یہ دو تازہ شعری مجموعے ہیں جو بالترتیب عمر عزیز اور سلطان ناصر کی تحریر کردہ نظموں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں، ان دونوں کتابوں میں یوں تو کئی باتیں مشترک ہیں مگر ان میں سے دو خصوصیات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ان کے بغیر شائد وہ منظر واضح نہ ہو سکے جس کی طرف میں اشارا کرنا چاہتا ہوں، ایک تو یہ کہ ان دونوں کتابوں میں صرف نظموں کو جگہ دی گئی ہے (جو فی زمانہ اپنی جگہ پر ایک جرات مندانہ اقدام ہے) اور دوسرے یہ کہ دونوں شاعر عمر کے تقریباً ایک ہی حصے میں ہیں اور یوں ان کے اردگرد کے مناظر اور مسائل میں بھی ایک طرح کی مماثلت پائی جاتی ہے۔
دونوں نے میرے علم کے مطابق بہت سی کامیاب غزلیں بھی کہہ رکھی ہیں جن کی شمولیت سے یقیناً ان کتابوں کے قارئین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو سکتا تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، یہاں خود مجھ سے اُن کا ایک استعاراتی تعلق بھی قائم ہو گیا ہے کہ خود میں نے بھی اپنے پہلے مجموعے "برزخ" میں صرف نظموں کو شامل کیا تھا حالانکہ اس وقت میری کئی غزلیں "فنون" جیسے وقیع ادبی پرچے میں شایع ہو چکی تھیں اور غزلیہ مجموعوں کو پذیرائی بھی نسبتا بہت زیادہ اور جلدی ملتی تھی۔ اب اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس کے محرکات کیا تھے، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دونوں کتابوں کو نہ صرف پذیرائی ملی ہے بلکہ ان کے حوالے سے بہت سی ایسی تحریریں اور آرا بھی سامنے آئی ہیں جن سے جدید نظم کا منظر زیادہ خوش رنگ اور وسیع تر ہوا ہے۔
سلطان ناصر کی نسبت عمر عزیز سے میرا تعارف واجبی سا تھا لیکن اب ان دونوں عزیزانِ گرامی کی نظموں کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد یہ میرے ذوق اور دل دونوں سے بہت قریب ہو گئے ہیں، ایک اور مشترک بات ان دونوں کتابوں میں یہ ہے کہ ان میں شامل زیادہ تر نظمیں اگر مختصر نہیں تو مائل بہ اختصار ضرور ہیں، اس کا تعلق اُن کے موضوعات سے ہے یا مزاج سے! اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن اس کو ہم اس کالم کے بجائے کسی تنقیدی مضمون پر اُٹھا رکھتے ہیں اور فی الوقت صرف اس اختصار کی جامعیت کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمر عزیز کی نظموں میں موضوعات صرف متنوع ہی نہیں انوکھے اور غور طلب بھی ہیں، اس پر مستزاد اُن کے بیان کا رچائو، مترنم بحروں کا استعمال، موسیقیت، روانی ا ور استعارات سے زیادہ امیجز کا استعمال ہے کہ وہ ایک ڈرامہ نگار کی طرح تمثال کاری کے تقاضوں کا لحاظ بھی رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افتخار بخاری کے لکھے ہوئے مبسوط اور عمدہ دیباچے میں اُن کی ایک نظم"تھیلا آدمی" کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے جو اپنی نوعیت میں بہت خوفناک اور دل دہلا دینے والی ہے جس سے شاعر کے وژن، مشاہدے، احساس اور انسانی ا قدار کی تعظیم کا ایک ایسا رُوپ سامنے آتا ہے جو منظر اور ناظر کو ایک طرح سے یک جان کر دیتا ہے اور یہ اعزاز بہت کم نظموں اور اُن کے شاعروں کو حاصل ہوتاہے۔ نظم دیکھئے، اس کا تاثر ہی اس کی بہترین تشریح ہے۔
