کوئی 37برس قبل میں نے پی ٹی وی کے لیے ایک سیریل ڈرامہ لکھا تھا جو "سمندر" کے نام سے ٹیلی کاسٹ ہوا، اُس میں عابد کشمیری نے گُلو بادشاہ کے نام سے ایک نیم تعلیم یافتہ، مخلص اور سادہ مزاج رکشہ ڈرائیور کا کردار ادا کیا تھا جو بہت پسند کیا گیا اور آج بھی لوگ اُس کا حوالہ دیتے ہیں۔
اس میں اُس کے دو تکیہ کلام"بات سمجھ میں آگئی ہے" اور "کس کو کہہ رہے ہو" بہت مشہور ہوئے تھے جہاں تک پہلے والے کے تکیہ کلام کا معاملہ ہے تو یہ ایک طرح سے ابلاغ یعنی Communicaationکے دائرے سے منسلک تھا کہ اُس کے نزدیک بات کے مفہوم کو دوسرے تک پہنچا دینا کافی تھا، چاہے زبان و بیان کے اصولوں کے مطابق اُس کا جملہ، ہجے یا محلِ استعمال کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں، مثال کے طور پر ایک جگہ وہ کسی چیز کی کوالٹی پر زور دینے کے لیے اُسے "اصلی اور نخالص" کہتا ہے، اس پر سننے والا اُسے کہتا ہے کہ تم غالباً اصلی اور خالص کہنا چاہ رہے ہو؟ اس پر وہ پوچھتا ہے کہ بات سمجھ میں آگئی ہے؟ جواب اثبات میں ملتا ہے تو وہ کہتا ہے
"بات سمجھ میں آگئی ہے بس تو پھر ٹھیک ہے۔ اصل بات، بات کا مطلب سمجھانا ہوتا ہے، لفظوں سے نکاح تو نہیں پڑھوانا ہوتا نا"
مجھے یاد ہے اُس زمانے میں کسی نے یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ اس سے تو غلط زبان بولنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ناظرین اس سے یہ مطلب لیں گے کہ کسی لفظ کے غلط یا صحیح انداز یا جگہ پر بولنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، صرف معانی کی ترسیل ضروری ہوتی ہے۔
اس وقت تو میں نے بوجوہ اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن اب عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اوّل تو اس کا تعلق ایک مخصوص کردار سے تھا جس کا مبلغِ علم اور ذخیرہ الفاظ کتابوں سے زیادہ اُس کی زندگی اور ان لوگوں سے متعلق تھا جن کے درمیان وہ رہتا تھا اور جو عام طور پر کم تعلیم یافتہ اور سیدھے سادے لوگ تھے اور دوسرے یہ کہ وہ پوری ایمانداری سے اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زبان کا مقصد صرف مفہوم کی ترسیل ہوتا ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو یعنی یہ روّیہ اُس کا انفرادی تھا اور اُس سے کوئی اجتماعی نتیجہ نکالنا اس لیے بھی جائز نہیں تھا کہ عام آدمی واقعی زبان کی علمی صحت سے زیادہ اُس کی اس صلاحیت پر زیادہ توجہ دیتا ہے کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے وہ مخاطب کی سمجھ میں آجائے۔
ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں خواندگی کی سطح بہت کم ہے اور تقریباً تیس فیصد بچے ایسے ہیں جنھیں اسکول کی شکل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتی وہاں اُن تک کوئی بات پہنچانے کے لیے جب تک ہم اُن کی زبان اور لسانیات کے روایتی معاملات اور مسائل سے اُوپر اُٹھ کر اُن سے بات نہیں کریں گے اور کسی علمی اصطلاح کو اُن کے مخصوص اور محدود ذخیرہ الفاظ کے مطابق آسان اور عام فہم الفاظ میں بیان نہیں کریں گے، وہ بات یا تو اُن کے سر سے گزر جائے گی یا ایسے آدھے ادھورے انداز میں اُن تک پہنچے گی کہ وہ اسے سُن تو لیں گے مگر اس کے اصل مفہوم تک اُن کی رسائی کم کم ہی رہے گی۔
