اتفاق ایسا ہوا کہ کئی بار یورپ اور امریکا جاتے ہوئے استنبول کے ہوائی اڈے پر کچھ دیر رکنے کا موقع ملا اور دو بار مختلف وجوہات کی بنا پر ویزا لینے کے باوجود آنا نہ ہوسکا اور یوں 19 دسمبر 2019سے پہلے تک کی ترکی اور استنبول کے بارے میں ساری معلومات کم و بیش کتابی نوعیت کی تھیں۔
ٹرکش ایئرلائن لاہور کے منیجر حامد کے دفتر میں (حامد کے نام کا باقی حصہ بولنے اور لکھنے دونوں میں اتنا مشکل ہے کہ اس امتحان میں نہ پڑنا ہی بہتر ہے) ٹرکش کافی پینے کے دوران یہ بات بار بار ذہن میں آئی کہ دنیا کے 26 ممالک کی بارہا سیاحت کے باوجود ترکی کے سلسلے میں یہ تاخیر ہر اعتبار سے افسوسناک ہے کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب، زبان اور رہن سہن پر جس قدر غالب اثر ترکی کا ہے، شائد کسی اور ملک یا تہذیب کا نہیں کہ جس زبان میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے، خود اس کا نام بھی ترک بنیاد ہے۔
ہماری پرواز کا نمبر 715 تھا جو شہر پر پھیلی ہوئی دھند کے باوجود اپنے وقت مقررہ پر آئی اور گئی کہ قطر اور ٹرکش ایئرلائنز کے طیاروں میں وہ سسٹم موجود ہیں جو کسی بھی حالت میں لینڈ یا ٹیک آف کرسکتے ہیں۔ منتظمین کے اعلیٰ انتظامات کے باعث ہمیں بزنس کلاس میں بٹھایا گیا جس کی وجہ سے تقریباً سوا چھ گھنٹے کا سفر نسبتاً بہت آسانی سے کٹ گیا۔
جہاز کے لینڈ کرنے تک ہر چیز ٹھیک ٹھاک رہی مگر اس کے بعد اس نئے ہوائی اڈے کے طول طویل کاریڈورز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی بار مڑنے اور برقی زینوں سے اترنے چڑھنے کے بعد بالآخر ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پر لگی قطاروں سے امیگریشن کے علاقے کا شبہ ہورہا تھا مگر معلوم ہوا کہ یہ علاقہ ان مسافروں کا ہے جنھیں یہاں سے کوئی اور فلائٹ لینی ہے۔ رہبری کے نشانات کے ابہام اور ٹرکش لوگوں کی انگریزی زبان سے عمومی اجنبیت کے باعث اپنی منزل مقصد یعنی امیگریشن ڈیسک ڈھونڈنے میں آگے پیچھے کے ایک دو مزید چکر لگ گئے مگر یہ مرحلہ خلاف توقع بہت جلد نمٹ گیا۔
پاکستان دنیا کے ان مہمان نواز ملکوں میں سے ایک ہے جس کے ہوائی اڈوں پر ٹرالی کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ترکی میں ایسا نہیں تھا اور ہمارے پاس اس کے لیے مطلوبہ مقامی کرنسی بھی نہیں تھی۔ بیگم صاحبہ کو ایک جگہ کھڑا کرکے کرنسی ایکسچینج کے لیے خاصا لمبا چکر کاٹ کر یہ منزل تو سر ہوگئی مگر اب سوال یہ پیدا ہوا کہ سامان کس گردشی پٹی سے حاصل کیا جائے۔ یہاں بھی معلوماتی نشانات اور زبان کے مسائل آڑے آئے اور معلوم ہوا کہ ہمارا سامان دوسرے کونے پر آٹھ نمبر والی پٹی سے ملے گا۔
اس سارے عمل میں تقریباً پون گھنٹہ لگ گیا۔ منتظمین کی بھجوائی ہوئی کار اور گائیڈ رفیق کے ہمراہ ہوائی اڈے سے نکلے تو معلوم ہوا کہ یہاں سے ہوٹل یعنی شہر کا فاصلہ ایک گھنٹے کے لگ بھگ ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق ( ترکی ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے) دوپہر کے کھانے کا وقت کب کا ہوچکا تھا۔ ہاں یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ مقامی استعمال کے لیے فون کی سم حاصل کرنے میں مزید آدھ گھنٹہ بھی صرف ہوگیا تھا۔
عاطف بٹ نے مشورہ دیا کہ اس کے دوست عزیزی فیضان کا دفتر ہمارے راستے میں ہی پڑے گا اور اس ایریا میں بہت اچھے ترکی ریستوران بھی ہیں۔ وہ آپ سے ابھی رابطہ کرے گا، آپ کھانا کھا کر ہوٹل جائیے گا۔ حمدی ریستوران کا کھانا تو گزارے لائق ہی تھا مگر وہاں تک پہنچنے اور گاڑی پارک کرنے میں ہم جتنی اور جس طرح کی ٹریفک سے گزرے وہ اپنی جگہ ایک پوری داستان ہے۔
