غالبؔ نے کہا تھا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی عمران خان کی تقریر کو اگر اس شعر کا عکس کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جس خوش اسلوبی، جذبے، منطق اور کمٹ منٹ کے ساتھ موجودہ صورتِ حال میں کشمیر کا مقدمہ پوری دنیا اور ضمیر عالم تک پہنچایا گیا اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہی نہیں بلکہ گناہِ کبیرہ ہو گا کہ اُس کی ذات، جماعت، گورنس اور معاشی پالیسیوں پر تنقید اور اُن سے اختلاف اپنی جگہ اور ممکن ہے کہ کئی باتوں پر میں خود بھی اعتراض کنندگان کی صف میں کھڑا ہوں مگر یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اس کی حد تک عمران خان نے بہت بھرپور اور مثالی انداز میں اپنا فرض نبھایا ہے۔
اس تقریر کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کا انداز وہی تھا جس میں ترقی یا فتہ ممالک ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے میں اضافی اہتمام اس میں یہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت وہاں کے پالیسی سازوں، اہلِ فکر و نظر اور عام عوام کو اس خوبصورت اور موثر انداز میں اس طرح سے مخاطب کیا گیا کہ انھیں ہر ایک بات کان اور ذہن کھول کر سننا پڑی۔ کشمیر پر بات شروع کرنے سے پہلے خان صاحب نے تین ایسے موضوعات چھیڑے جن میں سے ہر ایک پر "انتہائی اہم" یعنی Very Important کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔
ساری دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ، فضائی آلودگی اور پانی کی متوقع کمی اور اس سے ملحقہ خطرات کی نشاندہی ایسی وضاحت سے شائد ہی کسی سیاستدان نے کی ہو کہ یہ باتیں عام طور پر اُس میدان کے ماہرین کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں جو انھیں اس طرح سے اعداد و شمار کا ملغوبہ بنا دیتے ہیں کہ اُس کا وہ چہرہ بہت کم سامنے آ پاتا ہے جس کا تعلق ہماری زمین اور اس پر بسنے والے آدم ذادوں کے مستقبل سے متعلق ہوتا ہے اس طرح سے منی لانڈرنگ اور اس کی وجہ سے غریب ممالک کو درپیش مسائل اور اسلامو فوبیا کے اس ہوّے کا ذکر کیا گیا جو امریکا سمیت کچھ بڑی طاقتوں نے خود کھڑا کیا ہے عمران خان نے بڑی صراحت کے ساتھ دنیا کے سامنے وہ پس منظر رکھا جس میں افغانستان سے رُوس کے انخلاء میں امریکا کی طرف سے جہادی گروپوں کی تعمیر و تشکیل اور اسلحہ سپلائی شامل تھی اور پھر یہ بھی بتایا کہ کس طرح روسیوں کے جانے کے بعد امریکا بہادر نے بھی ایک دم وہاں سے راہِ فرار اختیار کی اور وہ سارے مسلح گروپ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی پھیل گئے اور اُن کی وجہ سے ستر ہزار پاکستانی شہری اور سیکیورٹی کے افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا بہادر افغانستان میں داخل ہوا اور اُس وقت کی پاکستانی حکومت کو ڈرا دھمکا کر اپنا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا حالانکہ نائن الیون کے واقعے میں کسی پاکستانی یا افغانی کا دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا ہماری حکومتوں نے اسے پاکستان کی جنگ بنا کر پیش کیا جو ایک غلط راستہ تھا کہ یہ صرف اور صرف امریکا کے مفادات کی جنگ تھی ایک طرف تو اس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور پاک افغان طویل سرحد پر دراندازی اور دہشت گردی کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہو گیا اور دوسری طرف اس کی ذمے داری بھی انھی لوگوں پر ڈال دی گئی جو خود اس صورتِ حال کا شکار اور نشانہ تھے گزشتہ پچاس برس میں فلسطین، بوسنیا، برما، لبیا، عراق، قطر اور کشمیر کے مسلمانوں سے جس طرح اُن کے انسانی حقوق چھینے گئے ہیں اور انھیں ظلم و ستم کا ٹارگٹ بنایا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن اس کے باوجود اسلامو فوبیا کے نام نہاد نعرے کو ہی ہر عالمی پلیٹ فارم پر ہوا دی جا رہی ہے۔
اس تقریر کا آخری حصہ کشمیر کی صورتِ حال، مودی کے تکبر، ہندوتوا اور نازی ازم کے اشتراک اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بحالی کے بارے میں تھا اور بقول عمران خان اسی کی بات کرنے کے لیے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں شامل ہوا تھا کہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ یہ دو ملکوں کا کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ خود اس جنرل اسمبلی کا تسلیم کیا ہوا ایک معاملہ ہے جس کا تعلق کشمیریوں کے اُس حق خودارادیت سے ہے جو اُن کا بنیادی حق ہے اور جس کی تائید میں خود اقوا م متحدہ گیارہ قراردادیں پاس کر چکی ہے۔
5 اگست کے بعد سے مودی حکومت نے جس طرح سے اسّی لاکھ کشمیریوں کو ایک طرح سے مفلوج کرکے کرفیو اور قید میں رکھا ہوا ہے اور وہاں کے تیرہ ہزار نوجوانوں کو گرفتار کرکے ایک طرح سے غائب کر دیا گیا ہے اور اُن کے لواحقین پر ہر طرح کے ظلم توڑے جا رہے ہیں اُس کا نتیجہ کرفیو اُٹھنے کے بعد ایک خُونی غسل کی صورت میں نکلے گا کہ وہ لوگ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیں گے اور وہاں متعین نو لاکھ بھارتی فوج کو مزید گولیاں برسانے کا موقع مل جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق جس طرح سے اس تقریر کے دوران عالمی نمائندوں نے بار بار تالیاں بجائیں وہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ بات اُن کے دل میں بھی اُتر رہی تھی۔ دُعا ہے کہ یہ ردّعمل اُن کی حکومتوں کی پالیسیوں تک بھی پہنچے تاکہ انصاف کو راستہ مل سکے اگرچہ میں عالمی سطح پر اپنی قومی زبان میں گفتگو کا بہت بڑا حامی ہوں لیکن اس تقریر کی حد تک انگریزی زبان کے انتخاب کا فیصلہ صحیح اور بہتر تھا۔