4 مارچ1801 کو دوسرے امریکی صدر جان ایڈم نے تیسرے اور انتخابات جیتے ہوئے صدر تامس جیفرسن کے لیے وائٹ ہاؤس خالی کرنے سے انکار کر دیا۔
20 جنوری کی دوپہر کو انتقالِ اقتدار ابھی منظور نہیں ہوا تھا مگر اس کی پابندی کی جا رہی تھی، تھامس جیفرسن کی حلف برداری کی تقریب میں ایڈم نے شرکت نہیں کی۔ وائٹ ہاؤس نے سابقہ صدر سے متعلق اشیاء کو وائٹ ہاؤس سے نکالنا شروع کر دیا۔ ایڈم اس عمارت میں باقاعدہ طور پر رہنے والا پہلا امریکی صدر تھا۔
سیکیورٹی کے اداروں نے صدر ایڈم سے تمام رابطوں کو منقطع کرنا شروع کر دیا اور اُس کے احکامات کی تکمیل بھی بند کر دی۔ اُس دن سے عملی طور پر اس عمارت کے تمام مکینوں نے شکست کا احساس ہوتے ہی بوریا بستر باندھنے کی پیشگی روائت کا آغاز کر دیا تا کہ انھیں وہاں کے متعلقہ اداروں کے سامنے شرمسار نہ ہونا پڑے (یہ متعلقہ ادارے فوج، خفیہ پولیس، سی آئی اے، ایف بی آئی اور مخصوص شرائط کے تحت کام کرنے والے وائٹ ہاؤس کے ملازمین پر مشتمل تھے) جن کا کام انتخابات جیت کر آنے والے مرد یا عورت کی خدمت گزاری تھا۔
اس پس منظر میں جونہی جوبائیڈن نے حالیہ انتخابات میں 270 نشستوں پر کامیابی کا جادوئی ہندسہ عبور کیا اور تمام متعلقہ حکومتی اداروں نے اس کی کامیابی کی تائیدکر دی اور اب آگے کا سلسلہ اس طرح سے ہوگا کہ:
1) خفیہ ادارے اپنی معلومات کا تبادلہ نئے صدر سے بھی شرو ع کر دیں گے۔
2) سی آئی اے سیکیورٹی سے متعلقہ معاملات اور اقدامات نئے اور پرانے دونوں صدور کی خدمت میں پیش کرنا شروع کر دے گا کہ اب وہ دونوں بیک وقت کمانڈر انچیف کے اس عہدے پر فائز سمجھے جائینگے۔
3) سی آئی اے کے انڈر ہی قائم وہ مخصوص دفاعی معلومات سے متعلق ٹیم جو خود سی آئی اے کا محاسبہ بھی کرتی ہے، اپنی رپورٹ نئے صدر کو پیش کرنا شروع کر دے گی۔
4) وائٹ ہاؤس کا اسٹاف اُن تمام تبدیلیوں پر عمل شروع کر دیگا جو نئے آنے والے صدر کے مزاج کے مطابق ہوں اور وہ اُن کے ساتھ آسانی محسوس کرے۔
5) 20 جنوری کی دوپہر کو وائٹ ہاؤس کا عملہ گزشتہ صدر کے تمام سامان کو عمارت سے نکال کر اُس کی جگہ نئے صدر کے زیر استعمال آنے والی اشیاء کو اُن کی جگہ پر رکھ دے گا اور یہ کام وہ بغیر کسی مخصوص حکم کے وہاں کی روائت کے مطابق کرے گا۔
6) اسی دن سے وائٹ ہاؤس کے سابقہ مقیم ڈونلڈ ٹرمپ کی تنخواہ سے وائٹ ہاؤس کے کرائے کی کٹوتی ختم اور جوبائیڈن کو ملنے والی تنخواہ سے شروع کردی جائے گی۔
7) بیگم ٹرمپ کی جگہ اب نئے صدر کی بیگم ڈاکٹر جِل خاتون اول ہوں گی اور وائٹ ہاؤس کی تزئین و آرائش اُسی کے حکم کے مطابق ہو گی۔
8) 20 جنوری کی دوپہر سے تمام ادارے نئے صدر کے ماتحت کام کرنا شروع کر دیں البتہ حفاظتی ادارے تا عمر سابقہ صدر کی حفاظتی ضروریات کا ایک حد تک دھیان رکھتے رہیں گے اور یہ سب کچھ بغیر کسی مخصوص حکم کے صرف اور صرف روایات کے مطابق ہو گا۔
