علامہ صاحب کے سرکاری یوم پیدائش کے حساب سے اس 9 نومبر کو غالباً ایک سو چوالیسواں (144) یوم پیدائش ہو گا "غالباً" کی رعائت میں نے اس لیے لے لی ہے کہ بعض حساب دانوں کے مطابق یہ ایک سال کم بھی ہو سکتا ہے جب کہ کئی محقق حضرات یومِ پیدائش تو ایک طرف ان کے اس سنِ پیدائش یعنی 1877 ہی کو صحیح ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ بحث تو اب کم ہوتی جا رہی ہے مگر جو سلوک ہمارے سوشل میڈیا کے شیر جوان اُن کے اشعار کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں، اس کی شدّت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یعنی پہلے تو صرف اُن کے اشعار کے الفاظ کو ہی آگے پیچھے یا جمع تفریق کر کے بے وزن کیا جاتا تھا مگر اب اُن کے نام سے ایسے ایسے عجیب و غریب جملوں کو شعر کہہ کر درج کیا جاتا ہے جنھیں بعض اوقات صرف واہیات کہہ کر نظر انداز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس کام میں مصروف بیشتر بچے بچیوں کو شائد اندازہ ہی نہیں ہو گا کہ اُن کی اس حرکت کے منفی اثرات کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں اور یہ کہ اس طرح وہ ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ اپنے وطن کے مفکر اوّل کی توہین کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں، اسی طرح کچھ دوستوں نے یو ٹیوب پر پڑھے گئے شکوہ، جوابِ شکوہ کی ایک ایسی ویڈیو بھی ڈال رکھی ہے جس کے ساتھ یہ بے بنیاد دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ خود اُن کی آواز میں ہے۔
اس سارے منظر نامے سے علامہ صاحب کی رُوح اور اُن کے کلام کے شناور لوگوں کو جو تکلیف پہنچی ہے یا ہو گی اُس کا اندازہ کرنا کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں ہے، سو اُن کی شخصیت اور شاعری پر بات کرنے سے قبل کم از کم اس کالم کے قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ضروری تھا۔ علامہ صاحب کی غزل کی خوبیاں اپنی جگہ مگر اس بات سے اختلاف شائد ممکن نہیں کہ اُن کی نظم ہر اعتبار سے زیادہ وقیع، پُر اثر اور اپنے عصر کی نمایندہ ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ غزل کے اشعار نظم یا اُس کے مختلف بندوں کی نسبت زیادہ آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے عمومی رُجحان اور شعر و ادب سمیت اُردو زبان سے نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی دُوری کے باعث میرا خیال تھا کہ اُن کے بیشتر پسندیدہ اشعار "بانگِ درا" کی ابتدائی غزلوں میں سے ہوں گے لیکن یہ جان کر بہت خوشی اور تسلّی ہوئی کہ اب بھی نوجوان نسل میں (محدود سطح پر ہی سہی) شعر فہمی کا معیار کافی حد تک برقرار ہے۔ نوجوانوں کے مختلف پلیٹ فارموں سے علامہ صاحب کے جو اشعار زیادہ تکرار کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملے، اُن کا یہ ایک مختصر سا مجموعہ اس دلپذیر اور حوصلہ افزا احساس کا حامل ہے کہ آج بھی اُن کا پیغام نوجوانوں تک اور نوجوان اُن کے پیغام تک نہ صرف پہنچ رہے ہیں بلکہ اس تعامل کا بہت خوبصورت اظہار بھی کر رہے ہیں۔
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
……
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
بِسمل نہیں ہے تُو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
……
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
……
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقیؔ
……
یہ بندگی خدائی وہ بندگی گدائی
یا بندہ، خدا بن یا بندہ، زمانہ
……
تُو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
……
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام، اے ساقی
……
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کر گس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
……
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
……
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
……
وہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
اور آخر میں اُن کی نظم "زمانہ" کے چار اشعار جن میں ہر ایک شعر میرے نزدیک اسی موضوع پر لکھی گئی کسی کتاب سے بھی زیادہ بھاری ہے:
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اِک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتاہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تُو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطرمے، شبانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