معلوم ہوا کہ سارا استنبول شہر اسی طرح کی اونچی نیچی سڑکوں اور سرکس میں چلنے والی گاڑیوں کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہوٹل پلٹن گارڈن ان کی عمارت خاصی بلند جگہ پر تھی اور وہاں تک کی چڑھائی ایسی زیادہ، خطرناک اور دشوار گزار تھی کہ تھوڑی دیر تک تو ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔ البتہ ہوٹل اندر سے ہر اعتبار سے معقول اور عمدہ تھا۔
عزیزی فیضان کھانے کے بعد ہمیں قریب ہی واقع اپنا بزنس آفس دکھانے بھی لے گیا۔ وہ شادی کارڈ بنانے اور شادی پر دیے جانے والے مختلف تحفوں کی تیاری اور سپلائی کا کام کرتا ہے۔ اس علاقے کی گلیاں پرانے اور اندرون شہر والے لاہور کی جڑواں بہنیں تھیں کہ اکثر مقامات پر بقول مشتاق احمد یوسفی صاحب اگر ایک مرد اور عورت وہاں سے مل کر گزریں تو صرف نکاح کی گنجائش ہی باقی بچتی ہے۔ ڈرائی فروٹ کی دکانیں نسبتاً زیادہ تھیں، معلوم ہوا کہ یہاں کا میوہ انتہائی اچھا ہونے کے ساتھ بہت سستا اور بے حد مقبول بھی ہے۔
ہوٹل میں ہمارے کمرے کا نمبر 629 تھا بلکہ ہے کہ یہ کالم اسی کمرے میں بیٹھ کر لکھا جارہا ہے۔ کھڑکی سے کافی نیچے سڑک پر آتی جاتی ٹریفک اور اس سے چند ہی قدم دور سمندر میں کشتیوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں سمندر چھوٹی چھوٹی کھاڑیوں کی شکل میں اکثر آبادیوں کے درمیان سے گزرتا ہے اور زیادہ تر مقامات پر اس کا پاٹ کسی دریا کے پاٹ جیسا لگتا ہے۔ اس سمندری وقفے سے قطع نظر اور اس سے آگے عمارات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو بتدریج اوپر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کا زیادہ تر علاقہ کسی زمانے میں ٹیلوں کی شکل میں ہوگا۔
پاکستان سے چلنے سے پہلے ہی برادرم عاطف بٹ (جو یہاں پاکستان کے ایک نجی چینل کے نمایندہ ہیں اور جن سے رابطے کے لیے عزیزہ ناز بٹ نے خصوصی تاکید اور فرمائش کررکھی تھی اور "الخدمت" پاکستان کے ترکی میں نمایندے عمر فاروق سے (جن سے یہاں عبدالشکور نے تعارف کرایا تھا)طے ہوچکا تھا کہ استبول کے تاریخی مقامات کی سیر ان دو نوجوانوں کے ذمے ہے۔
سو پہلی قسط کے طور پر عاطف بٹ نے تقسیم کے علاقے میں واقع ایک پاکستانی دوست انس اور ان کے رفقاء کے ریستوران میں رات کے کھانے کا انتظام کررکھا تھا مگر یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے ہمارے استقبال کے لیے ایسا عمدہ اور زبردست انتظام کررکھا ہوگا کہ نہ صرف پندرہ کے قریب خواتین و حضرات نے ہمیں گلدستے پیش کیے جب کہ ڈائنگ ایریا میں بڑی سی اسکرین پر میری صدارت میں ہونے والے پہلے جشن ریختہ 2015ء کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی چل رہی تھی۔ اس محبت بھری پذیرائی نے بہت دیر تک ہم دونوں میاں بیوی کو اپنے حصار میں رکھا اور یوں کھانے کا وقت دوبالا ہوگیا۔
ایئرپورٹ کی طویل مسافت کی وجہ سے فردوس کا جوتا بہت تنگ کررہا تھا۔ سو وہ میزبان خاتون کے ساتھ نیا جوتا ڈھونڈنے نکل پڑی۔ اب ہوا یوں کہ وہ لوگ کسی اور راستے سے قریبی استقلال اسٹریٹ کی طرف نکلے جب کہ ہم سب اپنی طرف سے ان کے پیچھے ایک دوسرے راستے سے چل پڑے۔ لوگوں کا ہجوم اور مکانوں کی اکثریت کچھ ایسی تھی کہ باوجود کوشش سے وہ لوگ کہیں نظر نہیں آئے۔
اتفاق سے میزبان خاتون کا فون بھی ہوٹل میں چارجنگ پر لگا ہوا تھا اور یوں ان کا رابطہ اپنے شوہر سے بھی منقطع تھا۔ مطلوبہ جوتا تو نہ مل سکا مگر ان خواتین کو ڈھونڈنے میں کوئی ایک گھنٹے کے بعد بالآخر کامیابی ہو ہی گئی جس پر بہت دیر تک ہنسی مذاق چلتا رہا۔ اب آگے کی روداد انشاء اللہ اگلے کالم میں۔