آج سے لگ بھگ ایک صدی قبل اگر کوئی کہتا کہ وہ 2مارچ کو اوکاڑہ اور اُس سے دو دن بعد یعنی 4مارچ کو مانچسٹر میں ہوگا تو لوگ یقینا اُسے نشئی، گپ باز یا دیوانہ سمجھتے مگر اب اس طرح کی بات پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ اقبالؔ نے کیا خوب کہا تھا کہ "محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی"۔
فاصلے جس طرح سے سمٹ رہے ہیں عین ممکن ہے کہ اگلے سو برس میں اس طرح کی باتیں دو سیاروں کے درمیان سفر کے حوالے سے کی جائیں۔ وقت اور فاصلے کے یہ تصورات اَزل سے قائم ہیں اور شائد ابد تک رہیں گے کہ زمان و مکاں کا یہ رشتہ ہی دراصل ہمارے اور زندگی کے ہونے کا سب سے بامعنی استعارہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کے دل جس تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ان کو کیسے قریب لایا جائے کہ بقول خواجہ میر درّد
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ اوکاڑہ اور مانچسٹر کے درمیان بھی وہی دردِ دل پُل کا کام کر رہا ہے کہ دونوں جگہ پر میری حاضری دو ایسے اسپتالوں کی فنڈریزنگ کے حوالے سے ہے جو اپنی اپنی جگہ پر خلقِ خدا کی خدمت ایسی محنت اور جذبے سے کر رہے ہیں کہ دلوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے ڈرے ہوئے دل کو نہ صرف حوصلہ ملتا ہے جب کہ یہ یقین بھی تازہ ہوجاتا ہے کہ آخری فتح انسانیت ہی کی ہوگی۔
انڈس اسپتال کے بار ے میں، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگرچہ اب اس کی شاخیں وطنِ عزیزکے ہر صوبے میں کھلتی چلی جارہی ہیں مگر اس کا آغاز کراچی کے کچھ ایسے اہلِ دل نے کیا تھا جو رب کی دی ہوئی عنایات کو اُس کی امانت سمجھتے ہیں اور دھن کے ساتھ اپنے تن اور من کو بھی اُس کی راہ میں خرچ کرنا عین عبادت جانتے ہیں۔ اللہ کے ان منتخب بندوں نے کورنگی کراچی کے علاقے سے اس منصوبے کا آغاز کیا اور اس میں علاج کی سہولت حاصل کرنے کی بنیادی شرط صرف ایک رکھی کہ رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب، عقیدے اور صوبے کو دیکھے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ وہاں تک پہنچنے و الے ہر مریض کو جس طرح کے علاج کی ضرورت ہے وہ اُسے بہتر سے بہتر شکل میں فراہم کیا جائے چاہے وہ اُس کی قیمت ادا کرنے کی توفیق رکھتا ہو یا اُس کے پاس سوائے اپنی بیماری کے کچھ بھی نہ ہو۔
اس اسپتال میں بے شمار ڈاکٹر اور معاون عملہ کام کرتے ہیں اس کے علاوہ مختلف طرح کے آپریشنز اور ادویہ کی مفت فراہمی کا بھی انتظام ہے، ایک اطلاع کے مطابق اس کا ماہانہ خرچ کروڑوں کو چُھوتا ہے اور یہ سب کچھ بغیر کسی تعطل کے صرف اور صرف دردِ دل رکھنے والے ایسے انسانوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔
جن میں سے بیشتر اسے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورتوں پر بھی ترجیح دے کر اس کارِخیر میں حصہ لیتے ہیں۔ اب کراچی کی اس بنیادی عمارت کی توسیع کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ دیگر علاقوں اور صوبوں تک بھی پھیلایا جارہا ہے تو اس کے لیے مزید اخراجات کی ضرورت ہوگی انھیں پورا کرنے کے لیے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی اُس بارانِ رحمت میں بھیگنے اور اس کے فیوض سے بہرہ ور ہونے کا ایک موقع یوں مہیا کیا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ہماری کمیونٹی موجود ہے اُس تک اس کا پیغام پہنچایا جائے، اس سلسلے میں مختلف پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں جس کے لیے شعر و ادب، سماجی خدمات، کھیل، بزنس اور تعلیم کے شعبوں سے نمائندہ افراد کو ساتھ رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طریقے اور شخصیت کی تنظیم اور گواہی کے حوالے سے اس پیغام کو آگے بڑھائیں اور اپنے لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں جنھیں بروقت اور مناسب علاج کی سہولت اور وسائل مہیا نہیں ہیں۔
