Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jasta Jasta

Jasta Jasta

دو تین کالم قبل میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آیندہ کالم میں شاعروں اور ادیبوں کے کچھ لطیفے شیئر کروں گا تاکہ اس مسلسل ’کورونا زدگی" کے عذاب کا مقابلہ خوش مزاجی سے کرکے منہ کا ذائقہ بدلا جاسکے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر زیادہ اچھے لطیفے وہی ہوتے ہیں جو صرف بے تکلف دوستوں کی محفل میں ہی سنائے جاسکتے ہیں، یوں بھی لکھنے میں لطیفے کا مزہ جاتا رہتا ہے کہ اس کا زیادہ تر تعلق طرزِ ادا سے ہوتاہے سو اِن لطیفوں کو اسی پس منظر میں پڑھنا پڑے گا البتہ جہاں تک ان کی واقعیت یا صحیح ہونے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ بعض اوقات یہ ہوتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔

شاہد حمید صاحب کی اس کتاب "شاعروں ادیبوں کے لطیفے" میں زمانی ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے اور کہیں کہیں کسی کردار یا واقعے کے پسِ منظر سے عدم یا کم واقفیت کے باعث یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ا س میں ہنسنے والی بات کون سی ہے۔ پہلی قسط کے طور پر میں نے اسی زمانی ترتیب کے مطابق جستہ جستہ کچھ لطیفوں کا انتخاب کیا ہے اگر ان میں سے آدھے بھی کام کرگئے تو کام چل جائے گا۔ کالم کی گنجائش کی محدودیت کے باعث میں نے ایسے لطیفوں کو ترجیح دی ہے جو زیادہ لمبے نہ ہوں۔ اس سے یاد آیا کہ ایک دفعہ خالداحمد نے ایک بہت لمبا لطیفہ سنانے کے بعد کہا کہ یہ میں نے کسی رسالے میں پڑھا تھا، اس پر احمد ندیم قاسمی بولے۔

"یقینا یہ اُس رسالے کا کوئی خاص نمبر ہوگا"

تو اس سلسلے کا آغاز بھی مرزا غالب سے کرتے ہیں کہ ایک فارسی محاورے کے مطابق صد ر کو جہاں بھی بٹھائو وہ صدر ہی رہتا ہے "

"نواب یوسف علی خان والئی رام پور کی طرف سے مرزا کا سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر تھا۔ نواب صاحب کا انتقال ہوا تو مرزا صاحب تعزیت کے لیے اُن کے جانشین کلبِ علی خاں کے پاس گئے۔ انھوں نے چلتے ہوئے حسبِ معمول مرزا صاحب سے کہا،

"مرزا صاحب الوداع خدا کے سپرد۔"مرزا غالب جھٹ بولے "حضرت خدا نے تو مجھے آپ کے سپرد کیا تھا، آپ اُلٹا مجھے خدا کے سپرد کر رہے ہیں "۔

برطانیہ کے مشہور مزاح نگار ادیب جارج برنارڈ شا لندن کے ایک ہال میں سرمایہ داری کے خلاف تقریر کررہے تھے۔ وہ مجمع کو سرمایہ داروں کے خلاف خوب مشتعل کر چکے تو پُر جوش لہجے میں بولے، "ہال میں جو کاریں کھڑی ہیں وہ تمہارے خون پسینے کی کمائی ہیں، جائو ان کو جلا کر راکھ کردو۔" مشتعل ہجوم کاروں کی طرف دوڑا تو برنارڈ شا نے چِلا کر کہا "ذرا ٹھہرو باہر جو نیلے رنگ کی BX221 کھڑی ہے اُسے مت جلانا، یہ تمہارے غریب برنارڈ شا کی ہے"۔

"ایک مرتبہ علامہ اقبال اپنے استادِ محترم کے ساتھ تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے منہ سے کبھی استادِ محترم کے سامنے شعر نہ نکلا تھا۔ میں اُستاد ِ محترم کے بیٹے احسن کو گود میں اُٹھائے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ انھوں نے مڑ کر کہا ’احسان کو اُٹھانے میں دشواری ہے" میں نے جواب میں بے ساختہ کہا "تیرا احسان بہت بھاری ہے" ایک بار علامہ اقبال سے سوال کیا گیا کہ عشق کی انتہا کیا ہے؟ جواب دیا "حیرت"پھر سوال ہوا"عشق کی انتہا کیا ہے؟ "فرمایا "عشق کی کوئی انتہا نہیں " سوال کرنیوالے نے پوچھا تو آپ نے کیسے کہا "ترے عشق کی انتہا کیا بتائوں " علامہ اقبال نے جواب دیا "دوسرا مصرعہ بھی تو پڑھیے "مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں "

