ایک دن سید سرفراز احمد شاہ صاحب سے باتوں باتوں میں رسول پاکؐ کی ایک حدیثِ مبارک کا ذکر چل نکلا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ "لوگوں سے اچھی اچھی باتیں، اچھے انداز میں کیا کرو" موضوعِ بحث یہ تھا کہ اچھی اچھی باتوں کا اشارہ لوگوں یا سننے والوں کی دل پسند باتوں کی طرف ہے یا عمومی خیر کی باتوں کی سمت اور یہ کہ اچھے انداز کا یہاں کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مطلب باتوں کا بناؤ سنگھار یا خوشنما لفظوں کا انتخاب ہے یا طرزِ بیان کی محبت اور اپنائیت پر زور دیا گیا ہے۔
سرفراز شاہ صاحب نے اپنے مخصوص سادہ اور مختصر انداز میں اس کی کم وبیش وہی وضاحت کی جو میرے ذہن میں ایک نسبتاً طویل اور قدرے اُلجھے ہوئے انداز میں موجود تھی، اتفاق سے کل کے ایک ہی دن میں میری نظر سے تین ایسی تحریریں گزریں جن کا مرکزی موضوع انہی اچھی باتوں کی مختلف جہات سے تھا۔ پہلی تحریر امام غزالیؒ کا ایک قول تھا جو برادرم شفیق عباسی نے اپنے روزانہ کے پیغام کی شکل میں بھجوایا جو کچھ اس طرح سے ہے کہ "اگر آپ زندہ ہیں تو غلط باتوں کی مخالفت کرنا سیکھیں، کیونکہ لہروں کے ساتھ لاشیں بہا کرتی ہیں، تیراک نہیں۔ "
دوسری تحریر اپنے "23دن" والے محترم دوست ظفر محمود کا اخباری کالم تھا جس میں اُنہوں نے انگلش میڈیم کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ایک نازیبا اور گمراہ کن پریکٹس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ چونکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند بچوں کی اہلیت کی شرائط میں اُن لوگوں کے پبلک سروس یا رفاہِ عامہ کے کاموں میں حصہ لینے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس لیے یہ ادارے اُن "خدمت میں مصروف" بچوں کی تصویریں تو بنا کر بھیج دیتے ہیں مگر اُن کی یہ کارکردگی صرف انہی تصویروں اور اُن سے متعلق سرٹیفکیٹ تک محدود ہوتی ہے یعنی خدمتِ خلق اور نیکی کے کاموں کو بھی بزنس اور اداکاری کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یوں ایک بہت اچھی بات کو ایک ایسا رنگ دے دیا گیا ہے۔
جن سے ان بچوں کے نزدیک"خِدمت خلق" ایک ڈھونگ کی سی شکل اختیار کر جاتی ہے جس کا منفی اثر اُن کا آئندہ کی زندگیوں پر بہت آسانی اور فراوانی سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس بات نے مجھے اس موضوع پر کالم لکھنے کی تحریک دی، اس کے مصنف کا نام میرے علم میں نہیں لیکن یہ تحریر اتنی پُر اثر اور فکر انگیز ہے کہ اسے قارئین تک پہنچانا ایک باقاعدہ نیکی کمانے کا سا عمل ہے۔
اس کا عنوان "اچھی گفتگو کیسے کریں " رکھا گیا ہے اور اس کی تحریک کا سلسلہ مرحوم اقبال احمد صاحب سے جوڑا گیا ہے جو انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، والدین زمین کے جھگڑے میں اُن کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوگئے۔ 1947ء میں اپنے بھائی کے ساتھ بِہار سے پیدل لاہور پہنچے، ایف سی کالج میں داخلہ لیا، اکنامکس میں ڈگری لی اور اسکالر شپ پر کیلی فورنیا امریکا کے کالج میں داخل ہوئے اور سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھانا شروع کر دی۔
ابن ِ خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کردیا۔ نوم چومسکی، ایڈورڈسعیداور ارون دتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انہیں اپنا دوست بنا لیا۔
1999 کو ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے۔ یہ کتنے بڑے اسکالر اور انسان تھے آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا لیجیے کہ اُن کے انتقال پر ہیمپشائر کالج نے جو تعزیتی تقریب منعقد کی، اس تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان، ایڈورڈ سعید، نوم چومسکی اور ارون دتی رائے جیسے لوگ شریک ہوئے اور کھل کر اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔
اقبال احمد کا یہ سارا بیک گراؤنڈ صرف ایک واقعہ سنا نے کے لیے لکھا، ایک دن اُن کے ایک دوست نے اُن سے پوچھا "آپ پاکستان میں رہتے ہوئے امریکہ، یورپ اور مڈل ایسٹ کی کون سی چیز مِس کرتے ہیں۔ یہ مسکراکر بولے "اچھی گفتگو" پوچھنے والے نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ یہ بولے، "دنیا جہان میں پڑھے لکھے لوگوں کے پاس گفتگو کے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں اَن پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے، ریڑھی والے ہوں یا آفس میں بیٹھے باس، اُن کے پاس سیاست یا اسکینڈلز کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہوتا۔
