مارچ 2020میں لندن سے انڈس اسپتال کے ایک فنڈ ریزر میں شرکت کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ میں ایک رات سے زیادہ گھر سے باہر رہا ہوں اور چودہ ماہ تک پاسپورٹ کو استعمال نہ کرنے کے حوالے سے غالباً یہ گزشتہ تیس برس میں پہلا موقع ہے اور ظاہر ہے کہ ان دونوں وارداتوں کا تعلق عزیزی کووڈ کی پھیلائی ہوئی دہشت ہی سے ہے جس کی وجہ سے گھر زندان اور محفلِ یاراں ایک گمان کی صورت میں ڈھل گئے ہیں اب بظاہر تین چار دن سے بیٹی روشین عاقب کے پاس اسلام آباد میں ہیں اور درودیوار سمیت ہر چیز بدلی ہوئی ہے مگر پتہ نہیں کیوں ایک بھولا بسرا شعر بار بار یاد آرہا ہے۔
وقت دے کر فریبِ آزادی
پاؤں کی بیڑیاں بدلتا ہے
کہ ماسک اور سماجی فاصلوں کی پابندی اور احساس نے ملاقات کو بھی "ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے"کی شکل دے دی ہے کہنے کو سوموار کے دن میں بھائی طاہر شہباز، یوسف خشک، اعجاز گُل اور محمد سلیم سے سیر حاصل گفتگو ہوئی مگر ایک لمحے کے لیے بھی محفل جمنے کا وہ احساس مستحکم نہیں ہوسکا جو ہمیشہ ان ملاقاتوں میں اپنی جگہ خود بنالیا کرتا تھا اور اگر اُسی دن رات کو اپنے پی ٹی سی ایل والے بھائی احمد جلال کے گھر پر اُن کے کچھ ادب دوست احباب سے ملاقات نہ ہوتی تو شائد سارا دن ہی سماجی فاصلوں اور احتیاطوں کی نذر ہوجاتا اور آخر میں صرف عزیزہ فاطمہ حسن کا یہ مصرعہ ہی بچتا کہ "وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں "۔
کورونا کے کمالات میں سے ایک عجیب و غریب کمال یہ بھی ہے کہ اُس نے رُوداد اور تمہید کے فرق کو بھی مٹا دیا ہے ایسے میں ان دوستوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنا بہت اچھا لگا کہ انھوں نے نہ صرف اپنے اپنے مسائل سے بالاتر ہوکر کووڈ کا سارا عرصہ آپس میں ملتے جلتے اور ہنستے کھیلتے گزارا بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس میں شامل رکھا جو ایک انتہائی مستحسن بات ہے کہ جوان ہوتے ہوئے بچے اگر اپنے بزرگوں کی صحبت میں کچھ وقت گزارتے رہیں تو اس سے اُن کی شخصیت میں تو توازن پیدا ہوتا ہی ہے مگر اس خوشگوار سنگت کی وجہ سے ماحول میں بھی روشنی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
انگریزی میڈیم اور نت نئے مضامین کی تعلیم کے باوجود وہ کھانے، شاعری، موسیقی، علمی مسائل اور جملے بازی غرضیکہ محفل کے ہر دور اور موڑ میں بڑوں کے ساتھ ساتھ رہے اُردو شاعری ہمارے بے جہت نصابِ تعلیم کے باعث اُن میں سے کسی کا چائے کا کپ نہیں تھی لیکن اپنے والدین کی اچھی تربیت کی وجہ سے وہ اس سے کم آشنا سہی مگر بالکل اجنبی نہیں تھے فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری نئی نسل generation gapکا جلد شکار اس لیے ہوجاتی ہے کہ عام طور پر اُن کی سینئر نسل خود آگے بڑھ کر اُن سے communicateکرنے کے بجائے اُن کے چل کرآنے کا انتظار کرتی رہتی ہے جب کہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ا گر آپ اُن سے اُن کی زبان اور عام فہم logic میں بات کریں تو اُن میں سے بیشتر نوجوان پوری توجہ سے آپ کی بات سنتے ہیں میں نے آزما کر دیکھا ہے یہ مختصر نظم بڑے پکے اور خاندانی قسم کے انگلش میڈیم نوجوانوں کی سمجھ میں بھی بہت آسانی سے آجاتی ہے کہ
ہاں سنو دوستو
جو بھی دنیا کہے
اُس کو پرکھے بِنا مان لینا نہیں
ساری دنیا یہ کہتی ہے
پربت پہ چڑھنے کی نسبت اُترنا بہت سہل ہے
کس طرح مان لیں
تم نے دیکھا نہیں
سرفرازی کی دُھن میں کوئی آدمی
جب بلندی کے رستے پہ چلتا ہے تو
سانس تک ٹھیک کرنے کو رکتا نہیں
اور اُسی شخص کی، عمر کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے
پاؤں اُٹھتا نہیں
اس لیے دوستو، جو بھی دنیا کہے
اس کو پرکھے بِنا مان لینا نہیں
سو اس محفل میں بھی ایک نظم اسی اصول کے مطابق سینئر اور جونیئر دونوں نسلوں کو یکساں طور پر پسند آئی کہ بات جس دلیل کے ساتھ کی گئی اُس سے وہ آشنا ہی نہیں اُس کے قائل بھی تھے اب یہ اور بات ہے کہ آپ چاہیں تو اس میں میٹا فزکس کے لیے بھی جگہ بنا سکتے ہیں
تعبیروں کے لیے ہمیشہ خواب ضروری ہوتے ہیں
اُسی طرح سے خوابوں میں تعبیر کا ہونا لازم ہے
یعنی خواب وہی اچھے ہیں
جن میں اپنے دل کی دھڑکن
صاف سنائی دیتی ہو
خوشبو رنگوں میں ڈھل جائے
اور دکھائی دیتی ہو!
جن میں ایسے پھول کِھلیں
جو بِن موسم بھی تازہ ہوں
گھیرا کرتی دیواروں میں
جیسے اِک دروازہ ہوں
خواہش اور کوشش کا یعنی
ہر پل ساتھ ضروری ہے
دونوں کو جو یک جا کردے
ایسا ہاتھ ضروری ہے