اِرادہ تھا کہ اس کالم میں برادر ملک ترکی اور اُس کی طرف سے مجھے ملنے والے نجیب فاضل ایوارڈ برائے انٹرنیشنل آرٹ اینڈ کلچر کے بارے میں کچھ معلومات اپنے قارئین سے شیئر کی جائیں مگر اُوپر تلے بہت سی ایسی خبریں جمع ہوگئی ہیں جو فوری توجہ اور تبصرے کی مستحق ہیں سو اب یہ "ترک کہانی" آیندہ کے چند کالموں کے ساتھ سہی کہ مجھے 19سے27 دسمبر تک ترکی میں قیام کرنا ہے۔
جہاں اس ایوارڈ سے قطع نظر استنبول، انقرہ اور قونیہ کی یونیورسٹیوں میں کچھ تقریبات طے ہیں اور وہاں دیکھنے والی بھی اتنی چیزیں ہیں کہ ابھی سے زمان و مکان آپس میں گڈ مڈ ہورہے ہیں۔ جن خبروں اور واقعات پر بات ضروری ہے اُن کی فہرست کچھ اس طرح سے ہے۔
۱۔ مودی حکومت کی مسلمان دشمنی اورCAD
۲۔ جنرل مشرف اور عدالتی فیصلہ
۳۔ پاکستان اور یورپی یونین
۴۔ صدیقہ بیگم اور عارف شفیق کی رحلت
2014میں جب سے بھارت میں بی جے پی کی حکومت جسے مودی سرکار بھی کہا جاتا ہے برسرِ اقتدار آئی ہے بھارت کے چہرے سے سیکولرازم کا وہ نقاب مسلسل اُترتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے اُسے جنوب مشرقی ایشیاء میں جمہوریت کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا گزشتہ چند مہینوں میں اس حکومت کی مسلمان دشمنی اور تعصب نہ صرف کھل کرسامنے آگئے ہیں بلکہ اب مودی سرکار نے اسے باقاعدہ ownکرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
کشمیر پر براہ راست قبضے اور بابری مسجد کو رام مندر قرار دینے کے بعد اب CAD کے نام سے جو بل دونوں ایوانوں سے منظور کروایا گیا ہے اُس میں جس طرح سے انصاف، جمہوریت، سیکولرازم اور آئین کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں اُس کا ردِّعمل اتنا شدید ہے کہ شائد اس بار مودی سرکار کو لینے کے دینے پڑجائیں کہ کم و بیش پورے ملک میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں جن میں وہاں کے مسلمان اور دیگر اقلیتیں تو شامل ہیں ہی مگر جس طرح سے وہاں کی انصاف پسند ہندو برادری اور اس کے معتبر اور بین الاقوامی سطح پر معروف لیڈروں اور دانشوروں نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے بالخصوص آسام کے لوگوں نے جس طرح سے اس حکومتی منافقت اور آئین سے غداری کا پول کھولا ہے۔
اُس کے بعد کوئی بھی حکومتی موقف یا توضیح ایک جھوٹ کے پلندے کی شکل اختیار کرگئے ہیں جس بے دردی سے احتجاج کرنے والوں بالخصوص یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے اور اس کی وجہ سے بھارت امریکا دوستی میں بھی واضح رخنے پیدا ہوگئے ہیں کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر ایسی Sanctions عائد کرنے کے اشارے مل رہے ہیں جو اس سے قبل صرف علانیہ دشمنوں کے لیے مخصوص تھے۔
آئین سے غداری کی ایک صورتِ حال اس عدالتی فیصلے میں بھی سامنے آئی ہے جس کے تحت سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان جنرل مشرف کو آرٹیکل 6کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی خبر اور قانون اور عوام کی حکمرانی کے سلسلے میں انقلابی پیش رفت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انتہائی سنجیدہ اور توجہ طلب ہے کہ مختلف اداروں کے جو سربراہ اور کارندے اس جُرم میں شریک رہے اور جن کی مدد سے جنرل مشرف کو آئین سے کھلواڑ کا موقع اور سہولت ملی اُن کو بھی کٹہرے میں لایا جانا ضروری ہے تاکہ اُس نام نہاد "نظریہ ضروری" کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکے جس کی وجہ سے وطنِ عزیز کے 72 میں سے تقریباً 35برس مارشل لاؤں کی نذر ہوگئے ہیں۔