آپ جس بھی محفل میں بیٹھ جائیں اور کوئی بھی موضوع چھیڑدیں، وہ محفل چند منٹوں میں سیاست اور سیاست دانوں کے اسکینڈلز میں تبدیل ہوجائے گی۔ دنیا بھرمیں لوگ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہر جگہ شخصیات آئیڈیاز کی جگہ لے لیتی ہیں چنانچہ میں پاکستان میں اچھی گفتگوکو missکرتا ہوں "۔
اقبال احمد نے آج سے 25 برس قبل ہمارے ملک کی نفسیاتی حالت پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا تھا اور یاد رہے کہ یہ صورتِ حال سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سے پہلے کے پاکستان کی تھی۔ ہمارے ملک میں واقعی، ا چھی گفتگو کا خوف ناک قحط ہے۔
آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں، کسی فورم کسی گروپ کا حصہ بن جائیں، آپ کو سیاسی افواہوں، سیاسی لطیفوں اور سیاسی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور آپ اگر کسی طرح سے سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو آپ مذہبی گفتگو کے تالاب میں گِر جائیں گے اور وہ ساری بات چیت بھی سیاسی گفتگو کی طرح غیر مصّدقہ واقعات پر مشتمل ہوگی۔
انسان بولنے والا جانور ہے۔ یہ اظہار کرتا ہے اور اظہار کے لیے آئیڈیاز چاہیے ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے معلومات اور علم درکار ہوتا ہے، علم اور معلومات کے لیے پڑھنا اور گھومنا اور گھومنے اور پڑھنے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ہم یہ کرتے نہیں ہیں لہٰذا پھر ہم کیا سُنیں گے اور کیا سنائیں گے؟ ہم کیا گفتگو کریں گے۔
نیا خیال، نیا آئیڈیا کہاں سے آئے گا؟ اس لیے اس معاشرے میں علم، معلومات، اچھی گفتگو، نئے آئیڈیاز کی کمی ہے، چنانچہ اس کمی نے ہمارے معاشرے میں ایک اچھی گفتگو کا بحران پید اکرد یا ہے۔ اچھی گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ خوشامد اور تحسین میں فرق رکھا جائے۔
خوشامد جھوٹی بات جبکہ تحسین پُرخلوص بات ہوتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ بات کریں تو اُن کی ضرورتوں پر بات کریں اور اس کی تکمیل کا راستہ بنایا جائے، ہمیشہ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں، لوگوں میں سچی دلچسپی لیں، یہ آفاتی سچائی ہے کہ ہر وہ آدمی جس سے آپ ملتے ہیں، اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح آپ سے بہتر خیال کر رہا ہوتا ہے اور اس کے دل میں گھر کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ اسے باور کرائیں کہ آپ اس کو ایک اہم شخصیت جانتے ہیں، حُجت بازی سے ہمیشہ پرہیز کریں، کبھی کوئی بحث و تکرار سے نہیں جیت سکا۔
دوسروں کے نقطہ نظرسے چیزوں کو دیکھنا اور اس کے منہ سے "ہاں " کہلوانا بہت نفع بخش اور دلچسپ بات ہے، ہمیشہ دوسرے شخص کو زیادہ سے زیادہ بات کرنے کا موقع دیں، اپنے کارناموں کا تذکرہ کم سے کم کریں اور اعتدال پسندی سے کام لیں، اس دنیا میں ہم سب کو جو آواز اچھی لگتی ہے، وہ ہمارے اپنے نام کی ہے، کسی آدمی کا نام اس کے لیے سب سے میٹھی اور اہم آواز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم نیا پین لیتے ہیں تو سب سے پہلے اس سے اپنا نام لکھتے ہیں لہٰذا لوگوں کو اچھے ناموں سے پکارا کریں، اس سے معاشرے میں بہتری بھی آئے گی اور آپ بھی مطمئن زندگی گزاریں گے اور آخر میں ایک نامعلوم شاعر کی انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ کہ اس کا موضوع بھی کم وبیش یہی "اچھی گفتگو " ہے۔
دنیا کو ہم کیسے دیکھیں
اصل خوشی کا اَزلی دشمن دل میں رکھا کینہ بھی ہے
ممکن ہو تو ہر غصے کو ہنس کر ٹالو، بُھول اگر ہو فوراً مانو
اور جو اپنے بس میں ہو تو اُ س بے موقع تبدیلی سے ہاتھ اُٹھالو
گہری چاہت، جلد معافی کو اپنا انداز بنا کر پورے دل سے
ہر کوشش میں جان لڑاؤ
پھر بھی ہار ملے تو ان کا غم مت کرنا
نا خوش رہنا ہو تو پھر یہ عمر بہت ہی تھوڑی ہے
غم ہو یا مسکان کا لمحہ، دونوں دل کے ساتھی ہیں
جو ملتا ہے اس کو دیکھو او رپھر اس کی قدر کرو
"جانے دو، پر بھولومت"
بھول سے اپنی سیکھو لیکن اس کا ماتم ٹھیک نہیں
ہر شے بالکل "ٹھیک" نہ ہوگی لوگ بھی چہرے بدلیں گے
لیکن ہر دم یاد یہ رکھنا
"کچھ بھی ہو پر اس دنیا نے یونہی چلتے جانا ہے
وقت ہی بس ہے ایک حقیقت باقی سب افسانہ ہے۔ "