اب لطف کی بات یہ ہے کہ 1800کے بعد گزشتہ 220 برس میں پہلی بار اس روائت کو ایسا چیلنج درپیش ہے جس سے نمٹنے کا کوئی طے شدہ فارمولا کسی کے بھی پاس نہیں، اس صدی کے آغاز میں بش جونیئر اور الگور کے الیکشن کے دوران اس طرح کا معاملہ بن سکنے کی صورتحال پیدا تو ہوئی تھی مگر عدالتی فیصلے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آئی اور الگور نے اپنی شکست تسلیم کر کے معاملہ ختم کر دیا مگر اس بار ڈونلڈ ٹرمپ، جان ایڈم کے اُس اقدام کو دہرانے پرتلے ہوئے ہیں کہ وہ عوام کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس کے خلاف عدالت میں جائینگے تا کہ انھیں 20جنوری کو حسبِ روائت وائٹ ہاؤس سے رخصت نہ ہونا پڑے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور چلا آ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں سے ایک اس کے اندرونی سسٹم کی طاقت، شفافیت اور وہ خوبصورتی بھی تھی کہ وہاں کوئی بھی فرد ریاستی اداروں سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور یوں قانون اور آئین کی بالادستی اور روایات کی پاسداری کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے مگر اب ٹرمپ کے "میں نہ مانوں " ٹائپ رویئے نے ان تمام تر تصورات کو خطرے ہی میں نہیں ڈالا بلکہ امریکی معاشرے کو کورونا کے چیلنج سے بھی بڑے خطرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور اپنے اس الیکشن سسٹم کو جو دنیا بھر میں بہترین سمجھا جاتا تھا ایک طرح سے تیسری دنیا میں جاری الیکشن نظاموں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے جن کو ترقی یافتہ دنیا یعنی پہلی دنیا کے ممالک ہمیشہ نشانہ، تنقید وتضحیک بناتے رہے ہیں۔
اس دوران میں امریکا میں مقیم بہت سے احباب سے اس مسئلے پر بات ہو رہی ہے۔ کل شام بھی نیوجرسی میں شکور عالم، ہیوسٹن میں نوجوت زویا اور شکاگو میں برادرم عرفان صوفی سے رابطہ ہوا تو اتفاق سے یہ تنیوں خواتین و حضرات سات سے زیادہ امریکی انتخابات کو بے حد قریب سے دیکھ چکے ہیں کہ وہ خود وہاں کے ووٹر بھی ہیں، اُن کا متفقہ فیصلہ یا ردِّعمل بھی یہی تھا کہ اس الیکشن نے امریکی معاشرے میں مدت سے پس پردہ جاری ان تبدیلیوں کو ایک طرح سے چوک کے بیچ لاکھڑا کیا ہے جو ایک بہت امتحانی، مشکل اور فوری طور پر حل طلبِ صورتحال ہے کہ اس تبدیلی کا اثر صرف امریکا ہی نہیں پوری دنیا پر پڑے گا جس سے ایک ایسی نئی معاشرتی تنظیم اور انسانی رشتوں کا تصور جنم لے گا جو ہمیں ایک بالکل نئی اور مختلف دنیا میں لے جائے گا۔
ہماری طرح کے تیسری دنیا کے نسبتاً غریب اور ترقی پذیر معاشروں کے لیے یہ تبدیلی اور بھی زیادہ انقلابی اور ہمہ گیر ہو گی کہ ابھی تو ہمارے یہاں وہ ادارے مستحکم بھی نہیں ہوئے تھے جن کی ٹوٹ پھوٹ سے یہ نئی دنیا جنم لے رہی ہے البتہ یہ اپنی جگہ پر ایک درس عبرت ضرور ہے کہ جہاں بھی انسانوں کو رنگ، نسل، مذہب یا زبان کی بنیاد پر زبردستی تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی اس کے نتائج خود ان کوشش کرنے والوں کو لے ڈوبیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت ٹرمپ کی طرح کی سوچ کے حامل اور اس کی پیروی کرنے والے لوگوں کی کمی نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس سوچ کو بدلنا ہو گا اور حکومت کا حق، دولت، خاندان، طاقت یا کسی اور قوت کے بجائے صرف اور صرف عوام کی نمایندگی اور اُن کی دل سے خدمت کرنے والوں کو ہی ملنا چاہیے۔