گزشتہ برس عزیزی وصی شاہ نے فرانس میں ہونے والے پروگراموں میں شرکت کی تھی، اس بار بھی اُس نے میرے ساتھ انگلینڈ جانا تھا مگر ویزے کے مسائل کی وجہ سے تادمِ تحریر اُس کی شمولیت مشکوک ہی کہی جاسکتی ہے البتہ جس سلیقے، مہارت اور ذمے داری سے رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے اس کے نمائندوں نے تمام انتظامات مکمل کیے ہیں ان کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ کینیڈا میں مقیم پرویز صاحب نے یو کے احباب (جن میں ابراہیم جمالی، اشتیاق میر اور سہیل ضرار خاص طور پر نمایاں ہیں ) کے تعاون سے اس سفر کو آسان اور با مقصد بنانے کے لیے نہ صرف مسلسل رابطہ رکھا بلکہ اس پروگرام کے کئی ایسے پہلوؤں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جن سے اس ادارے کی شفافیت مزید واضح اور راسخ ہوتی ہے۔ اُمید ہے کہ چھ اور آٹھ مارچ کو بالترتیب پریسٹن اور کارڈف میں یہ تقریبات اُن کی توقع سے بھی زیادہ کامیاب رہیں گی۔
انڈس اسپتال تو ملک گیر سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر پہنچ چکا ہے لیکن گزشتہ دنوں اوکاڑہ میں برادرم جنید سلیم کے والد مرحوم ڈاکٹر سلیم کی ڈسپنسری سے پانچ منزلہ فری اسپتال کی بلڈنگ کی تعمیر اور اس کے تکمیلی مراحل کے حوالے سے مجھے اور عزیزی زاہد فخری کو کولمبس فنڈریزنگ ڈنر میں شمولیت کا موقع ملا وہ بھی اپنی جگہ پر محبت، دردِ دل اور انسانیت کی خدمت کی ایک روشن مثال ہے۔
معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سلیم مرحوم نے 1954میں اُس وقت اوکاڑہ میں یہ فری ڈسپنسری قائم کی تھی جب ملتان سے لاہور کے درمیان اس طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی اُس وقت دو روپے کی پرچی کے بعد مریض کا علاج اور ادویہ مفت فراہم کی جاتی تھیں اور آج 65 برس کے بعد صرف پانچ روپے کی پرچی کے ذریعے اس تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھا جارہا ہے بلکہ اب اس کو پھیلا کر ایک ایسے مکمل اسپتال کی شکل دی جارہی ہے جہاں ہر طرح کے ٹیسٹوں کے ساتھ ساتھ دل اور گائنی کے آپریشنز کا بھی انتظام ہوگا۔
کہنے کو یہ جنید سلیم اور اس کے بھائیوں کا ایک فیملی پراجیکٹ ہے مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس خاندان کے پھیلاؤ میں پورا شہر اوکاڑہ آتا ہے کہ شہر کے بے شمار مخیر لوگ اس کارِ خیر میں برابر کے شریک ہیں اور انھیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ گزشتہ 65 برس سے وہ نہ صرف اس شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں بلکہ اب اس کی روشنی دُور سے بھی دکھائی دے رہی ہے، سو انڈس اسپتال ہو یا ڈاکٹر سلیم فری اسپتال، خوش کن اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اپنے علاقے اور وطن کے لوگ ہی ان کو زندہ اور فعال رکھے ہوئے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں چھوٹے اور بڑے ماڈل ایک مثال کے طور پر نہ صرف ساتھ رکھے جائیں بلکہ ان کی تقلید ہر جگہ اور ہر طرح سے کی جائے اور اس فرمانِ الٰہی کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھا جائے کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کی حفاظت کی۔ رب کریم کے بندوں سے محبت ہی وہ راستہ ہے جو اس محبت کو رحمت کی شکل میں ڈھالتا اور ہماری منزلوں کو آسان کرتا ہے۔