Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kuch Sawal

Kuch Sawal

بہت سال پہلے میں نے کسی غزل میں ایک شعرلکھا تھا:

وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل

زیست مکتب ہے، امتحان نہیں

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی کے دور میں بہت سے پرانے سوال تیزی سے حل ہو رہے ہیں اور ہماری دنیا اور کائنات کے اسرار جو چند برس قبل تک معموں کی طرح ہوتے تھے اب روزمرہ کی باتیں بن کر رہ گئے ہیں البتہ ایک مرکزی سوال اب تک وہیں کا وہیں ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟

اس سوال کو "وہیں کا وہیں " میں نے اس لیے کہا ہے کہ کسی ایک خد ا کے وجود کو ماننے اور نہ ماننے والے کم و بیش ایک سی تعداد میں آج بھی پائے جاتے ہیں سائنس اور وجدا ن بھی صدیوں سے یہی بحث کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سائنس انسانی عقل کی ترجمان ہے اور مذہب اُس وجدان کا جس کا تعلق شعور کی ایک خاص سطح سے ہے ایک اُسے Big Bang کہتا ہے تو دوسرا ایک حرفِ کُن کا اعجاز۔

ایسے میں ایک عام ذہانت کا حامل انسان سب سے زیادہ مخمصے میں ہے کہ اعلیٰ فکر اور تعلیم والے اس پر علمی بحث کر سکتے ہیں جب کہ غریب اور جاہل انسانی آبادی کی کثرت اپنے بزرگوں کے اعتقادات کے ساتھ ایک رسمی تعلق رکھنے میں ہی خوش رہتی ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں کے درمیان یہ عام ذہانت والے لوگ ہی اُس پُل کا کام کرتے ہیں جس کے توسط سے دریا کے یہ دونوں کنارے ایک دوسرے سے مکالمہ کر پاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی پُل نما تحریر نظر سے گزری تو جی چاہا کہ اُس کے کچھ اقتباسات آپ سے بھی شیئرکیے جائیں میں اس پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کروں گا البتہ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ انھیں کھلے دل سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے بین السطور جوابات پر بھی توجہ دیجیے گا۔

"سورج فضا میں ایک مقررہ راستے پر پچھلے پانچ ارب سال سے 600 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل بھاگا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان 9 سیارے 27 چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے جا رہا ہے کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا غلطی سے کوئی اِدھر اُدھر ہو جائے سب اپنی اپنی راہ پر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق نہائت تابعداری سے چلے جا رہے ہیں۔

اب بھی اگر کوئی کہے، چلتے ہیں لیکن چلانے والا کوئی نہیں، ڈیزائن ہے لیکن ڈیزائنر نہیں، قانون ہے لیکن قانون کو نافذ کرنیوالا نہیں، کنٹرول ہے لیکن کنٹرولر نہیں یہ سب ایک حادثہ ہے اسے آپ کیا کہیں گے؟

چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دُور زمین پر سمندروں کے اربوں کھربوں ٹن پانیوں کو ہر روز دو دفعہ مدّ و جزر سے ہلاتا رہتا ہے تا کہ ان میں بسنے و الی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا انتظام ہوتا رہے، پانی صاف ہوتا رہے اس میں تعفن پیدا نہ ہو ساحلی علاقوں کی صفائی ہوتی رہے اور غلاظتیں بہہ کر گہرے پانیوں میں چلتی جائیں۔ یہی نہیں بلکہ سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ نہ کم، نمکین بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہے تا کہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد اُن کی لاشوں سے بُو نہ پھیلے انھی میں کھاری اور میٹھے پانی کی نہریں بھی ساتھ ساتھ بہتی رہیں۔

سطحِ زمین کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھارے پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں سب کے درمیان ایک غیب پردہ ہے تا کہ میٹھا پانی میٹھا رہے اور کھارا پانی، کھارا۔ اس حیران کن (نظام کے پیچھے کون سی عقل ہے؟ اس توازن کو کون برقرار رکھے ہوئے ہے؟ کیا پانی کی اپنی سوچ تھی یا چاند کا فیصلہ؟

ساڑھے چودہ سو سا ل پہلے جب جدید سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا، عرب کے صحرا زدہ ملک میں جہاں کوئی اسکول اور کالج نہیں تھا ایک آدمی اُٹھ کر سورج اور چاند کے بارے میں کہتا ہے کہ "یہ سب ایک حساب کے پابند ہیں " سمندروں کی گہرائیوں کے متعلق بتاتا ہے کہ ان کے درمیان میں برزخ "Barrier" ہے جو قابو میں رکھے ہوئے ہے"۔

جب ستاروں کو اپنی جگہ لٹکے ہوئے چراغ کہا جاتا تھا وہ کہتا ہے "یعنی سب کے سب اپنے مدار پر تیر رہے ہیں " جب سورج کو ساکن تصور کیا جاتا تھا وہ کہتا ہے "یعنی سورج اپنے لیے مقرر شدہ راستے پر کسی انجانی منزل کی طرف ہمیشہ سے چلا جا رہا ہے" جب کائنات کو ایک جامد آسمان (چھت) کہا جاتا تھا وہ کہتا ہے "یہ پھیل رہی ہے" وہ نباتات اور حیوانی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے کہ ان سب کی بنیاد "پانی" ہے۔

البرٹ آئن سٹائن اپنی دریافت "قوانین قدرت اَٹل ہیں " پر جدید سائنس کا بانی کہلاتا ہے لیکن اس سے بہت پہلے بتا دیا گیا تھا "تم رحمن کی تخلیق میں کسی جگہ فرق نہیں پائو گے" جدید سائنس کی ان قابل فخر دریافتوں پر ساڑھے چودہ سو برس پہلے پردہ اُٹھانے و الا کس یونیورسٹی سے پڑھا تھا؟ کس لیبارٹری میں کام کرتا تھا؟ نو مولود بچے کو کون سمجھاتا ہے کہ بھوک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟ ماں کو کون حوصلہ دیتا ہے کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہو کر بچے کو بچائے ایک معمولی سی چڑیا شاہین کے مقابلہ پر اُتر آتی ہے، یہ حوصلہ اُسے کس نے دیا؟ مرغی کے بچے انڈے سے نکلتے ہی چلنے لگتے ہیں، حیوانات کے بچے بغیر سکھائے مائوں کی طرف دودھ کے لیے لپکتے ہیں، انھیں یہ سب کچھ کون سکھاتا ہے؟ جانوروں کے دلوں میں کون محبت ڈال دیتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے مونہوں میں ڈالیں؟ یہ آداب زندگی اُنہوں نے کہاں سے سیکھے؟

اسی طرح کی بے شمار سوالاتی مثالیں اور بھی ہیں لیکن سب کا آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ ابھی پردہ غیب میں ہے اس کا کوئی مقصد ہے اور اس مقصد کو متعین کرنیو الا ایک ایسا خالق ہے جو اَزل اور اَبد سے بھی ماورا ہے اور جس کے حکم سے ہر چیز پیدا ہوئی بلکہ اُسکے بنائے پروگرام کے مطابق چل رہی ہے۔ اب وہ پروگرام کیا ہے؟ اور اس کی ماہیت، تشکیل، حد اور مقصد کے بارے میں کوشش ہی ان تمام سوالوں کی محرک اور بنیاد ہے اور یہ ایک ایسا مسلسل اور جاری عمل ہے جو زمان اور مکان دونوں پر حاوی بھی ہے اور ان کا حصہ بھی اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے، شائد

کہ آ رہی ہے دما دم صدائے "کُن فیکوں "