کل شام برادرِ عزیز ابرار الحق کے گھر پر ایک کھانا تھا جس کے مہمان خصوصی ہمارے مشترکہ دوست سجادکریم تھے جو یورپی یونین کے حوالے سے نہ صرف ایک جانا پہچانا نام ہیں بلکہ جن کی مدد، کوشش اور لابی سے حالیہ چند برسوں میں پاکستان کو کچھ ایسی رعایتیں ملیں جن کی وجہ سے ہماری تجارت اور اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اس کشمیری نوجوان کا آبائی تعلق منڈی بہاؤالدین سے ہے اپنے خاندان کی انگلینڈ نقل مکانی کے باعث اس کی تعلیم و تربیت اور ذہنی رجحانا ت کی تشکیل اُس مغربی کلچر میں ہوئی جس میں ذہانت اور محنت کی مدد سے لیڈر شپ کے راستے آپ سے آپ کھلتے چلے جاتے ہیں، بات بریگزٹ اور انگلینڈ کے حالیہ انتخابات سے شروع ہوئی اور چلتے چلتے پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات کے نشیب و فراز تک جا پہنچی اس محفل میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی موجود تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے ایشیائی نژاد مسلمان ممبر منتخب ہوئے تھے اور جن کا یورپ، انگلینڈ اور پاکستان کے تعلقات کا علم اور تجربہ براہِ راست بھی ہے اور غیرمعمولی بھی جب کہ وہ سجاد کریم کے پرانے دوست ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کئی مراحل میں شریک اور شامل بھی رہے ہیں اور سجاد کریم کی یورپی یونین کے حوالے سے پاکستانی دوست خدمات اور کارناموں کے عینی شاہد بھی ہیں۔
ان دونوں کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ اگر یورپی یونین میں پاکستان کے لیے امکانات کی دنیا بے حد وسیع ہے اور اس وقت بھی اس سے پاکستان کی باہمی ٹریڈ امریکا اور چین سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے مگر ماضی قریب میں ملکی سطح پر اس کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جو اس کا حق تھی اور یوں اب باہمی تعلقات ایک ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جنھیں کسی طور بھی مستحسن نہیں کہا جاسکتا اُمید کی جانی چاہیے کہ ہمارے متعلقہ اربابِ اختیار اس کی طرف فوری توجہ دیں گے اور سجاد کریم جیسے پاکستانی دوستوں کی رضاکارانہ خدمات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ایسی نعمتیں روز روز اور آسانی سے نہیں ملتیں۔
اسی ہفتے میں ہماری ادبی دنیا کے دو بہت اہم نام بھی اپنا سفرِ حیات مکمل کرنے کے بعد اُس منزل کی طرف روانہ ہوگئے ہیں جدھر اگرچہ ہم سب کو جانا ہے مگر اس کے باوجود ہر جانے والا اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ایک کسک اور یادوں کا انبار چھوڑ جاتا ہے۔
صدیقہ بیگم کا تعلق تو ایک ادبی اور اشاعتی گھرانے سے تھا ہی کہ اُن کے رشتے داروں میں حنیف رامے، اشفاق احمد، اور بانو قدسیہ جیسے بڑے نام شامل ہیں مگرخود اُن کی شخصیت بھی ادبی حلقوں میں بہت محبوب اور نمایاں تھی وہ نہ صرف اُردو کے ایک عہد ساز ماہنامے "ادب لطیف"، کو جاری رکھے ہوئے تھیں بلکہ اپنی مخصوص خوش مزاجی کے باعث لاہور کی ادبی محفلوں کی جان بھی سمجھی جاتی تھیں اسی طرح عارف شفیق مرحوم نے بھی ساری زندگی ادب کے ساتھ کمٹ منٹ اور محبت میں گزاری ایک عوام دوست اور انسانی حقوق کے علم بردار شاعر کے طور پر وہ اپنے دور کے اہم اور فعال شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ رب کریم ان دونوں کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے ہم تو صرف یہ دعا ہی کرسکتے ہیں کہ
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را