کئی جسموں کے ٹکڑے
ایک ہی تھیلے میں آئے ہیں
یہ آدھا سر کسی بچے کا لگتا ہے
گلابی رنگ کے کپڑے میں لپٹے ہاتھ پر
مہندی رچی ہے
خون میں لَت پت کٹا پائوں ہے مردانہ
یہاں کچھ انگلیاں بھی ہیں
جگر بھی، پھیپھڑے بھی
رنگ کے جھگڑے بُھلا کر
جلد کے کچھ چیتھڑے بھی
سب اسی تھیلے میں آئے ہیں
انھیں بھی مردہ خانے میں سجا دو
اور یہ تھیلا مجھے دے دو
یہ میرے کام آئے گا
بڑا مضبوط تھیلا ہے
عمر عزیز پیشے کے اعتبار سے تو ڈاکٹر ہیں مگر انھیں معاشرے کی نبض دیکھنے کا ڈھب بھی آتا ہے۔
جھکے گا کس طرف میزان آ کر
میں کہ غافل ہوں مگر منکر نہیں ہوں
وہ کہ منکر ہے مگر غافل نہیں ہے
"لکیروں پر نہیں چلتے" ایک ایسا "فرد آشوب" ہے جسے آسانی سے "شہر آشوب" بھی کہا جا سکتا ہے۔
سلطان ناصر کی شخصیت میں روحانیت کا جو عنصر اُس کے اجداد کی طرف سے آیا ہے، دنیاوی علوم اور فلسفے کی آمیزش سے وہ روائتی استعارے کے مطابق "دو آتشہ" ہو گیا ہے یہاں تک کہ سول سروس بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ ادبی اور تہذیبی اقدار سے اُس جیسی کمٹ منٹ آج کل کے نوجوان لکھاریوں میں بہت کم نظر آتی ہے (جس کی یقینا کچھ نیم جائز وجوہات بھی ہیں ) لیکن سلطان ناصر نے اپنے کردار اور افکار دونوں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ صورتِ حال جیسی بھی ہو اعتدال اور توازن کو قائم رکھا جا سکتا ہے، اُس کی نظموں کا یہ مجموعہ "کہیں نہیں " اپنے نام میں ہی کئی ایسے سوالات کو سمیٹے ہوئے ہے جن میں ایمان اور تشکیک ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے نظر آتے ہیں، وہ ایک ایسی عینک سے دنیا کو دیکھتا نظر آتا ہے۔
جس کا ایک شیشہ دنیاوی علوم اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور اُس کے مظاہر سے رشتہ آرا ہے اور دوسرے شیشے سے اس کا وہ تہذیبی ماضی جھلک رہا ہے جس میں اُس کے اندر کی آنکھ بھی جلوہ نما ہے، اس مجموعے کی پہلی ہی نظم "لمحہ" میں اُس نے اپنا منشور ِحیات بہت خوبصورتی اور سلیقے سے قلم بند کر دیا ہے تو آیئے اسی لمحے کی معرفت پورے سلطان ناصر کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زندگی کی ندی میں نہاتے ہوئے خوف کھاتے ہو تم
جب فنا کے سمندر میں غوطے لگائو گے
تب کیا کرو گے؟
سو مصنوعی ٹھنڈک کے مارے ہوئے
مردہ خانہ نما بند ڈربے سے نکلو
جیو اور ساون کی بارش میں ناچو
جیو اور دیکھو، شمالی پہاڑوں پہ برفیں پگھلتے ہی
سبزے کا جوبن چڑھا ہے
پپیہے نے آواز دے کر پکار ا ہے "پی" کو
سو تم بھی پکارو کسی کو!
سنو جب تمہارے، لہو میں جمی برف پگھلے گی
جھرنا بہے گا
تو پھر زندگی کی ندی اور فنا کا سمندر
گلے مل کے ناچیں گے تازہ اکائی کی صورت
اُٹھو اور اس لمحہ جانفرا کو پکڑ لو
مبادا کوئی لمحۂ جان گسل تم کو پالے