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے عوام سے متعلقہ سرکاری اور نیم سرکاری حلقوں میں جو زبان بالخصوص وہ جو اپنے مخففّات کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے وہ اُس کے لیے طوطا مینا کی کہانی سے مختلف نہیں ہوتی، یہاں بات سوشل میڈیا یا انگریزی جاننے والے اُس مخصوص طبقے کی نہیں ہورہی جو AOA سے اسلام علیکم یا RIP سے ریسٹ ان پیس مراد لے سکتا ہو۔
افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ حکام کی طرف سے اور میڈیا پر بہت سی باتیں جن کا مخاطب عوام الناس ہوتے ہیں، ایک ایسی جنّاتی زبان میں کی جاتی ہیں جس سے اُن کے مفہوم کا کچھ اندازہ تو شائد ہوجاتا ہو مگر کسی بات کے ابلاغ اور بات کو اُس کی تفصیلات کے ساتھ سمجھانے کے لیے جس دو طرفہ تعلق کی ضرورت ہوتی ہے وہ پیدا ہی نہیں ہوپاتا اور اُس سے بھی زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے الفاظ کے بہت بہتر اور آسان متبادل ہماری قومی زبانوں میں بہت آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں مثال کے طور پر گزشتہ تین ماہ سے کورونا کے حوالے سے ایک لفظ، مختلف یا ترکیب SOP بے حد استعمال میں ہے، اس کے محلِ استعمال کے باعث یہ تو سمجھ میں آگیا کہ اس کا مطلب حفاظتی تدابیر، ہدایات یا طے کردہ قوانین سے ہے مگر بہت دیر بعد پتہ چلا کہ اصل میں یہ Standard Operating Procedure کا مخفف ہے۔
چلیے مان لیا کہ علمی سطح پر یہ ایک بین الاقوامی اور بامعنی اصطلاح ہے اور کورونا سے متعلق عوام کو حفاظتی تدابیر یا احتیاط سے متعلق ہدایات کی نشاندہی کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے یا بعد میں کن کن باتوں کا خیال رکھیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کی جگہ اُردو میں ہدایات یا حفاظتی تدابیر اور دیگر قومی زبانوں میں اس کے متبادل الفاظ مثلاً پنجابی میں یاد رکھن والیاں گلّاں قسم کی کوئی ترکیب استعمال کرلی جائے تو یہ سننے، سمجھنے اور عمل کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر لوگوں کو تیار کرنے کے لیے بھی کس قدر مثبت، بامعنی اور اثر انگیز ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈرامے، ابلاغیات اور تدریس کے حوالے سے اپنے عمر بھر کے تعلق کی وجہ سے میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی مشکل سے مشکل بات جس وضاحت، گہرائی اور معانی کی براہ راست ترسیل کے ساتھ عام بول چال کی زبان میں کی جاسکتی ہے، اُس کا دس فیصد اثر بھی اُسے کسی نا مانوس انداز میں کہنے پر باقی نہیں بچتا۔ یہاں مجھے وہ دیہاتی یاد آرہا ہے جس نے کہوٹہ میں قائم اٹامک انرجی ریسرچ سینٹر کے لیے "نزد بم فیکٹری" بطور پتہ لکھا تھا اور وہ بات آسانی سے ڈاکیے کی سمجھ میں آگئی تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام تک کسی بات کی بہترین ترسیل اُن الفاظ میں ہوسکتی ہے جن سے اُن کے کان اور زبان دونوں آشنا ہوں کہ ایسے میں خالص کو نخالص کہنے پر بھی مطلب فوراً اور پورے کا پُورا سمجھ میں آجاتا ہے۔
عزیز دوست ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، جماعت اسلامی کے سابق امیرسیدمنور حسن صاحب اور نوجوان شاعر آلِ عمران بھی گزشتہ گھنٹوں کے دوران اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے ہیں۔ تیزی سے جُدا ہونے والے ان احباب کی فہرست اب اتنی لمبی ہوگئی ہے کہ اس پر نظر ڈالنے سے بھی خوف آتا ہے، غالب نے پتہ نہیں کس رَو میں یہ شعر کہا تھا مگر دیکھیئے تو کس قدر حسبِ حال ہے کہ
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے