تھیٹر اور ٹی وی کے ناظرین میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جو کوڈو کی شکل اور نام سے واقف نہ ہو۔ ہمارا یہ قد میں چھوٹا مگر فنی استعداد میں بڑا فن کار کم و بیش تیس برس سے اداکاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھا رہا ہے۔ بوجوہ میری اُس سے ذاتی ملاقات تو کوئی بہت زیادہ نہیں ہے مگر اُس کے ساتھ کام کرنے والا ہر آدمی اُس کے لیے اچھے الفاظ ہی استعمال کرتا ہے۔
صحت کے حوالے سے اپنے کچھ پیدائشی مسائل کی وجہ سے وہ ہمیشہ گونا گوں مشکلات کا شکار رہا ہے اور اُسے اُس طرح کی مالی آسودگی اور خوش حالی مسلسل محنت اور جانفشانی کے باوجود بھی میّسر نہیں ہوسکی جس کا وہ حق دار تھا اور ہے مگر فی الوقت ان میں سے کوئی بات بھی اتنی اہم نہیں جتنا اُس کا فیس بُک پر دیا گیا ایک پیغام ہے کہ اس غریبی، جسمانی معذوری، ٹانگوں کے امراض، دل کے بائی پاس اور مختلف النوع بیماریوں کی وجہ سے اُس کی زندگی مشکلات کا شکار تو ہمیشہ سے رہی ہے مگر یہ جو حکومت نے بنیادی انسانی ضروریات کی قیمتوں کو بڑھنے کی کُھلی چھٹی دے رکھی ہے اور اس میں وہ شعبے بھی شامل ہیں جن کا تعلق براہ راست حکومت سے ہے یعنی بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی جن کے بارے میں ہر حکومت یہ اعلان کرتی پائی جاتی ہے کہ ان کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی اثر غریب طبقے پر نہیں پڑے گا کہ حکومت نے سبسڈی کے ذریعے اُن کو خصوصی رعایات دے رکھی ہیں اور اُن سے موصول کیے جانے والے بلوں میں ایک خاص حد تک استعمال کی جانے والی بجلی اور گیس کا معاوضہ کم سے کم رکھا جاتا ہے۔
یہ بات اعلان کی حد تک یقینا درست ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے نزدیک "غریب" کی تعریف کیا ہے اور بجلی یا گیس کے جس قدر استعمال پر قیمت میں رعائت دی جاتی ہے کیا وہ عملی طور پر صحیح اور کامل ہے؟ واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک عام غریب گھرانا آٹھ دس افراد پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ اُن میں سے کمانے والا عام طور پر صرف ایک ہی فرد ہوتا ہے، اب اس پر خراب میٹرز، اندازے یانام نہاد اوسط کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے بلوں کی دھاندلی کو بھی شامل کر لیجیے تو وہی صورتِ حال سامنے آئے گی جس پر کوڈو ماتم اور احتجاج کر رہا ہے۔
کہنے کو تو سوئی گیس کی پہلی اور آخری سلیب کے درمیان تقریباً بارہ گنا فرق ہے یعنی استعمال کے حساب سے مبینہ غریب کو اپنے سے بھی زیادہ مبّینہ مڈل یا اَپر کلاس کے فرد کے مقابلے میں بارہ گُنا کم بِل دینا پڑتا ہے جہاں تک قیمت، لائن رینٹ اور ٹیکسز کا تعلق ہے وہ سب کے لیے ایک جیسے ہیں۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق آپ جس سلیب میں آتے ہیں اُس کے ہر استعمال شدہ یونٹ کی قیمت آپ کو اُس سلیب کے ریٹ کے مطابق دینا پڑتی ہے۔ اگر سچ مُچ ایسا ہی ہے تو یہ بہت ہی غیر منطقی اصول ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ ایک سرکاری طور پر غریب یعنی بیس ہزار سے کم ماہانہ آمدنی والے گھر کو اگر پانچ سے دس ہزار تک صرف گیس ہی کا بِل دینا پڑے تو وہ جیئے گا کیسے؟ یہی وہ رونا ہے جوکوڈو نے رویا ہے کہ وہ اتنا بھاری بِل کیسے اور کہاں سے ادا کرے؟
اب ہم اس کہانی کو غربت کی سطح سے اوپر زندگی گزارنے والی مڈل کلاس کی طرف لے جاتے ہیں جس کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان ہے۔ اس طرح کے گھروں میں اگرسردیوں میں ایک ہیٹر یا پانی گرم کرنے والے گیزر کا جزوی استعمال ہی کیا جائے تو موصول ہونے والے بِل کے مطابق آپ ایک دم چھلانگ مار کر تین یا چار اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ یعنی 1460 روپے فی یونٹ کے حصار میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس بار میرے ساتھ بھی ہوا ہے۔ میرا ماہانہ بِل ایک سے چار ہزار کے درمیان آتا تھا۔ فروری مارچ میں یہ دس دس اور اپریل میں اکیس ہزار ہوگیا ہے جب کہ میرے گھر میں بچوں سمیت صرف چھ افراد رہتے ہیں اور گیس کا استعمال صرف ان کے لیے کھانا پکانے یا سرونٹ کوارٹر میں ملازمین کا چولہا جلانے کے لیے ہوتا ہے۔
ہیٹر کا استعمال ہم کرتے ہی نہیں البتہ سردیوں میں گیز ر کا محتاط استعمال ضرور کیا جاتا ہے، اب یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ صرف گیزر کی وجہ سے بِل نو گنا بڑھ سکتا ہے، میں نے شکائت کی تو فوراً ایک ملازم صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے آیا، اس نے میٹر کی تصویروں اور ریڈنگ کے ریکارڈ کے ذریعے مجھے یہ بتایا کہ آپ کا میٹر اور بِل دونوں صحیح ہیں اور یہ مسئلہ صرف 1460 روپے والی سلیب میں داخلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
مختلف سلیبز کے درمیان اس قدر زیادہ فرق بلکہ آخری سلیب کا ریٹ تو بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اب چونکہ یہ سارا حساب کتاب میٹر کی ریڈنگ کی بنیا د پر ہوتا ہے، اس لیے ملازمین چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے۔ میں نے ابھی ابھی جرمانوں سمیت بِل اس خوف سے ادا کردیا ہے کہ میں میٹر کٹوانے کا رِسک نہیں لے سکتا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جیسے سفید پوش اور کوڈو اور اُس کی طرح کے کروڑوں لوگ کیا کریں اور کہاں جائیں۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ارباب اختیار بھی کوڈو کی یہ چیخ و پکار کرتی ہوئی ویڈیو دیکھیں اور پھر اُس کی جگہ پر آکر اس انسانی مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے چونکہ میرے لیے کوڈو کی اس فریاد کو بار بارسنناممکن نہیں اس لیے میں اپنے اپریل کے اکیس ہزار سے زیادہ کے بِل کے مندرجات اوران کی نوعیت پر غور کرنے کی بے فائدہ کوشش کرتا ہوں حالانکہ ریاضی اسکول کے زمانے میں بھی وہ واحد مضمون تھا جس میں کبھی میرے نمبراچھے نہیں آئے۔