Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Amanullah

Amanullah

بہت سال قبل میں نے ایک نظم "سیلف میڈ لوگوں کا المیہ" کے عنوان سے لکھی تھی۔ زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے جو کم یا زیادہ اس تعریف پر پورے اترتے ہیں لیکن جس معاشرتی سطح سے اٹھ کر امان اللہ مرحوم اوپر آئے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

یہ 1971 کے اوائل کی بات ہے جمیل فخری مرحوم نے میری ایک ایسے لڑکے سے ملاقات کرائی جس میں بظاہر دوسری بار دیکھنے کی گنجائش نہیں تھی اور بتایا کہ یہ لڑکا بہت کمال کا Mimic یعنی نقال ہے۔ داتا صاحب کے علاقے میں چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر روزی کماتا ہے۔ پڑھا لکھا بھی نہیں مگر اس کی observation (مشاہدہ) اور ہر چیز میں کوئی مضحک پہلو تلاش کرنے اور پھر اسے دلچسپ انداز میں بیان کرنے کا ہنر اپنی مثال آپ ہے۔

جمیل فخری خود ایک باکمال اداکار اور غیر معمولی حس مزاح کا حامل آدمی تھا سو اس کے منہ سے یہ تعریف سن کر میں نے یونہی رواداری میں اس لڑکے کا دل رکھنے کے لیے کہا ’اچھا، چلو کوئی بات سناؤ۔

اس جملے کے بعد کم از کم آدھ گھنٹہ ’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی، کا سا عالم رہا ہے۔ اس نے پہلے تو کچھ مشہور گلوکاروں کی گائیکی کے انداز کی نقل کی جو انتہائی شاندار تو تھی ہی مگر اس سے بھی قابل توجہ بات اس کی علم موسیقی پر دسترس تھی کہ وہ بڑی بڑی مشکل جگہیں بھی بہت آسانی سے لے رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے کچھ مزاحیہ آئٹم سنائے جو اس زمانے کے اعتبار سے بہت نئے اور ایک خاص طرح کی تخلیقی اُپج کے حامل تھے۔

اتفاق سے اگلے روز مظہر بخاری مرحوم کے گھر پر اقبال باہو کے گانے کی ایک محفل تھی، میں نے جمیل فخری کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اس لڑکے کے یعنی امان اللہ کو وہاں لے کر آئے ہم اس سے کچھ سنیں گے اور اس کی کچھ خدمت بھی کریں گے اس جیسے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ امان اللہ وہاں آیا اور یوں سمجھیے کہ وہ شام اس کے نام ہو گئی۔ میں شائد یہ واقعہ بھول چکا ہوتا مگر یہ امان اللہ کا کمال ہے کہ نہ صرف اس نے اسے یاد رکھا بلکہ بعد میں جب وہ سپر اسٹار کی حیثیت اختیار کر گیا کوئی محفل ایسی نہیں ہوئی جہاں میں موجود ہوں اوروہ اس بات کا ذکر محبت سے نہ کرے۔

یہ عاجزی اور احسان مندی رب کریم نے اس کو بے حساب دی تھی کہ وہ اپنے ساتھ کی گئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی یاد رکھتا تھا اور اپنے عمل سے اس کا احساس بھی دلاتا رہتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اسے کہیں بلایا ہو اور اس نے اس فرمائش کی تعمیل نہ کی ہو۔ میری بڑی بیٹی روشین کی مہندی کی رات میں نے اسے آنے اور کچھ پرفارم کرنے کے لیے کہا، مجھے علم نہیں تھا کہ اس دن اس کے کسی اسٹیج ڈرامے کے دو شو تھے جن میں اسے کئی گھنٹے مسلسل سٹیج پر رہنا تھا وہ اس کے باوجود نہ صرف آیا بلکہ رات دو بجے تک میرے مہمانوں کا دل بہلاتا رہا یہاں تک کہ اس کی آواز پھٹنا شروع ہو گئی، ایسے اچھی اور نیک فطرت والے لوگ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہوتے۔

