مسکراہٹ والے نوجوان کے بارے میں علم ہوا کہ یہ برطانیہ گئے، وہاں کام کر کے اپنے بہن بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا، ان کی ایک ہمشیرہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئیں، ایک بھائی مشہور کنگز کالج گیا اور وہاں کا پہلا غیر یورپی طالب علم بنا جو سٹوڈنٹ یونین کا صدر بنا۔ خود بعد میں لندن سکول آف اکنامکس گئے اور پھر وہاں کی یونین کے صدر بنے۔ یہ بلال بن ثاقب (BBS) تھے۔ بلال بھی آج کل پاکستان مقیم ہیں اور مختلف سماجی پراجیکٹس میں مصروف ہیں۔ ایک بار انہیں ایسے علاقے میں وقت گزارنا پڑا جہاں خواتین میلوں دور سے پانی مٹکوں میں بھر کر لاتی تھیں۔ ان کے ذہن میں آئیڈیا آیا اور انہوں نے بیس لیٹر پانی کی ایسی بوتل بنائی، جس میں پانی فلٹر بھی ہوجاتا ہے اور اس کے نیچے پہیے لگے ہیں، اسے ٹرالی بیگ کی طرح آسانی سے کھینچ کرلے جا یا جا سکتا ہے۔ صرف تین ہزار روپے کی لاگت سے یہ کام ہوا اور اب بلوچستان، تھر اور ملک کے دیگرایسے علاقوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ بلال نے بتایا کہ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ مرد عام طور سے پانی مٹکوں میں بھر کر نہیں لایا کرتے، یہ کام صرف خواتین کا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پہیے والی بوتل البتہ مرداور لڑکے بھی آسانی سے لے آتے ہیں۔ ملتان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ دانیال صدیقی سے بھی تعارف ہوا۔ ان کی بھی اپنی کامیابی کی داستان تھی۔ والد ملتان کے معروف مدرس تھے، یہ خود بھی نوجوانی ہی سے ٹریننگ، تعلیم سے وابستہ ہوئے، باہر گئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی، واپس آ کر اپنے کاروبار کے ساتھ کئی سماجی کاموں میں شریک ہیں۔
اس محفل کے میزبان کے بارے میں بتانا ابھی باقی ہے۔ یہ عارف انیس ملک تھے۔ معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر، این ایل پی ایکسپرٹ اور سائیکالوجسٹ۔ عارف انیس ملک کا تعلق وادی سون سے ہے۔ سیلف میڈ ہیں، ملتان کالج میں پڑھے، وہاں پھر ایک تعلیمی ادارہ بنایا جس نے ہزاروں طلبہ کی زندگی تبدیل کی، سول سروس کا امتحان پاس کیا، ڈپٹی کمشنر تھے کہ خیال آیا زندگی یوں سرکاری ملازمت میں ختم کرنے کے بجائے نئے جہان فتح کئے جائیں۔ لمبی چھٹی لے کر باہر گئے، ہاورڈ یونیورسٹی، آکسفورڈ جیسے اداروں سے کورسز کئے، دنیا کے بہترین موٹیویشنل ٹرینرز سے براہ راست استفادہ کیا۔ پہلے ایک تھنک ٹینک میں کام کیا، اس کے بعد ٹونی رابن، ٹونی بوزان اور ان جیسے دیگر نامور سپیکرز کے ساتھ سٹیج شیئر کیا۔ ٹونی رابن کے ایک پورے ٹور میں اس کے ساتھ شریک رہے۔ ٹونی بوزان کو پاکستان بھی لے کر آئے۔ تین چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ اموشنل انٹیلی جنس، این ایل پی جیسے موضوعات پر بے تہاشا لکھا۔ کئی عالمی ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں، دو ماہ پہلے انہیں ایک اہم ادارے نے برطانیہ کی سوموثر شخصیات میں شامل کیا۔ ان کی ایک کتاب دو سال پہلے آئی تھی" آئی ایم پاسیبل"پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اب ایک اور کتاب "گوروں کے دیس میں "شائع ہوئی ہے، تین دن بعد گورنر ہائوس میں اس کی تقریب ہے، اسی کے لئے عارف انیس ملک پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
گفتگو کے بعد کھانے کا میدان سجا، وہ اپنی جگہ خوب تھا، مگراس بھیگی رات میں یہ سوچتا رہا کہ اپنی زندگی خوبصورت بنانے کا کام ہر کوئی کرتا ہے مگر اصل کام دوسروں کی زندگیوں کو بدلنا ہے۔ یہی کام کرنے والے ہی معاشرے کے محسن ہیں، ایسے ان سنگ (unsung) ہیروز ہی سماج کا اصل سرمایہ ہیں۔