الحمرا آرٹ کونسل لاہور میں فیض میلہ 2019 کہنے کو تو صرف تین دن جاری رہا لیکن ہماری ادبی فضا میں اس کی گونج اگلے سالانہ میلے تک سنی جائے گی کہ فی زمانہ ادب کے حوالے سے ایسی بھرپور اور فقید المثال تقریب کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنس کے علاوہ کوئی اور نہیں، اتفاق سے یہ دونوں ادبی میلے اوپر تلے یعنی نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں سجے ہیں اور یوں موسم کی سردی اور دلوں کی گرمی ایک ہی سکے کے دو رُخ بن جاتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فیض میلہ ایک گلدستے کی شکل میں تھا کہ روزانہ صبح گیارہ بجے سے رات دیر گئے تک الحمرا کے تینوں ہال، آرٹ گیلریز اور کھلی جگہیں کسی نہ کسی تقریب، اجلاس، میوزک یا ڈرامے کی پیش کش کے باعث شائقینِ ادب و فن کے ہجوم سے پُر رہتی تھیں، ورائٹی، اہمیت اور کشش کے اعتبار سے ان پروگراموں میں حصہ اور دلچسپی لینے و الوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کہ ہر وینیو کی گنجائش ایک خاص حد تک تھی۔
ایسے میں ہر تقریب تو کجا دو چار کا مفصل ذکر بھی اس محدود سے کالم میں کرنا ممکن نہیں سو میں صرف ایک ایسی کتاب کی تقریب رونمائی اور تعارف کی بات کروں گا جس کا براہ راست تعلق فیض صاحب کی شاعری، زندگی اور شخصیت سے تھا، اس ضخیم اور بے حددیدہ زیب کتاب کا نام "باقیات و نادرات فیض احمد فیض" رکھا گیا ہے اوراس کے مصنف، مولف اور مرتب اُردو دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ڈاکٹر سید تقی عابدی ہیں جن کا آبائی تعلق تو حیدر آباد دکن سے ہے لیکن گزشتہ تقریباً چالیس برس سے وہ یورپ، امریکا اور کینیڈا میں بھی مقیم رہے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک انتہائی کامیاب اور نامور میڈیکل ڈاکٹر ہیں لیکن انھی کے بقول وہ میڈیکل کے ڈاکٹر اور ادب کے مریض ہیں۔
ادب کے ساتھ ان کی محبت غیر معمولی بھی ہے اور مثالی بھی یوں تو وہ شعر بھی خوب کہتے ہیں لیکن ان کے کمالات کا زیادہ بھرپور اور بہتر اظہار تنقید اور تحقیق کے میدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کی یادداشت، کتابوں اور خطوطوں سے محبت، مطالعے کے وسعت نوٹس لینے کا طریقہ اور کسی ادبی موضوع پر تحقیق کی گہرائی ہر ایک اپنی جگہ پر اپنی مثال آپ ہے۔ اُردو مرثیئے اور بالخصوص اس میں مرزا دبیر پر دس مختلف کتابوں میں جو کام انھوں نے کیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، یوں تو اس وقت تک اُن کی چالیس سے زیادہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔
جن میں سے ہر ایک اُن کی وسعتِ فکر، تحقیقی لگن اور عام روش سے ہٹ کراپنی ذاتی رائے کے اظہار اور قوتِ استدلال کی ایک شاندار مثال ہے لیکن فیض صاحب پر "فیض فہمی" اور "فیض شناسی" کے بعد شایع ہونے والی یہ تیسری کتاب اس اعتبار سے سب سے الگ اور منفرد ہے کہ یہ اپنے مواد کے انتخاب اور پیش کش کے انداز کے حوالے سے ایک Collector’s Item کا درجہ رکھتی ہے یہ بیک وقت ایک Cofee table task بھی ہے، ایک شاندار البم بھی اور فیض صاحب کی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں کا ایک ایسا انتخاب بھی جو بلاشبہ نادرات کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ "باقیات" کے حوالے سے اس شاندار کتاب میں فیض صاحب کے مختلف شعروں مجموعوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل نہ ہوسکنے والے ایسے تمام کلام کو بھی یکجا کردیا گیا ہے جو کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں چھپ چکا ہے اور اُن تمام تبدیلیوں کی بھی محققانہ انداز میں نشاندہی کردی گئی ہے جو اُن کے شعری مجموعوں کے مختلف ایڈیشنز میں روا رکھی گئی ہیں۔ فیض اور صادقین کے حوالے سے ڈاکٹر سید تقی عابدی نے "فیضیات" میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔
اُردو شعر و ادب کے ضمن میں جس طرح کی "دیوانگی" سید تقی عابدی کے کام میں دکھائی دیتی ہے اُس کا تقاضا تھا کہ اس کا اظہار اس کی کتابی شکل میں پیش کش میں بھی دکھائی دے، سو اس کے لیے انھیں جہلم جیسے ایک ایسے شہر سے دو نوجوان دیوانے بھی مل گئے جس کا کم از کم کتابوں کی اشاعت کی حد تک کوئی قابلِ ذکر حوالہ چند برس قبل تک سامنے نہیں آیا تھا۔ گگن شاہد اور امر شاہد نے اپنے والد شاہد صاحب کے کتابوں کے کاروبار کو ورثے میں پایا تو ضرور مگراسے ایک بڑے اور کامیاب اشاعتی ادارے کی شکل دینا انھی دو نوجوانوں کا کارنامہ ہے کہ آج "بک کارنر" اُردو کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے خود ایک حوالے کی شکل اختیار کرگیا ہے فی زمانہ جب کہ کتاب کے قارئین بے حد تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ماضی کے بڑے بڑے اشاعتی ادارے بھی ایک ایک کرکے بند ہوتے جارہے ہیں۔
ادبی مراکز سے دور ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے جس طرح کی کتابیں اس ادارے نے گزشتہ چند برسوں میں شایع کی ہیں اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی جس تیزی، محبت، انہماک، معیار اور خوب صورتی کے ساتھ یہ کتاب شایع کی گئی ہے اسے دیکھ کر یہ یقین کرنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے کہ اس کی پرنٹنگ کا سارا عمل صرف دو تین ہفتوں میں مکمل ہوا ہے اس کا سائز، بائنڈنگ کی کوالٹی، کاغذ اور تصاویر کی پرنٹنگ ایسی ہے کہ اسے ایک بار کھول کر دیکھنے کے بعد اس پر درج شدہ (7500) قیمت معقول دکھائی دینے لگتی ہے۔
ڈاکٹر سید محمد تقی عابدی کے ساتھ فیض میلے کے ایک خصوصی سیشن میں بطور میزبان گفتگو اور شرکت کرنا ذاتی طور پر میرے لیے ایک بہت خوبصورت تجربہ تھا کہ ا س تقریب میں فیض صاحب کو یاد کرنے کا یہ ایک ایسا طریقہ تھا جسے ہمارے ادب میں عام اور رائج ہونا چاہیے، فیض میلے کے حوالے سے ہر بار مجھے اپنے محترم اور فیض صاحب کے دوست اور ہم عصر احمد ندیم قاسمی بہت یاد آتے ہیں کہ 20نومبر کا دن ان دونوں بڑے آدمیوں کے ساتھ مختلف حوالوں سے جُڑا ہوا ہے۔
ہمارے سنگ میل پبلی کیشنز کے دوستوں نے قاسمی صاحب کے تمام کلام کو بھی بہت خوبصورتی سے شایع کیا ہے یہی اس کے مالک برادرم افضال احمد کو بھی مشورہ دوں گا کہ وہ بھی ندیم صاحب کی باقیات ونادرات کے حوالے سے ایسے ہی ایک "تحفے" کا اہتمام کریں کہ جن کو ہماری آنے والی نسلیں اپنے اہلِ ذوق بزرگوں کا ایک ایسا ورثہ سمجھ کر نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ ان کی معرفت اپنے مشاہیر کی عظمت سے بھی بہتر طور پر آگاہ ہوسکیں۔ تقی صاحب نے باتوں کے درمیان بتایا کہ آیندہ برس وہ علامہ اقبال پر دو کتابیں شایع کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ سو اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اہلِ نظر کے ذوق اور اقبال کی روح کے لیے خوشی کا ایک خوبصورت پیغام موجود اور میسر ہوگا۔