وہ بنیادی طور پر فی البدیہہ اور حسب موقع بولنے والا فنکار تھا لکھے ہوئے اسکرپٹ کی لائنیں اور وہ بھی کسی ایسے سین میں جہاں اس کا رول ثانوی ہو اس کے لیے بے حد مشکل تھا۔ میں نے اپنے کئی ٹی وی سیریلز میں اس سے چھوٹے چھوٹے رول کروانے کی کوشش کی مگر اس آزاد پنچھی کے لیے اسکرپٹ کی قید کسی آزار سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیج ڈرامے اور ون مین شو کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ اس میں کردار کے اندر رہتے ہوئے اس کے نت نئے امکانات دریافت کرنے کی ایک حیرت انگیز اور بے مثال صلاحیت تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈرامے کے دوسرے کرداروں کو Spaceدینے اور پلاٹ کی وحدت کو برقرار رکھنے کا ہنر بھی جانتا تھا۔

پنجابی زبان میں اس کے جوہر زیادہ کھلتے تھے وہ بات میں سے بات نکالنے کا ماہر تھا مگر میں نے اسے کبھی ابتذال کی حدوں میں داخل ہوتے اور اخلاق کا دامن چھوڑتے نہیں دیکھا، اس کی آنکھوں میں رشتوں کی حیا تھی اور جگتوں کی پنگ پانگ کے درمیان بھی کوئی ایسا جملہ نہیں کہتا تھا جسے آپ اپنے اہل خانہ کی موجودگی میں نہ سن سکتے ہوں۔ اس کے بے شمار جملے مجھے یاد ہیں مگر یہ وقت شائد انھیں دہرانے کے لیے موزوں نہیں مگر اس کے باوجود اس کی طبیعت کی اخلاقی اور طباعی کے دو نمونے ایسے ہیں جنھیں یاد کرکے میں نیند میں بھی ہنس پڑتا ہوں کہ ان باتوں کا یہ رخ دیکھنے والی آنکھیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ ایک اسٹیج ڈرامے میں اس نے کسی ساتھی ایکٹر سے کہا کہ مجھے اس وقت بہت بھوک لگی ہے۔

امان اللہ نے اسے جواب دیا کہ میرے گھر چلو آج میری ماں نے مچھلی پکائی ہے۔ دوسرا ایکٹر بولا، نہیں یار۔ مچھلی میں کانٹے بہت ہوتے ہیں مجھے ان سے ڈر لگتا ہے تو امان اللہ نے اس پر یوں تبصرہ کیا، "ڈرنے کی کیا بات ہے تم نے جوتے پہن رکھے ہیں "۔ اب مچھلی کے کانٹوں کو جوتوں کے ساتھ جوڑنا شائد امان اللہ ہی کا کام تھا۔

اس طرح ایک ون مین شو میں اس نے ایک لاہوری بدمعاش کا واقعہ سنایا کہ وہ کسی پیر صاحب کے پاس اپنے کسی ایسے دوست کے لیے دعا کروانے گیا جو جیل میں تھا وہ بہت عاجزی کے ساتھ درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کرتا رہا کہ اگر اس کے دوست کو رہائی مل گئی تو وہ پیر صاحب کی خدمت میں کیا کیا چیزیں پیش کرے گااور درگاہ کی آرائش میں کیسے حصہ لے گا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب وہ جانے لگا تو اسے یک دم خیال آیا کہ وہ اتنا بڑا بدمعاش ہے اسے اس طرح سے منتیں کرنا زیب نہیں دیتا تو وہ جاتے جاتے رکا اور پیر صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔

"ایک بات یاد رکھیے گا پیر صاحب! مجھے دوبارہ نہ کہنا پڑے۔"

پچھلے کچھ عرصے سے وہ بیمار تھا کچھ عرصہ قبل اس سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اگرچہ بیماری کا حملہ بہت شدید تھا مگر اللہ نے رحمت کر دی ہے اور وہ اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ اب جو اچناک اس کی وفات کی خبر ملی ہے تو میں انڈس اسپتال کی ایک فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں انگلینڈ میں ہوں اور اس کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہو سکا۔ جس کا افسوس رہے گا لیکن ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ رب کریم ان بندوں سے زیادہ پیار فرماتا ہے جو اس کے بندوں سے پیار کرتے اور انھیں خوش رکھتے ہیں۔ وہ دکھی اور اداس دلوں اور ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتا تھا، یقیناً رب دوجہاں اس کی روح پر کرم فرمائیں گے اور اسے اس کے نام کی طرح اپنی امان میں رکھیں گے۔