ایک انگریز نے خواجہ حسن نظامی سے پوچھا، سارے انگریزوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں سارے ہندوستانیوں کا رنگ ایک سا نہیں ہوتا؟ خواجہ حسن نظامی نے جواب دیا "گھوڑوں کے رنگ مختلف ہوتے ہیں لیکن سارے گدھوں کا رنگ ایک سا ہوتاہے۔"ایک دفعہ مولانا آزاد سے نہرو نے پوچھا، "جب میں سر کے بَل کھڑا ہوتا ہوں تو خون سر کی طرف جمع ہوجاتاہے مگر جب پائوں کے بل کھڑا ہوں تو ایسا نہیں ہوتا"مولانا نے جواب دیا"جو چیز خالی ہوگی خون اُسی کی طرف جائے گا"

ایک دن ممتاز حیدر صاحبہ(پرنسپل گرلز کالج علی گڑھ) نے رشید صاحب کو لکھا کہ گرلز کالج کی میٹنگ کے لیے تاریخ مقرر کردیں۔ رشید صاحب نے جواب دیا "تاریخ لڑکی والوں کی طرف سے مقرر کی جاتی ہے، آپ مجھ سے تاریخ کے یقین کا اصرار کررہی ہیں!"

فیروز خاں نون کی پہلی بیوی "بیگم نون" کے نام سے موسوم تھیں جب فیروز خاں نون نے دوسری شادی کرلی تو ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا"اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا۔"مولانا نے بے ساختہ جواب دیا "آفٹر نون"ایک زمانے میں اُنکی مولاناتاجور سے شکررنجی ہوگئی۔ ایک محفل میں ادیب اور شاعر جمع تھے۔ کسی نے سالک صاحب سے پوچھا "تاجور اور تاجدار میں کیا فرق ہے؟ "سالک صاحب نے جواب دیا "وہی جو جانور اور جاندار میں ہے"

حفیظ جالندھری سر عبدالقادر کی صدارت میں انجمنِ حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ اختتام پر منتظم جلسہ نے بتایا کہ 300 روپے ہوئے ہیں۔ حفیظ نے کہا کہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے "لیکن حضور " منتظم نے متانت سے کہا 200 روپے ایک ایسے شخص نے دیے ہیں جو بہرا تھا"۔

کنہیا لال کپور نے کسی شخص پر خفا ہوتے ہوئے کہا "میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا" میں بھی آپ کو شریف آدمی ہی سمجھا تھا، اُس شخص نے بھی برہمی میں بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔"تو آپ ٹھیک سمجھے غلط فہمی مجھ کو ہوئی" کپور نے نہایت سنجیدگی اور عجز سے اعتراف کیا۔

زہرہ نگاہ کے ہاں دعوت ختم ہوئی تو زہرہ نگاہ نے ساقی فاروقی سے درخواست کی کہ احمد فراز صاحب کو اُن کی رہائش گاہ تک پہنچا دیں " ساقی نے جواب دیا"میں انھیں گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کیونکہ جوں ہی کوئی خراب شاعر گاڑی میں بیٹھتا ہے، گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے۔" اس پر فیض احمد فیض صاحب نے فقرہ کسا"ساقی تمہارے بیٹھنے سے تو تمہاری گاڑی کے سارے پہیے مستقل ہلتے رہتے ہوں گے"

مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہورہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انھوں نے ہنستے ہوئے پوچھا"مجاز تم نے کباب بیچنے کیوں بند کردیے؟ ۔ آپ کے ہاں سے گوشت جو آنا بند ہوگیا" مجاز نے اُسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔

سعادت حسن منٹو کے ایک دوست نے ایک دن اُن سے کہا، "منٹو صاحب پچھلی بار جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو آپ سے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ آ پ نے مے نوشی سے توبہ کرلی ہے لیکن آج مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہو اہے کہ آج آپ نے پھر پی ہوئی ہے" منٹو نے جواب دیا"بھئی تم درست کہہ رہے ہو، اُس دن اور آج کے دن میں یہ فرق ہے کہ ا س دن تم خوش تھے اور آج میں خوش ہوں "

مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ریل میں سفر کر رہے تھے۔ دوران سفر ٹکٹ چیکر نے اُن سے ٹکٹ مانگا تو بیدی صاحب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر ٹکٹ کا پتہ نہیں تھا، ٹکٹ چیکر بیدی صاحب کو پہچانتا تھا، کہنے لگا "مجھے آپ پر بھروسہ ہے، آپ نے ٹکٹ یقینا خریدا ہوگا"بیدی صاحب پریشانی سے بولے"بھائی بات آپ کے بھروسے کی نہیں مسئلہ تو سفر کا ہے، اگرٹکٹ نہ ملا تو یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ مجھے اُترنا کہاں ہے۔"